تیسرے خلیفہ راشد عثمان بن عفان بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف نے زمانہ جاہلیت میں پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا۔ جوانی میں تجارت کا پیشہ اختیار کیا۔
اپنے زمانے کے ارب پتی تھے، سخاوت کی وجہ سے غنی کے لقب سے مشہور ہوئے۔ فروغ اسلام اور استحکام دین کیلئے اپنی دولت کو بے دریغ نچھاور کیا۔
اسلام قبول کرنے والے چوتھے مرد حضرت عثمان رضی اللّہ تعالی عنہ کی یوں تو دینی خدمات بے شمار ہیں جیسے مسجد نبوی کی توسیع جس سے اسکا رقبہ x160 150 مربع گز ہو گیا۔
قرآن پاک کی نقلیں تیار کروا کر مختلف علاقوں میں محفوظ کروا دی گیئں، مسجد قبا کے لیے وسیع مالی امداد، خود زکوة نکالنے کے طریقے کو رائج کرنا، پہلے باقاعدہ اسلامی بحری بیڑے کی تیاری وغیرہ تاہم بیس ہزار درہم ادا کر کے مدینہ میں واقع بیئر رومہ نامی کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دینا ایک ایسا صدقہ جاریہ تھا جس سے آج کے ضرورت مند بھی فیض ہو رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سعودی عرب کے ایک بنک میں سخاوت کے پیکر حضرت عثمان غنی رضی اللّہ تعالی عنہ کا ایک کرنٹ اکاؤنٹ آج بھی موجود ہے جہاں ان کے نام پر رقوم جمع ہوتی ہیں۔ اس اکاؤنٹ کا پس منظر یہ ہے کہ جب رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو مسلمانوں کیلئے پانی کی قلت کا مسئلہ پیش آیا۔ مدینہ میں ایک ہی کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا۔
وہ مسلمانوں کو بہت مہنگا پانی فروخت کرتا تھا۔ جناب محمد رسول اللّہ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جو یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دے۔ حضرت عثمان غنی زوالنورین نے اپنے آقا صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش پر لبیک کہا لیکن یہودی کنواں بیچنے پر تیار نہ تھا یہاں زوالنورین کے لقب کی وضاحت کرنا مناسب ہوگا۔
Hazrat Muhammad PBUH
حضور اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں حضرت عثمان بن عفان کے نکاح میں آئیں یعنی حضرت رقیہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالی عنہ اسی وجہ سے انھیں زوالنورین کا لقب ملا۔ چناچہ منہ مانگی قیمت دینے کی شرط پر یہودی ایک دن پانی خود فروخت کرنے اور اگلے دن مسلمانوں کیلئے پانی استعمال کرنے کی پیشکش پر راضی ہو گیا۔
اب ہوا یوں کہ مسلمان اپنی باری کے روز پانی پیتے اور اگلے دن کیلئے محفوظ کر لیتے۔ یہ صورتحال دیکھ کر جلد ہی یہودی نے سارا کنواں حضرت عثمان رضی اللّہ تعالی عنہ کو فروخت کر دیا۔ یہ کنواں مسلمانوں کیلئے پانی کی ضرورت پوری کرتا رہا۔ اس کنویں کے ارد گرد کجھوروں کے باغات لگ گئے جو دور تک پھیل گئے، یہ کنواں انسانوں اور باغوں کو سیراب کرنے میں لگا رہا۔
عثمانی سلطنت میں بھی اس کنواں اور باغات کی دیکھ بھال کی جاتی رہی، سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد سعودی حکومت نے اسے اپنی نگرانی میں لے لیا۔ اور انتظام و انعرام و دیکھ بھال کے پیش نظر انتظامی ادارے میونسپل کارپوریشن میں رجسٹرڈ کر لیا۔ سعودی حکومت کا محکمہ زراعت اس باغ سے کجھوریں حاصل کرتا اسے بیچتا اور جو رقم حاصل ہوتی اسے حضرت عثمان رضی اللّہ تعالی عنہ کے نام سے بنک میں ایک اکاؤنٹ کھول کر اس میں جمع کرتا رہا۔
سال ہا سال کے دوران ,, باغ وقف سید نا عثمان،، کی کجھوروں کی آمدنی سے اتنی زیادہ رقم اکٹھی ہو گئی کہ اب حکومت نے شہر کے مرکز میں زمین خریدی ہے، جہاں ایک عثمان ابن عفان کے نام سے ایک فائیو سٹار ہوٹل تعمیر کیا جا رہا ہے، ایک اندازے کے مطابق اس ہوٹل کی سالانہ آمدن پانچ کروڑ ریال ہو گی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللّہ تعالی عنہ پر اللّہ تعالی کا لطف و کرم ملاحضہ فرمائیے کہ ان کے نام کا اکاؤنٹ دنیا میں بھی کْھلا ہے اور آخرت میں بھی۔ اْن کے اکاؤنٹ میں برکت کا یہ عالم ہے کہ جس صدقہ جاریہ کا انھوں نے آغاز کیا تھا اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، یہاں بھی اور وہاں بھی۔