بجلی بحران کے شکار بھارت

Power Crisis

Power Crisis

گزشتہ برس جاری ہونے والی عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بجلی کی کمی کے باعث ڈیڑھ کروڑ افراد اس سہولت تک رسائی سے محروم ہیں۔ فہرست میں سب سے بدترین ملک بھارت کو قرار دیا گیا ہے جہاں 30 کروڑ سے زائد افراد بجلی کی سہولت سے محروم ہیں جبکہ نائیجریا 8 کروڑ 24 لاکھ افراد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ دیگر بدترین ممالک میں بنگلہ دیش چوتھے، ایتھوپیا پانچویں، کانگو ڈی آر چھٹے اور کینیا ساتویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کو بجلی کی لوڈشیڈنگ یا سپلائی کے لحاظ سے دنیا کا 16 واں بدترین ملک قرار دیا گیا۔ بھارت جس کو پہلا بد ترین ملک قرار دیا گیا پاکستان کے حکمران اسی بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لئے بجلی لے رہے ہیں۔ بھارت سے بجلی کی خریداری کیلئے این ٹی ڈی سی اور پاور گرڈ کارپوریشن آف انڈیا کے درمیان مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیلئے تکنیکی بات چیت جلد شروع کر نے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

امرتسر اور لاہور کے درمیان ٹرانسمیشن لائن بچھائی جائے گی، ابتدا میں 500 میگا واٹ بجلی خریدی جائے گی، دونوں ملکوں کی تکنیکی ٹیمیں نرخوں کا تعین کرینگی۔ وزیراعظم ڈاکٹر نواز شریف بھارت سے بجلی خریدنے میں ذاتی دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے اس سلسلے میں بھارت کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کی منظوری دے دی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف توانائی کا بحران بالخصوص لوڈشیڈنگ کیلئے سنجیدہ ہیں وہ مقامی ذرائع سے بجلی کی پیداوار سمیت غیر ممالک سے بجلی خریدنے میں دلچسپی لے رہے ہیں جن میں بھارت، ایران اور تاجکستان شامل ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر وزیر مملکت برائے تجارت خرم دستگیر خان نے حالیہ دورہ بھارت میں متعلقہ بھارتی حکام کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور بھارتی وزیر تجارت آنند شرما کے درمیان بھی گزشتہ مہینے اس مسئلے پر تفصیلی بات چیت ہوئی۔ حکومت کا موقف ہے کہ دونوں ملک بجلی کی خریداری کے حوالے سے تکنیکی بات چیت پر رضا مند ہوگئے ہیں۔

India

India

ٹرانسمیشن لائن بچھائی جاسکے۔ حکمران تو بھارت سے بجلی لینے کے معاہدوں پر دستخط بھی کر چکے لیکن اس کے مقابلے میں بھارت ہمارے ہی دریائوں پر ڈیم بنا کر ہمارے پانی کو روک کر بجلی بنا رہا ہے جو وہ ہمیں دے گا۔ حکمرانوں اور انڈس واٹر کمیشن کے افسران کی نااہلی کی وجہ سے انڈیا پہلے ہی سینکڑوں بند بنا کر دریائے چناب، جہلم اور سندھ کے 90% پانی سے پاکستان کو محروم کر چکا ہے۔ انڈیا کے تعمیر شدہ ڈیموں اور دریاؤں کو آپس میں جوڑنے کے منصوبے کی تکمیل کے بعد پاکستان کے تمام دریا مکمل طور پر خشک ہو جائیں گے اور یہاں نہ ہی پینے اور نہ ہی زراعت کیلیے پانی کا قطرہ تک بھی دستیاب نہ ہوگا۔ ماضی میںبھی پاکستان 3 دریاؤں کے پانی سے مکمل طور پر محروم ہوچکا ہے۔ شدید آبی جارحیت کی وجہ سے پاکستان کو زراعت اور انڈسٹریل سیکٹر میں بڑی تباہی کا سامنا ہے۔

اب بھارتی جارحیت دنیا بھر میں کھل کر سامنے آ چکی ہے اور بھارت نے آبی جارحیت کے محاذ کھول دیئے ہیں ایک طرف پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کو اپنی حدود میں کنٹرول کرکے پانی پر اپنا قبضہ جما رہا ہے۔ جو کہ آفاقی نظام زندگی، زمینی حقائق، اور عالمی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے اس قدر جرات مندانہ مؤقف اور اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف انڈیا کی آبی جارحیت بند کر نے کی بجائے انڈیا سے آزادانہ تجارت کی باتیں کر کے انڈیا کی آبی جارحیت کو سند جواز بخش رہے ہیں اور کشمیری مجاہدیں کے خون سے غداری کر رہے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے مابین آبی جارحیت کو انٹرنیشنل سطح پر اجاگر کر نے کے لئے پاکستانی حکمرانوں کو بھر پور کردار ادا چاہیے اور ڈیموں کی فوری تعمیر شروع کر دینی چاہیے۔ان حالات میں پاکستان 2020ء تک کوئی بڑا ڈیم تعمیر کر نے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

بھاشا ڈیم 2018ء میں مکمل ہونے کی تاریخ دی گئی ہے جو کہ ممکن نظر نہیں رہا۔ جب تک بھاشا ڈیم مکمل ہوگا تب تک ایسے چار ڈیموں کی ضرورت بڑھ چکی ہوگی۔ جو کہ ہماری معاشی، فوڈ سکیورٹی اور قومی بقاء کی ضرورت کیلیے اشد ضروری ہیں۔ چونکہ پاکستان کی تمام حکمران پارٹیاں ماضی میں ڈیموں کی تعمیر اور انڈیا کی آبی جارحیت کو روکنے میں ناکام ہوچکی ہیں اس لیے اب آزاد عدلیہ ہی ملک کو آبی جارحیت سے بچا سکنے کی آخری امید ہے اس لییپاکستان کی آزاد عدلیہ انڈیا کی سپریم کورٹ کے فیصلے کی طرح نااہل حکمرانوں ڈیموں کی فوری تعمیر کا حکم دے تاکہ ہمارا ملک بنجر اوصحرا بننے سے بچ سکے۔ پاکستان میں توانائی کے بحران کے مستقل حل کے لیے انرجی مکس کو بہتر بنانا ہوگا، توانائی کے مہنگے ذرائع، سرکلر ڈیٹ اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی پست اہلیت توانائی کے بحران کی بنیادی وجوہ ہیں، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن نظام کی بدتر حالت، بجلی چوری، غیر موثر مینجمنٹ اور کمزور انفرااسٹرکچر کی وجہ سے ٹیکس دہندگان کو پیداواری لاگت میں فی یونٹ 2.70 روپے اضافے کا سامنا ہے۔

Power Theft

Power Theft

جبکہ بجلی چوری کے نقصانات سالانہ 140 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔حب پاور لمیٹڈ کے کمپنی سیکریٹری شمس الاسلام نے بتایا کہ پاکستان میں توانائی کی بڑھتی ہوئی طلب پوری کرنے کے لیے سستے ذرائع اختیار کرنا ہوں گے جن میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار، ہائیڈ پاور اور متبادل ذرائع شامل ہیں، پاکستان میں گیس سے بجلی کی پیداوار کا تناسب 2005 تک 52 فیصد تھا تاہم پگیس کی قلت کے سبب یہ تناسب کم ہو کر 29 فیصد پر آگیا جس سے گیس سے بجلی کی پیداوار بھی مہنگی ہو چکی ہے۔ عالمی رجحان کے برعکس پاکستان کے انرجی مکس میں تیل جیسے مہنگے ترین ذریعے کا تناسب سب سے زائد (36فیصد) ہے، 29 فیصد بجلی ہائیڈل اور 29 فیصد گیس سے تیار کی جا رہی ہے، 5 فیصد بجلی نیوکلیئر انرجی کے ذریعے پیدا کی جاتی ہے جبکہ کوئلے سے بجلی کی پیدوار کا تناسب 1 فیصد سے بھی کم ہے۔

اس کے برعکس دنیا میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار کا تناسب 41 فیصد،21 فیصد بجلی گیس، 16 فیصد ہائیڈل اور 5 فیصد آئل اور 3 فیصد متبادل ذرائع سے پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان کے 2 بڑے ہمسائے چین اور بھارت کے انرجی مکس میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا تناسب بالترتیب 68 اور 79 فیصد ہے، پاکستان میں تھر کے کوئلے جیسے عظیم ذخائر کی موجودگی کے باوجود کوئلے سے توانائی کی طلب پوری کر نے کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی، پاکستان میں بجلی کا شارٹ فال 7ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے اور فرنس آئل کے ذریعے بجلی کی پیداوار سے بجلی کی پیداواری لاگت مسلسل بڑھ رہی ہے، فرنس آئل سے چلنے والے پاور پلانٹس کو کوئلے پر منتقل کر کے پیداواری لاگت 50 فیصد تک کم کی جاسکتی ہے جبکہ فرنس آئل کی درآمد کی مد میں خرچ ہونے والے کثیر زرمبادلہ کی بھی بچت کی جاسکتی ہے۔ صرف حب پاور کے 1292 میگا واٹ کے تھرمل پلانٹ کو کوئلے پر منتقل کر کے فرنس آئل کی درآمد کی مد میں 42 کروڑ ڈالر سالانہ کی بچت کی جا سکتی ہے، گزشتہ 4 سال کے دوران پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت میں سالانہ 4.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تاہم بڑھتی ہوئی آبادی اور طلب میں اضافے کی وجہ سے بجلی کا گھریلو استعمال مجموعی کھپت کے 46 فیصد تک پہنچ چکا ہے، بجلی کا شارٹ فال مالی سال 2011 میں 3500 میگا واٹ تھا جو مالی سال 2012 میں بڑح کر 5 ہزار میگا واٹ اور اب 7 ہزار میگا واٹ تک پہنچ چکا ہے، پاکستان میں 2010ـ11کے دوران انرجی مکس 35فیصد تھرمل، 35 فیصد ہائیڈل، 25 فیصد گیس اور 3 فیصد نیوکلیئر انرجی پر مشتمل رہا، 2 فیصد بجلی متبادل ذرائع سے مہیا کی گئی، گزشتہ مالی سال کے اختتام پر 480 ارب روپے کے سرکلر ڈیٹ کی ادائیگی کے باوجود ایک بار پھر سرکلر ڈیٹ کی مالیت 180 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے۔وفاقی اور صوبائی سطح پر گورننس کے مسائل، ٹیرف کے تعین اور نوٹیفکیشن کے اجرا میں تاخیر، ناقص ریونیو کلیکشن، ٹیرف ڈفرینشل کی ادائیگیوں میں بے قاعدگی اور ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن نظام کے نقصانات سرکلرڈیٹ بڑھنے کی اہم وجوہ ہیں۔ حب پاور پاکستان کا اولین 1292 میگا واٹ کا پہلا آئی پی پی ہے، 2011 میں نارووال میں 225 میگا واٹ کا پلانٹ تعمیر کیا گیا، حبکو پاکستان میں ہائیڈل کا پہلا آئی پی پی ہے جس نے آزاد جموں کشمیر میں لاریب انرجی کے نام سے 84 میگا واٹ کا ہائیڈل پلانٹ لگایا جو 2013 میں آن لائن ہوچکا ہے۔

حب پاور کی مجموعی پیداوار1601 میگا واٹ ہے جو پاکستان میں مجموعی توانائی کا 10 فیصد ہے۔ حکومت کو انڈیا سے بجلی لینے کی بجائے پاکستان میں ڈیم بنانے چاہیں، ایک کالا باغ ڈیم بننے سے بجلی پوری ہو سکتی ہے لیکن اگر وہ بن گیا تو پھر سیاست نہیں کی جا سکتی، میاں نواز شریف صاحب اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر الزامات لگائے کبھی دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھایا، پاکستان کی طرف سے یک طرفہ دوستی قطعی طور پر درست نہیں، پاکستانی قوم اسے کسی صورت قبول نہیں کرے گی، حکومت کو انڈیا سے بجلی لینے کا فیصلہ بدلنا ہو گا اور عوام کی خواہشات کا احترام کرنا ہو گا کیونکہ عوام کے ووٹوں سے ہی وہ وزیر اعظم بنے ہیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472