ابھی قوم پندرہ جنوری بدھ کے روز نواب شاہ میں پیش آئے بچوں کی اِسکول وین اور خونی ڈمپر ٹرک کے تصادم کے نتیجے میں 20 بچوں سمیت 22 افراد کی ہلاکت اور 15 سے زائد زخمی ہونے والے طالبعلموں کے غم سے نڈھال ہی تھی کہ پشاور میں سولہ جنوری جمعرات کی شام تبلیغی مرکز کی مسجد میں مغرب کی نماز کے دوران ایک ایسا زور دار بم دھماکہ ہوا کہ جس کے نتیجے میں ایک آٹھ سالہ معصوم بچے سمیت 9 نمازی شہید اور 60 سے زائد دیگر شدید زخمی ہوگئے، یہ ایک ایسا المناک واقعہ تھا کہ جس نے ساری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور آج قوم کا ہر فرد اِس سوچ میں غرق ہوکر اِن سوالات کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں ہے کہ” آج جب مُلک دُشمنوں اور انتہا پسندوں نے اللہ اور اُس کے رسول ۖ کی تعلیمات کو لوگوں تک امن و سکون سے پہنچانے والے تبلیغی اجتماع کو نہیں چھوڑا تو پھر مُلک میں دہشت گردی پھیلاکر لوگوں کو مارنے والے اِنتہا پسند کس اسلام کا پرچار کرنے والے لوگ ہیں؟ تبلیغی مراکز والے تو کسی بھی سیاسی، یا کسی بھی لسانی جماعت کے لوگ نہیں ہوتے ہیں؟
اور نہ ہی اِن لوگوں کا سیاست سے کوئی واسطہ ہوتا ہے اِن کا کام تو صدیوں سے اسلام اور دین محمدۖ کی تعلیمات کی تدوین وترویج کر ناہے، یہ کہاں کی انسانیت اور انتہا ہے کہ انتہا پسندوں نے تبلیغی مرکز والوں کو بھی نہیں چھوڑاہے؟ آج قوم یہ سوچ رہی ہے کہ جو دہشت گردخود کو اسلام کا اصل ٹھیکے دار سمجھتے ہیں، اَب یہ تبلیغی مرکز پر حملہ کر کے اپنے کس دین کی تعلیمات اور اپنے کس نبی کا پرچار کرنا چاہتے ہیں.؟ انتہا پسند ہی مُلک دُشمن ہیں، کیا ایسے میں اِن سے امن مذاکرات ممکن ہیں.؟
کیا پاکستان کو مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بنانا دہشت گردوں کا مشغلہ بن گیاہے ..؟طالبان صحافیوں اور میڈیا پرسنز پر حملوں سے کیا ثابت کرناچاہتے ہیں ..؟طالبان اپنے اختلافات صحافیوں سے مذاکرات کرکے ختم کریں اور صحافیوں پر حملے کرنابندکریں…؟آپ اپنا موقف بھی صحافیوں کے سامنے پیش کریں تو وہ یہ بھی عوام الناس میں عام کریں گے…اَب ہے کوئی جو قوم کے اِن سوالات کے درست اور تسلی بخش جوابات دے سکے۔
Tablighee Markaz
جبکہ پشاور میں تبلیغی مرکز پر ہونے والے بم دھماکے کے حوالے سے مستقبل قریب میں حکومت اور کالعدم تحریک طالبان سے ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے ایک خبریہ بھی آئی ہے کہ کالعدم تحریکِ طالبان نے پشاور کے تبلیغی مرکز میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے اور اِس سے اِظہار لاتعلقی کر کے یہ واضح کر دیا ہے کہ اِس کا اِس واقعے سے قطعاََ کوئی تعلق نہیں ہے، جبکہ افسوسناک امریہاں یہ بھی ہے کہ گزشتہ دِنوں کراچی میں میٹرک بورڈ کے قریب ایکسپیرلیس نیوز وین پر پیش آئے فائرنگ کے واقعے کی اِسی کالعدم تحریک طالبان نے نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے تین صحافیوں کو فائرنگ کرکے شہید کئے جانے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، اَب ایسے میں حکومت کو خودیہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ وہ خود اِس کا پتہ لگائے کہ ہمارے یہاں دہشت گردی میں کون سی خفیہ قوت یاقوتیں ملوث ہیں؟ اور جب حکومت ایسا کرے گی تو پھر یقیناوہ اِس نتیجے پربھی ضرور پہنچے گی کہ مُلک میں ہونے والی ہر دہشت گردی کے پیچھے کون سے لوگ ملوث ہیں..؟ اور کیوں ملوث ہیں..؟ اِن کے کیا عزائم ہیں ..؟ اور اِن سے کس حدتک مذاکرات کئے جاسکتے ہیں؟
اگر بالفرض مذاکرات شروع بھی ہو کر ختم بھی ہو گئے تو دونوں جانب سے کیا ضمانت ہوگی کہ یہ قائم رہ سکیں گے…؟ اور کیا دونوں جانب کے لوگ اِس پر من وعن عمل بھی کریں گے…؟ اِن ساری باتوں کا خیال کرتے ہوئے مذاکرات شروع کئے جانے چاہئیں، اور اِن کے ساتھ ہی یہ بھی ضرور دیکھنا ہو گا کہ کون سی عالمی طاقتیں ملوث ہیں جو حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ شروع ہونے والے پُرامن مذاکرات میں دیدہ ودانستہ رخنہ ڈالنے کے لئے دہشت گردی کی وارداتیں کروا رہی ہیں، آج شاید یہ وہ خوفزدہ طاقتیں ہیں، جویہ نہیں چاہتی ہیں کہ پاکستان امن و سلامتی کا گہوارہ بن کر دنیاکے نقشے پر حقیقی معنوں میں ایک خود مختار اور مستحکم مُلک بن کر اُبھرے اِسی وجہ سے پاکستان میں رہ کر اِس کی آستین کے سانپ بن کر کچھ طاقتیں اپنے مطالبات کے منوانے تک کسی کا آلہ کار بن کر پاکستان میں دہشت گردی کر رہی ہیں اور پاکستان کو غیر مستحکم کر کے اپنے گھناؤنے عزائم کی تکمیل چاہتی ہی۔
بہر کیف .اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج میرے مُلک میں (تبلیغی مرکز، مساجد و اِمام بارگاہوں، جنازوں و مذہبی اجتماعات ،جلسے وجلوسوں، مدرسوں،اسکولوں، کالجوں، جامعات، بازاروں مسافرگاڑیوں،اخبارات کے دفاتر، صحافیوںو میڈیاپرسنز اورفورسز کے اداروں سمیت گلی کوچوںمیں بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ جیسی) دہشت گردی کے جتنے بھی اَنہونے واقعات رونما ہورہے ہیں ، اِن سب کے پسِ پردہ ہمارے حکمرانوں کی کم عقلی اور اِن کی مُلک و قوم سے عدم دلچسپی کا عنصر زیادہ غالب ہے، کیونکہ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی کسی مُلک کے حکمران اور اُمورِ مملکت چلانے والے بینا اپنے مفادات کے لئے بینا بن کر بھی نابینابن جائیںاور یہ اپنے دوست دُشمن کی تمیز کرنابھول کر کسی اور کی جنگ کا حصہ بن جائیں اور اِس کی جنگ کو اپنی ہی جنگ بناڈالیں تو اُس مُلک و قوم کا ایساہی بُرا حشر ہواہے جیساکہ آج ہمارے مُلک اور قوم کا ہورہاہے اِس لئے کہ آج ایک طرف حکمران تو نابیناکا روپ دھار ے بیٹھے ہیں اور دوسری طرف دہشت گرد عناصر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے انتقاماََ جا بجا طور پربُراکررہے ہیں۔
جبکہ موجودہ حالات میں مُلک اور قوم کودہشت گردی جیسے جس ناسُور کا سامنہ ہے، اِن حالات میں اِس سے نجات اور چھٹکارے کا ایک واحد حل صرف یہی ہے کہ اَب ہمارے حکمران و سیاستدان اور اِسی طرح ہمارے قومی اداروں کے کرتا دھرتا اِس نقطے پر متفق ہو جائیں کے مُلک کو ہر صُورت میں دہشت گردوں کی دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو اِن سے ہر سطح پر افہام و تفہیم اور فہم و فراست سے مذاکرات کی را ہ ہموار کرنی ہے اور جو بھی دہشت گرد اِس مذاکراتی عمل کا حصہ بننا چاہیں اِن سے ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر ہر حال میں مذاکرات کرنے ہوں گے، اور اِنہیں اِس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ کچھ دواور کچھ لو کی پالیسی پر کاربند رہ کر مذاکراتی عمل کو کامیاب بنائیں اور اَب یہ عمل ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر بہت جلد شروع کر دیا جائے، تاکہ آج جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ حکومتی مذاکراتی عمل ابھی تک شروع ہی نہیں ہواہے، تو پھر اِس میں بھلا تعطل کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے …؟
حکومت مذاکرات شروع کر کے اِن لوگو ں کا منہ بند کردے، سُو حکومت، سیاستدان اور قومی اداروں کے کرتا دھرتا اَب جلد ایسا کچھ کریں کہ مذاکراتی عمل شروع ہو اور قوم کو بھی امن اور سَکون کی نوید سُنائی دے، اور پھر اِس کے بعد ہمارے حکمران و سیاستدان اور قومی اداروں کے ذمہ داران اپنے دُشمنوں کو ٹٹول کر دیکھیں کہ اَب اُن کا اور میرا…اور ہم سب کا اصل دُشمن کون ہے..؟ کیوں کہ جب کوئی نابینا کسی چیز سے ٹکراتا ہے یا کوئی چیزاِس سے خود ٹکراتی ہے تو تب نابینا ٹٹول کر اندازہ کرتا ہے کہ اِس سے جو چیزٹکرائی ہے وہ کیا چیز ہے..؟ اور کون ہے..؟ قارئین حضرات مجھے اُمیدہے کہ آپ اور وہ لوگ جنہیں میں اپنی بات سمجھانا چاہ رہا ہوں وہ میری بات سمجھ گئے ہوں گے اور شاعر کے اِن اشعار اور اِس دعاکے ساتھ کہ اپنے ایمان اور اپنے مُلک اور قوم کاخیال رکھیں اور اپنے حکمرانوں کو بینابن کر کچھ صحیح کرنے کی دعا کریں اور مجھے اگلے کالم تک کے لئے اجازت دیں، اللہ حافظ: –
مُسلماں کا مُسلماں خُوں بَہائے یہ دینِ حق کی تربیت نہیں ہے کِتابِ دیں وفاکی ہے پیامی کِتابِ دیں میں عصبیّت نہیں ہے اور اَب جلدی اُٹھو اور پھر ایسا کردو جیسا کہ شاعر نے کہا ہے کہ:۔
تعصّب کی ہراِک شمع بُجھادو علاقائی فصیلوں کو گِرا دو ! دیارِ پاک کے ہر بام ودَر کو مُحبّت کے گلابوں سے سَجا دو