دہشتگردوں سے اِنہی کی زبان میں بات

Terrorists

Terrorists

آج دہشت گردوں کی دہشت گردی نے ریاست کو سخت قدم اُٹھانے پر مجبور کر دیاہے اور ریاست نے اپنا نرم اور لچکدار لبادہ کچھ اِس طرح سے اُتار پھینکا ہے کہ ریاست کے اِس فیصلے کے بعد کہ ”دہشگردوں سے اِنہی کی زبان میں بات کی جائے گی”اَب ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اِس رویئے سے دہشت گردوں کاقلع قمع کر دیا جائے گا اور مُلک دہشت گردوں اور دہشت گردی سے پاک ہو جائے گا مگر پھر بھی میری اپنے اور آپ کے اور اُن دہشت گردوں کے اللہ سے بھی بس ایک یہی دُعاہے کہ” اللہ کرے کہ اِس سے قبل ضدی دہشت گرداپنی بے مقصد کی ضد چھوڑ دیں اور ایسی کوئی پیچ کی راہ نکل آئے کہ دونوں جانب سے جاری سخت رویوں میں بہتری آجائے اور میرا مُلک امن و آشتی کی راہ پر گامزن ہوجائے…”باقی اللہ مالک ہے دیکھتے رہیں کہ آگے آگے کیا ہوتا ہے…؟۔

مگر یہاں میں اپنے ہم وطنوں سے اتنا ضرور کہوں گا کہ اُوہ..میرے بھائیوں…!اُو سُنواُوئے …!آج سب سے پہلے میری یہ بات اچھی طرح کان کھول کر اور دماغ کے بند دریچوں کو بھی کھول کر سُنو اور سوچ کر سمجھ لوکہ قرآن صرف نمازوں میں پڑھنے اور مرنے والوں کی شفاعت وبخش اور مریضوں کی صحتیابی کے لئے ہی پڑھنے کے لئے تمہیں نہیں دیاگیا ہے ، اُوہ..موٹی موٹی توندوں اور موٹی موٹی گردوں والوں اور اے میرے امیر و غریب بھائیوں… !آج اگر تم نے اِس کے علاوہ بھی قرآن مجید فرقانِ حمید کو سوچ سمجھ کر پڑھا ہوتا اور اِسی طرح اگر تم قرآن کو اپنی اپنی عملی زندگیوں اور اپنے روزمرہ کے معاملات میں پیش آئے مسائل کے حل کے لئے بھی پڑھ لیتے اور اِس سے رہنمائی حاصل کر لیتے تو یقینا آج تم اِس طرح فرقہ پرستی ولسانیت میں تقسیم ہو کر اپنی ایک ایک اینٹ کی مسجدیں تو بنا کر نہ بٹ چکے ہوتے… اور قرآن کواپنی اپنی مرضی سے بغیر سوچے سمجھے پڑھ کر انسانوں کو انسان بن کر نہ مار رہے ہوتے …!اُوہ …! اللہ کے نیک بندوں ابھی کچھ نہیں بگڑاہے، تمہارے ہر گھر میں قرآن مجید موجود ہے، اِسے سمجھ سمجھ کر پڑھو اور دیکھو کہ اِس میں کہاں لکھاہے کہ تم ایک مسلمان بننے کے بجائے کچھ اور بن جاؤ اور فرقہ پرستی میں ایسے بٹ جاؤ کہ زمینِ خداپر فسادات برپا کرتے پھیرو…اور اِسے بن جاؤ کہ دنیا تمہیں اِنسانوں کی صف سے ہی نکال دے اور تمہیں تمہارے اصل ناموں سے پکارنے اور پہنچانے کے بجائے تمہیں دہشت گرد اور درندہ کہہ کر پکارے۔

جب کوئی تمہیں دہشت گرد اور رر ندہ کہئے تو پھر اِس پر بھی تم ایک نیا فساد برپا کر نے کے لئے بے گناہوں اور معصوموں کو مارنے اور اِن کے خون کی ہولی کھیلنے کے لئے خودکش بم دھماکے اور ٹارگٹ کلنگ کرو، اور تم اپنی اَنا پرستی کی آگ میں بھسم ہو کر اپنی دہشت گردی کو اتنا بڑھا دو کہ تم مساجد، امام بارگاہوں، تعلیمی اداروں، دفاتر، بازاروں، گلی کوچوں، علماء کرام، دانشوروں، ڈاکٹروں، استادوں، پولیو ورکروں، فورسز کے اداروں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر حملے اور اِن کی ٹارگٹ کلنگ کرو اور اِسی طرح تم محض اُن حق و سچ کا علم بلند کر نے والے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر بھی حملے کرنے لگو جو حق و سچ کا پرچم بلند کر تے ہیں اور وہ تمہاری فرقہ پرستانہ جاہلت اور تمہاری دہشت گردی کی وجہ سے تمہیں کھل کر دہشت گرد اور درندہ لکھیں اور کہیں تو تم اِن کے اِس حق و سچ پر خائف ہو جاؤ اور اِنہیں جان سے مار دو، اور اِس پر اُوپر سے چوری اور سینہ جوڑی یہ کہ اپنے اِس فعل شنیع کو تسلیم بھی کر لو، اَب کیا یہ تمہاری کھلی بدمعاشی اور غنڈہ گردی نہیں ہے تو پھر بتاؤیہ اور کیا ہے…؟ اَب اِس پر عالمِ اِنسانیت تمہیں پھر دہشت گرد اور درندہ کہہ کر نہ پکارے تو کہو اور کیا کہئے …؟ تو اُوہ اللہ کے نیک بندوں اور اسلام کے ٹھیکیداروں قرآن کو اچھی طرح سمجھ کر پڑھو اور تفرقوں میں نہ بٹوتو پھر دیکھوکون تم کو مارتا ہے..؟ اور تم کس کو مارتے ہو..؟

Holy Quran

Holy Quran

آج ہمارے یہاں جتنی بھی بُرائیاں ہیں اِس کی سب سے بڑی اور اہم وجہ یہی ہے کہ ہم نے قرآن وسُنت سے اپنی رہنمائی لینی چھوڑدی ہے، اِن حالات میں کہ جب ہم اِنسان اِنسانوں کے دُشمن بن گئے ہیں ہم نے ابھی بھی اپنے اِس مسئلے کے حل کے لئے بھی قرآن سے کوئی رہنمائی نہیں لی ہے اور اغیار کے مشوروں اور اِن کے ہی دیئے ہوئے ہتھیاروں کا ایک دوسرے پر بیدریغ استعمال کر کے یہ سمجھ رہے ہیں یہ ہمارے مسائل حل کر دیں گے یادر کھوکہ یہ ہماری سخت بھول ہے۔

جبکہ یہاں یہ امراِنتہائی افسوسناک ہے کہ اتوار 19 جنوری کی صبح بنوں کی چھاؤنی میں فورسز کے قافلے میں دھماکے سے 20 اہلکاروں کی شہادت اور 25 کے زخمی اور راولپنڈی میں پیر 20 جنوری کو جی ایچ کیو کے قریب آر اے بازار میں دہشت گردوں کے خودکش حملے میں 7 فوجیوں سمیت 14 کی شہادت اور 21 جنوری منگل کو مستونگ سے تقریباََ پندرہ کلومیٹر دور ایران سے آنے والے زائرین کی بس پر خودکش حملے میں 28افراد کے جان بحق اور 40 سے زائد زخمی جیسے واقعات نے ساری ریاست اور عوام کو غم وغصے سے نڈھال اور پریشان کر دیا ہے، آج قیامت صغریٰ بن کر برپا ہونے والے اِن واقعات کے خلاف مُلک بھر میں احتجاجو ں، دھرنوں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے یعنی یہ کہ آج سر زمینِ پاکستان کا ذرہ ذرہ دہشت گردوں کی دہشت گردی سے بہنے والے خون ترہے، اورسر زمینِ پاکستان پر معصوم اور نہتے اِنسانوں کے خون سے کھیلی جانے والی ہولی پر ہر محب وطن پاکستانی افسردہ ہے، حالیہ دِنوں میں دہشت گردوں کے ہاتھوں ہونے والی دہشت گردی کے باعث اِنسانوں کے مقدس خون کے بہنے پر مُلک کے طول وارض میں ہونے والے دھرنوں، احتجاجوں اور ہڑتالوں میں اِنسانوں کی آہ و فغاں سے سارا مُلک گونچ رہا ہے۔

اور ایسے میں سب کے لبوں پر بس صرف ایک یہی جملہ نعرے کی شکل اختیار کر گیا ہے کہ جنون کی حد تک پہنچ جانے والے فرقہ پرستوں اور دہشت گردوں کا قلع قمع کر کے مُلک و قوم کو امن و آشتی کا گہوارہ بنایا جائے، اور اَب اِس کے لئے حکمرانوں کو اپنی قوت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے اُس مقام تک جانا ہو گا،جس طرح دنیا کے طاقتور ممالک دہشت گردوں کا سرتن سے جُدا کرنے کے لئے اپنی بھر پور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں، سو اَب پاکستانن لیگ سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو آرمی چیف اور فورسز کو اعتماد میں لے کر جنگی بنیادوں پر اپنی قوت کا ایسا مظاہرہ کرنا ہو گا کہ اِس سے عام شہریوں کو تو تحفظ حاصل ہو مگر دہشت گردو اصلِ جہنم ہوں اور اِن کے ٹھکانے خاک و خون میں نہا صفحہ ء ہستی سے ختم ہوجائیں۔

جبکہ اِن تمام اقدامات کو عملی جامہ پہنانے سے قبل یہ بہت ضروری ہے کہ ریاست دہشت گردوں کے خلاف کسی ممکنہ آپریشن سے پہلے مُلک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں سمیت عوام کو بھی اعتماد میں لے اور جب مفتقہ طور پر ایسا کوئی نتیجہ سامنے آئے جس سے آپریشن ناگزیرہو تو پھر ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر وہ سب کچھ کر گزرے جو اِس کے بس میں ہے، مگر جب ایسا کچھ بھی نہ سامنے آئے جس کا میں پچھلی سطورمیں تذکرہ کر چکا ہوں تو پھر ریاست مذاکرات کی راہ پر چل پڑے اور جب ریاست دہشت گردوں سے مذاکرات کی راہ اپنا لے تو پھر اِس کے بعد کسی بھی حال میں طاقت کا استعمال ہر گزنہ کرے۔

بہر کیف ..!موجودہ حالات میں یہ تمام باتیں ٹھیک ضرور ہیں، مگر یہاں ریاست اور عوام کو میری ایک یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ آج دہشت گردوں کی دہشت گردی میں جتنی بھی تیزی آئی ہے، اِن کے پیچھے کوئی اور نہیں صرف اور صرف امریکا، بھارت، اسرائیل اور روس شامل ہیں، اور میں یہ بات اِس یقین کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ ہمارے مُلک کی بقاو سالمیت اور استحکام کے جتنے بڑے دُشمن یہ ممالک ہیں کوئی اور نہیں ہو سکتا ہے، اِس موقع پر ریاست اور قوم کو میری یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ ہماری ریاست اور قوم نے جب بھی دہشت گردوں سے مذاکراتی عمل کی شروعات کرنی چاہی امریکا نے تُرنت دہشت گردوں پر ڈرون حملے تیز کر دیئے اور ریاست کے مذاکراتی عمل کو دیدہ ودانستہ سبوتا ژکر کے یہ تاثر دیا کہ اِس کے پیچھے ریاست کی مرضی بھی شامل تھی جبکہ ریاست اِس انکار کرتی ہے اور جب ریاست اور عوام نے ڈرون حملے کے خلاف احتجاج کیا تو پھر ہمارے دُشمن ممالک نے اپنے دہشت گردوں سے ہی ہمارے یہاں دہشت گردی میں اضافہ کر دیا اور ڈرون حملوں کی مخالفت کرنے والی ہماری ریاست اور عوام کو مجبور کر دیا کہ اَب وہ خود اپنے جنگی جہازوں سے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے۔

گزشتہ دِنوں ریاست کے حکم کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے شمالی وزیرستان میں ٹارگٹڈ آپریشن کے دوران رات بھر جیٹ طیاروں کی بمباری سے ہلاکتوں کی تعداد پچاس کے قریب پہنچ چکی ہے جبکہ ریاستی حلقوں نے اِس حملے میں دہشت گردوں کے اہم کمانڈر کی ہلاکت اور اِس کے بیوی، بیٹااور بیٹی کوزخمی ہونے کا بھی دعویٰ کیا جبکہ جمعرات 23 جنوری کو وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی زیرصدارت ہونے والے اعلیٰ سطحی اجلاس میں مُلک کی سیاسی و عسکری قیادت نے مُلک میں جاری دہشت گردی کی حالیہ لہر کو روکنے کے لئے موثر حکمتِ عملی اختیار کر نے پر اتفاقِ کرتے ہوئے سیکیورٹی فورسز کو ہدایت جاری کی کہ دہشت گردوں کو اِن ہی کی زبان میں بات کی جائے” یعنی یہ کہ امریکا یہی تو چاہتا تھا کہ اِس کے ڈرون حملوں کو رکوانے والی قوم کو دہشت گردی میں ایسا جکڑ دیا جائے کہ یہ جذباتی قوم اِس کی دہشت گردی کی آڑ میں اپنے ہی لوگوں کو اپنی ہی فورسز سے مروائے اور یوں ہلدی لگے نہ پھٹکری امریکا کا بھی کام ہو جائے، باقی باتیں اگلے کالم میں تب تک کے لئے اجازت اللہ حافظ…اسلام علیکم،۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com