کراچی (جیوڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان نے ملازمتوں کے مقدمات میں حدود سے تجاوز کرنے اور سپریم کورٹ کے احکام کی موجودگی میں ریلیف دینے سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کے احکام پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی ہے کہ سندھ ہائیکورٹ کے بعض فیصلے سپریم کورٹ کے فیصلوں میں مداخلت کے مترادف ہیں اس لیے یہ معاملات چیف جسٹس آف پاکستان کے روبرو پیش کیے جائیں۔
جسٹس امیرہانی مسلم نے یہ آبزرویشن کیپٹل پولیس افسرکی پولیس افسران کی ترقیوں سے متعلق سندھ سروسز ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف سول پٹیشن کی سماعت کرتے ہوئے جاری کی۔
ملازمتوں سے متعلق مقدمات کی سماعت کے دوران یہ صورتحال سامنے آنے کے بعد کہ سندھ ہائیکورٹ ان معاملات پر حکم امتناع جاری کر چکی ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے سخت نوٹس لیا اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود خلاف ضابطہ ترقی پانے والے پولیس ودیگر افسران کو عدالت عالیہ سے ریلیف ملنے کا نوٹس لیتے ہوئے تفصیلات طلب کیں۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سرور محمد خان اور اے آئی جی (لیگل) پولیس علی شیر جکھرانی نے سندھ ہائیکورٹ میں ڈیپوٹیشن اور خلاف ضابطہ ترقی پانے والے افسران کی جانب سے دائر کردہ آئینی اور سول درخواستوں کی تفصیلات پیش کیں۔
عدالت کے استفسارپر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ آئی جی سندھ نے پولیس افسران کی سینیارٹی سے متعلق ایک اسٹینڈنگ جاری کردیا تھا مگر تنزلی پانے والے افسران نے سندھ ہائیکورٹ سے ریلیف حاصل کیا اور عدالت عالیہ نے مختلف مقدمات میں ان افسران کے حق میں حکم امتناعی جاری کردیے ہیں جس کے باعث صوبائی حکومت کوان افسران کی سینیارٹی طے کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ عدالت عالیہ نے مذکورہ اسٹینڈنگ آرڈر پر عمل درآمد بھی معطل کردیا ہے۔