اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے اوگرا عمل درآمد کیس کی تحقیقات میں پیش رفت نہ ہونے پر چیئرمین نیب کو کل طلب کر لیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دئیے کہ نیب نے ہمیشہ وقت ہی مانگا، کبھی بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود نیب نے اوگرا عمل درآمد رپورٹ جمع نہ کرائی جس پر عدالت نے شدید برہمی کا اظہار کیا، تو پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے وضاحت کی کہ راولپنڈی نیب کے پاس اس بارے میں کوئی رپورٹ موجود نہیں، کیس کے تحقیقاتی افسر اس وقت شہر میں موجود نہیں، اس لئے عدالت رپورٹ جمع کرانے کے لئے دو ہفتوں کی مہلت دے،جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ اگر کسی اچھے نتیجے کی توقع ہو تو عدالت دو سال کا وقت بھی دے دے،اتنا بڑا کرپشن کیس ہے لیکن نیب سنجیدگی نہیں دکھا رہا۔
کیس کو26 ماہ ہو چکے ہیں، نیب کبھی پنجاب پولیس، امیگریشن اور ہائی وے سے تحقیقات کررہا ہوتا ہے، تحقیقات اس قدر طویل ہو گئی ہے کہ کوئی نتیجہ نہیں آ رہا اور ہم اب تک وہیں کھڑے ہیں۔کے کے آغا نے وضاحت کی کہ چیئرمین نیب کا آئینی عہدہ خالی تھا، اس وجہ سے کیس پر پیش رفت نہیں ہو سکی، ہم نے تحقیقات مکمل کر لی ہے، جلد فیصلہ کر لیا جائے گا جس جواد ایس خواجہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نیب نے ہمیشہ وقت ہی مانگا ہے، کبھی بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی نہیں کی، اگر چیئرمین نیب عہدے پر نہ ہوں تو کیا اتنے اہم مقدمات یوں ہی زیر التوا رہیں گے اور چیئرمین نیب کا عہدہ تو صرف 5 ماہ خالی رہا باقی 21 ماہ نیب نے کیا کیا، اب بہت ہو گیا اس سلسلے میں اب مزید وقت نہیں دیا جائے گا۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ نیب سے چار پہلو پر جوابات مانگے ہیں۔ توقیر صادق کی تقرری میں کون ملوث ہے؟ توقیر صادق کی جانب اوگرا میں 82 ارب روپے کی کرپشن کا ذمہ دار کس کو ٹہرایا گیا؟ توقیر صادق کو ملک سے فرار کروانے میں کس نے مدد کی؟ توقیر صادق کو واپس لانے میں کتنے اخراجات آئے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ عدالت نے نیب حکام کے خلاف توہین عدالت کی کاروائی نہیں کی کیونکہ ہم نیب حکام کو اس کیس میں وقت دینا چاہتے تھے لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ عدالت نے اوگرا کرپشن کیس میں ابتک ہونے والی تحقیقات کو غیر تسلی بخش قرار دیتے ہوئے چیرمین نیب کل طلب کر لیا۔