جی ہاں اب اس شہرت کو نگوڑی نہ کہیں تو کیا کہیں اِس کا نشہ بھی تو سر چڑھ کر بولتا ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے پہلے بخار کی صورت سر میں داخل ہوتا ہے اور انسان کی مت مار دیتا ہے پھر آنکھوں میں اتر کر اسے اندھا کر دیتا ہے اس قدر اندھا کہ انسان کو اپنے اچھے برے کی پہچان نہیں رہتی۔
شہرت پانے کی خواہش فطرت کے عین مطابق ہے جو ہر انسان کے دل میں پائی جاتی ہے اس کی جستجو کے لیے اپنے اندر پوشیدہ صلاحیتوں کو شب و روز کی لگاتار محنت ۔کوشش ۔ اور لگن کی بھٹی میں جلا کر کندن بنا نا پڑتا ہے قربانی اور انتھک کام سے سوئی ہوئی قسمت کو جگانا پڑتا ہے
اس کے باوجود اس دشتِ آرزو میں ہزاروں انسان نا مراد رہ جاتے ہیں اور ہزاروں پر قسمت کی دیوی مہربان بھی ہو جاتی ہے مگر ایسے انسانوں کو کیا کہیں جن کے دلوں میں پہلے شہرت خواہش کی صورت اور پھر راتوں رات مشہور ہونے کے جنون میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
اب محنت کون کرئے اور دنیا کی ٹھوکریں کون کھائے سو ایسے انسان آسان رستوں کی تلاش میں جت جاتے ہیںشائد انہی پر یہ بات ثابت آتی ہے بدنام نا ہونگے تو کیا نام نا ہوگا کسی آرٹسٹ کے ساتھ مداحوں کا تصویریں بنانا ایک عام سی بات ہے اور یہ عجیب بھی نہیں لگتا مگر گذشتہ روز دنیا کی ایک بڑی ویب سائٹ فیس بک پر ایسی ہی شہرت کی دلداہ خواتین کی امامِ مسجدِ نبوی کے ساتھ ایک تصویر نے ہر اس انسان کے دل کو ٹھیس پہنچائی جن کے دل میں امام مسجد نبوی کا بے حد احترام اور تقدس ہے جن کے چہرے پر نور کی رحمت اور جن کے سر پر حیا کی چادر ہے۔
Sheikh Bashir Ahmed Siddiqui
ہمارے علم میں یہ بات بھی آئی ہے کہ امامِ مسجد کے ساتھ ان کی بے خیالی میں دھوکے کے ساتھ یہ تصویر بنائی گئی ہے اور ان سے اس بات کی بالکل اجازت نہیں لی گئی ہے یہ خیال بھی کیا جا رہا ہے کہ امام مسجد کی تصویر فوٹو ٹرک بھی ہو سکتی ہے کیونکہ سعودی عرب میں امامِ مسجد کے ساتھ تصاویر لینا منع ہے۔
اب اس تصویر کی تشہیر تو کسی بھی باشعور انسان کو یہی باور کراتی ہے کہ یہ شہرت حاصل کرنے کی ایک مکروہ کوشش ہے کیونکہ اگر ایسا نہیں تو اس تصویر کو بطور اشتہار استعمال نہ کیا جاتابلکہ اپنے پاس یادگار کے طور پر بصد احترام محفوظ کیا جاتا اس عمل سے کہیں بھی تقدس کا کوئی پہلو نہیں نکلتا امام صاحب کی تعظیم کی کوئی سوچ نہیں ملتی اور ایسے طرزِ عمل پرجتنا افسوس کیا جائے کم ہے۔
باخبر ذرائع سے یہ بھی پتہ چلا ہے فیس بک پر لگی اس تصویر کا سعودی حکومت نے نوٹس لے لیا ہے ان خواتین کو کون سمجھائے کہ ہماری جان گئی اور آپکی ادا ٹھہری والے حالات پیدا کر دیے۔
فرانس کے ادبی سماجی سیاسی اور مذہبی حلقوں میں اس عمل پر مکمل خاموشی حیرت کا باعث ہے جبکہ اس کی بھرپور مذمت ہونی چاہیے تھی۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
Suman Shah
بنا محنت اور قربانی کے شہرت حاصل کرنے والے بھول جاتے ہیں کہ وقتی شہرت سے ابدی عزت کڑوروں درجے بہتر ہے۔