1995ء کی بات ہے جب امریکہ کی ریاست اوکلا ہاما میں دہشت گردی کی ایک بڑی واردات ہوئی، ابھی یہ واردات جاری ہی تھی کہ امریکی ٹیلی ویڑن چینلز نے ایک باریش نوجوان کی نشاندہی کرتے ہوئے واردات میں مسلمانوں کو دہشت گردقرار دے کر ملوث ہونے کی خبریں نشر کرنا شروع کر دیں، مگر چند گھنٹوں بعد معلوم ہوا کہ واردات میں ایک امریکی عیسائی نوجوان ٹموتھی میک ویہہ ملوث ہے۔ کچھ اسی طرح کی صورتحال ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں بھی پیش آئی، جب دہشت گردی کی واردات جاری تھی کہ ناروے، امریکہ اور یورپ کے ریڈیو اور ٹی وی چینلز چیخ چیخ کر یہ پروپیگنڈہ کر رہے تھے کہ واردات میں القاعدہ کا ہاتھ ہے، اُس وقت بعض مبصرین نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اِس واردات کی وجہ ناروے کے اخبار میں شائع ہونے والے توہین رسالت پر مبنی نازیبا کارٹون ہیں، کسی نے دلیل دی کہ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ناروے کے فوجی افغانستان میں لڑ رہے ہیں، لیکن چند گھنٹوں بعد معلوم ہوا کہ واردات میں ناروے کا بنیاد پرست عیسائی شہری آندرے بہرویک ملوث ہے،جس نے 90 سے زیادہ بے گناہ لوگوں کو مار ڈالا۔ آندرے بہرویک نے حراست میں لیے جانے کے بعد نہ صرف اپنے جرم کا اعتراف کیا بلکہ اُس پر فخر کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ اُس نے یہ قدم مغربی دنیا کو اسلام اور مسلمانوں سے محفوظ بنانے کیلئے اٹھایا ہے، اُس نے اپنے اِس اقدام کے جواز میں انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی 15 سو صفحات پر مشتمل دستاویز بھی چھوڑی۔
یہاں یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے کہ جیسے ہی سانحہ اوسلو کے ذمہ دار آندرے بہرویک کا نام دنیا کے سامنے آیا، ناروے حکومت اور ذرائع ابلاغ نے اپنا پینترہ بدل لیا اور یہ ثابت کرنے کی کوششیں شروع کر دی کہ آندرے ”پاگل” ہے، اُس کا ذہنی توازن درست نہیں ہے۔مغرب کی اِن کوششوں کا مطلب یہ تھا کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ آندرے محض ایک ”فرد” ہے، ناروے یا مغرب کا نمائندہ نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کوئی پاگل آندرے کی طرح کھیتی باڑی اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف 15 سو صفحات پر مشتمل دستاویزات تخلیق کرتا ہے ۔؟ اگر مغربی دنیا آندرے بہرویک کو ایک فرد قرار دے کر اجتماع سے الگ کرسکتی ہے تو پھر یہی اصول مسلم دنیا کیلئے کیوں استعمال میں نہیں لایا جاتا۔؟ اِس سوال کا جواب کسی مغربی مفکر اور دانشور کے پاس نہیں ہے۔
Islam
قارئین محترم !درج بالا واقعات سے مغربی دنیا کی اجتماعی سوچ کے کئی اہم پہلو نمایاں ہو کر ہمارے سامنے آتے ہیں، مگراِس کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مغربی دنیا نے اسلام، صاحب اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹ فریب اور قیاس آرائی کو اپنی پالیسی کا بنیادی نقطہ بنایا ہوا ہے۔ آج مغربی ذرائع ابلاغ معروضیت (Objectivity) کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے پیشے میں اِسے ایمان کا درجہ دیتے ہیں مگر وہ عملی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں،حالانکہ پیشہ ورانہ دیانت اور اخلاقیات کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر آپ کی نشر کردہ خبرکسی وجہ سے غلط ثابت ہوجائے تو اُس پر متعلقہ فرد، افراد یا ادارے سے فوری معذرت طلب کی جائے اور آئندہ اِس قسم کی لغو اور بے بنیاد خبر کے نشر ہونے سے بچنے کی تدابیر اختیار کی جائیں، مگر عملاً ایسا نہیں کیا جا رہا، آج بھی مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ جھوٹی اور بے بنیاد قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسلام، صاحب اسلامۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اُمت محمدیہۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دہشت گرد ظاہر کر کے دنیا میں بدنام کر رہے ہیں،جبکہ مغربی میڈیا کے کسی نمائندے کو یہ توفیق نہیں ہورہی کہ وہ اپنی جھوٹی خبروں اور بے بنیاد قیاس آرائیوں پر شرم و ندامت کا اظہار کرتے ہوئے عالم اسلام سے معذرت طلب کرے۔
در حقیقت مغرب کا یہ طرز عمل علم، انصاف، توازن، تہذیب اور دلیل سے خالی ہے، دنیا میں آزادیٔ اظہار رائے، حقوق انسانی اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا مغرب اسلام اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف دوہرا معیار اپنائے ہوئے ہے، وہ اپنی منافقت اور تعصب کو ”آزادی اظہار” کے لبادے میں چھپانے کی کوشش کرتا ہے، یہ کتنی عجیب بات ہے کہ مغرب جو آزادیٔ رائے، حقوق انسانی، روشن خیالی، وسعت نظر، عدم تشدد، مذہبی روا داری، شہری آزادی، جمہوریت اور آزادیٔ نسواں کا چیمپین ہونے کا دعویدار ہے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز متعصبانہ رویہ رکھتا ہے، آج مغرب میں آزادی ٔ اظہار رائے کا مطلب پرنٹ اور الیکڑانک میڈیا کے ذریعے ٔ اسلام،صاحب اسلامۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقدس اسلامی شخصیات کی توہین و تمسخر اڑانا لیا جاتا ہے، جوپورے مغربی معاشرے کی اجتماعی سوچ کا مظہر ہے، معاملہ یہ ہے کہ مغرب پہلے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام کی مقدس شخصیات کی توہین و تنقیص کرتا ہے اور جب ردعمل میں کہیں کوئی انفرادی واقعہ رونما ہوجاتا ہے تو وہ اُسے جواز بنا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز منفی پروپیگنڈے میں مصروف ہوجاتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کر تا ہے کہ اسلام تشدد پسند دین اور اِس کے ماننے والے متشدد لوگ ہیں، یہی مغرب کا مکروہ طریقہ واردات اور اصل نفسیات ہے، پہلے وہ مد مقابل سے اپنے مقائیس اور فکری کسوٹیاں منواتا ہے اور پھر چابکدستی سے اُس عمل پیرا ہو جاتا ہے۔
آج مغربی دنیا کا طرز عمل یہ ہے کہ وہ گاہے گاہے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مقدس شخصیات کی شان میں گستاخی کی جسارت کر کے عالم اسلام کی دل آزاری کر تا ہے اور پھر اپنے فعل قبیح کو آزادیٔ اظہار کا نام دے کر جاری رکھنے پر بصد بھی رہتا ہے، جبکہ آزادی اور کسی کی دل آزاری میں زمین آسمان کا فرق ہے، دنیا کے کسی معاشرے میں رائے کے اظہار کی ایسی آزادی نہیں دی گئی کہ جب چاہے، جو چاہے کسی کی بھی عزت خاک میں ملادے ،آج دنیا کے ہر معاشرے میں اپنے اپنے حالات وعوامل کے مطابق اظہار رائے کی حدود مقرر ہیں، حقائق کو بیان کرنے کیلئے بھی کچھ ضابطے اور قرینے مقرر کیے گئے ہیں، جیسے یورپ وامریکہ جہاں فحاشی وعریانی عروج پر ہے مگر بچوں میں جنسی ہیجان پیدا کرنے والی فحش نگاری اور مذہبی ونسلی منافرت پھیلانے والی تحاریر و تقاریر پر پابندی ہے، آسٹریا، بیلجیئم، چیک ری پبلکن، فرانس، جرمنی، اسرائیل، ایتھوپیا، پولینڈ، رومانیہ، چیکو سلواکیہ، سوئزر لینڈ وغیرہ میں عالمی جنگوں کی تباہی کے انکار کو فوجداری جرم قرار دیا گیا ہے، یورپ کے اکثر ممالک میں ہولو کاسٹ کے انکار بلکہ اُس کے بارے میں یہ تک کہنے کی اجازت نہیں کے اُس میں ہلاک شدہ یہودیوں کی تعداد مبالغہ آمیز ہے۔
خود آزادیٔ اظہار رائے کی بات کرنے والے مغرب کی اپنی حالت یہ ہے کے وہاں بھی کوئی کھل کر اُن کے دستور، اقتدار اعلیٰ یا پالیسیوں پر بات نہیں کر سکتا، صرف یورپ و امریکہ کیا، پوری دنیا میں ہتک عزت اور توہین عدالت کے قوانین موجود ہیں، دنیا کے ہر ملک میں وہاں کے دستور یا اقتدار اعلیٰ سے بغاوت یاباغیانہ اظہار رائے کو سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اور مجرموں کیلئے موت تک کی سزا موجود ہے، اسی طرح مقدس ہستیوں، مقدس مقامات، اور مقدس اشیاء کی توہین پر بھی سزا کا قانون زیادہ ترممالک میں موجود ہے، مگر جب معاملہ اسلام، صاحب اسلامۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قابل تعظیم اسلامی شخصیات کا آتا ہے تو یہ تمام اصول و قاعدے اور ضابطے وقانون معطل وبے اثر ہوجاتے ہیں اورایسے فعل قبیح کی جسارت کرنے والے کو نام نہاد آزادیٔ اظہار کاتحفظ فراہم کر دیا جاتا ہے۔
Enemies Of Islam
مغرب کے اسی اسلام دشمن کردار اور دوہرے منافقانہ معیار کو دور حاضر کے نوجوان اسکالر محمد متین خالد نے اپنی نئی کتاب”آزادی ٔ اظہار کے نام پر”میں بے نقاب کیا ہے، انہوں نے اِس کتاب میں بے لگام آزادی اظہار کے خبط میں مبتلا مغرب کے مکروہ چہرے کی نقاب کشائی کرتے ہوئے دلائل وبرہان سے ثابت کیا ہے کہ اخلاق، مساوات، رواداری، انسانی آزادی اور آزادیٔ اظہار کے نام نہاد علمبرداروں کا اصل کردار کیا ہے اور وہ کس طرح رعونت، عدم برداشت اور دشنام طرازیوں کے شرمناک عملی نمونے پیش کرتے ہیں، کتاب میں نامور ادیب ودانشور اور مشہور کالم نویس محمد صلاح الدین، ڈاکٹر محمد امین، شاہنواز فاروقی، پروفیسر عبدالجبار شاکر، پروفیسر خورشید احمد، عطاالرحمن، اور یا مقبول جان، ڈاکٹر انیس احمد، محمد اسماعیل قریشی، سابق وزیر خارجہ آغا شاہی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید، اسرار کسانہ، سید عاصم محمود، محمد عامر خاکوانی، پروفیسر شمیم اختر، اشتیاق بیگ، ڈاکٹر مجاہد منصوری، حافظ شفیق الرحمن، ڈاکٹر عامر لیاقت حسین، ارشاد احمد حقانی، حامد میر، عرفان صدیقی، انور غازی، انصار عباسی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، عطا اللہ صدیقی اور رابرٹ فسک وغیرہ کے تقریبا 100 کے قریب تحقیقی مضامین و مقالات شامل ہیں، جو دین اسلام میں شخصی آزادی کی حدود و قیود واضع کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ دین اسلام آزادیٔ رائے کی اجازت دینے کے باوجود اِس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کے بنیادی عقائد اور اقدار پر تیشہ زنی یا کیچڑ اچھالی جائے، یا کسی کو ایسی شخصی آزادی حاصل ہو جو فرد اور معاشرے کیلئے فتنہ و فساد کا سبب بن جائے، بلاشبہ یہ تحقیقی کتاب صاحب ِمولف کی عرق ریزی کی مظہر اور اعجاز قلم کا منفرد شہکار ہے، جس کا مطالعہ مغرب کی اسلام دشمنی کا پردہ چاک کرتا ہے، صاحب مطالعہ کے ایمان کو نئی جلا بخشتا ہے اور قلب و روح کو طمانیت و آسودگی عطا کرتا ہے۔