اِنسانی حقوق کا علمبردار امریکا

American Terrorism

American Terrorism

اِس سے کون ہے.؟ جو دنیا بھر میں پھیلی امریکی دہشت گردی سے انکار کرے مگر وہیں تُھو تُھو تُھو آج یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں اِنسانوں اور جانوروں کے حقوق کا سب سے بڑا علمبردار بننے والا امریکا دراصل دنیا کا سب سے بڑا بدکردار اور زانی مُلک بھی بن گیا ہے، جہاں آج اِس کا اقرار پہلے امریکی سیاہ فام صدر مسٹر بارک اوباما نے امریکا اور اپنے امریکی معاشرے میں قائم کالجز میں طالبات کے ساتھ بڑھتے ہوئے جنسی زیادتی کے واقعات کو تسلیم کیا ہے تو وہیں اُنہوں نے جنسی زیادتی کے واقعات پر شائد پہلی مرتبہ تشویش کا اظہار بھی کچھ اِس طرح سے کیا ہے کہ اِن کے اقرار کے بعد ساری دنیا امریکا کو بدکردار اور امریکی تھینک ٹینک کے دانشوروں کو بھی زانی تصور کر نے لگی ہے تو وہیں دنیا والوں نے سُپر طاقت امریکا اور امریکی صدر اور امریکی تھینک ٹینک والوں کی کارکردگی پر سُرخ سوالیہ نشان بھی لگا دیا ہے اور اَب دنیا کے اِنسان امریکا سے متعلق یہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ کیا یہ بدکردار امریکا اور اِس کے تھینک ٹینک والے دنیا کو اپنی مرضی سے چلانے کے اہلِ ہیں …؟ جو اپنی زمین پراپنی عورتوں اور طالبات کی عزتوں کی حفاظت نہیں کرسکتے ہیں وہ کیا بھلا دنیا کی حفاظت کریں گے…؟ آج دنیا کے اِنسانوں کی طرف سے اُٹھائے جانے والے یہ سوالات یقینا امریکی صدر اور امریکی تھینک ٹینک والوں سمیت امریکی اُمور مملکت چلانے والوں اور امریکی عوام (مردوں اور عورتوں )کے منہ پر بھی زوردار طمانچے سے کوئی کم نہیں ہے، بشرطیکہ آج امریکی اپنا اور اپنے معاشرے کا موازنہ دنیا کے مسلم ممالک کے معاشروں سے کریں، جہاں عورتوں کے تقدس کا خیال اور عورتوں کا احترام کیا جانا ایمان کالازمی جز ہے اور وہاں کی عورت کا باپردہ ہوناہی اِس کے احترام کی بنیاد ہے، تو اِسے ہر قسم کی برائیوں سے بچاتاہے، تو اِس کے بعد امریکیوں کو اپنی ننگی تہذیب کی وجہ سے ڈوب مرنے کے لئے سمندر بھی کم پڑجائیں گے۔

راقم الحرف نے یہ بات اِس لئے کہی ہے کہ آج کیونکہ امریکی وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں یہ حیرت انگیزا نکشاف کیا گیاہے کہ امریکا میں ہر پانچ میں سے ایک عورت کے ساتھ زندگی میں ایک مرتبہ جنسی زیادتی کا واقعہ یقینی طور پر پیش آچکا ہے، اور اِس کی عزت کو تارتار کر نے والا امریکی مرد امریکی قوانین کے مطابق سزاسے مستثنی ٰ رہاجس کا فائدہ اٹھا کر اِس نے دیگر عورتوں کی بھی عزتیں پامال کیں اور پھر یہی امریکی مردوں کا تفریح کے نام پر مشغلہ بن گیاہے، آج جس کی وجہ سے امریکی معاشر ہ گندی نالی سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔ آج امریکا میں پیش آنے جنسی زیادتی کے واقعے سے پیداہونے والابچہ یقینی طور پر ناجائز اور حرام کاری کی جیتی جاگتی تصویر بن کر امریکا میں برائیاں پھیلانے کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔ جیساکہ امریکی معاشرے میں عورت کو جنسی تسکین کا باعث سمجھا جاتا ہے اِس بنا پر وہاں کے مرد عورت کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنا کر اپنی جنسی تسکین تو حاصل کر لیتے ہیں مگر عورت کو ٹِشو پیپر سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں اور اِس فعلِ شینع میں ملوث مردیہ خیال کرتے ہیں کہجہاں اِنہوں نے عورت کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے عورت کے وقار کو مجروح کیا ہے تو وہیں اِن مردوں نے امریکی ترقی اور خوشحالی اور دنیا بھر میں امریکی آزادخیالی کے دیئے جانے والے تاثر میں دو قدم آگے بڑھا دیئے ہیں۔

White House

White House

اگرچہ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ امریکا میں جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی آدھی سے زیادہ متاثرہ خواتین کے ساتھ یہ شرمناک واقعہ 18 سال کی عمر سے بھی پہلے ہوا ہے، رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہ واقعات تمام نسل کی خواتین کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں لیکن امریکا میں ایسے واقعات کچھ نسل کی خواتین(جن کی تفصیل نہیں بتائی گئی ہے) کے ساتھ زیادہ ہی پیش آتے ہیں اور اِسی طرح وائٹ ہاؤس سے نکلنے والی اِس رپورٹ میں انتہائی محتاط انداز سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر 5 میں سے 1 طالبہ سے زیادتی کی جاتی ہے جبکہ بگڑے ہوئے امریکی معاشرے میں 8 میں سے صرف ایک طالبہ ہی اپنے ساتھ پیش آنے والی جنسی زیادتی کے واقعے کی رپورٹ درج کرواتی ہے، حالانکہ اگر زیادتی کا شکار ہر طالبہ رپورٹ درج کرائے تو امریکیوں کا دنیا بھر میں سر شرم سے جھک جائے، اور امریکی صدر اور امریکی تھینک ٹینک والوں کی عزت اور وقار کا جنازہ بھی نکل جائے۔ بہر حال…! امریکی میں طالبات کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے حوالے سے جاری رپورٹ میں وائٹ ہاؤس والے بغیرتوں نے اپنے سینے پھولا کر اور گردنیں دان کر اِس کا بھی انکشاف کیا ہے کہ 2 کروڑ 20 لاکھ امریکی خواتین میں 16 لاکھ ایسی بھی خواتین ہیں جنہیں کبھی نہ کبھی امریکی مردوں اور لڑکوں نے اپنی ہوس اور جنسی تسکین کا نشانہ بنایا ہے اور اِسی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی معاشرے کے دیگر شعبوں میں کام کرنے والی خواتین کو جس طرح جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا سو بنایا گیا۔

مگر یہاں سب سے زیادہ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ امریکی معاشرے میں خواتین سب سے زیادہ جنسی زیادتی کا شکار جس شعبے میں ہوئی ہیں وہ امریکی معاشرے میں قائم تعلیمی ادارے ہیں جن میں اسکولز، کالجز اور جامعات شامل ہیں، جہاں پڑھنے جانے والی طالبات آزاد خیال امریکی معاشرے میں چلنے والے مخلوط نظامِ تعلیم اور درسگاہوں میں دی جانے والی جنسی تعلیم کی وجہ سے سب سے جنسی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں، اَب ایسے میں صدیوں کے بگڑے کب جلد سُدھرتے ہیں مگر امریکی صدر بارک اپنے معاشرے میں قائم کالجز میں زنا جیسی بڑھتی ہوئی لعنت انگیز برائی اور زیادتی کے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹاسک فورس کے قیام کی بھی منظوری دے چکے ہیں، تو وہیں مسٹر بارک اوباما نے اپنے معاشرے کے نوجوانوں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو سُدھرانے اور اِنہیں اِس کا بات کا احساس دلانے کا تہیہ کرتے ہوئے بڑے عزم سے اِس کا اعادہ بھی کیا ہے کہ اَب وہ امریکی معاشرے میں کسی بھی صورت میں کسی بھی سطح پر کسی بھی عورت کے ساتھ پیش آئے جنسی زیادتی کے واقعے کو برداشت نہیں کریں گے، اَب اوباما کے اِس عزم اور اقدام پر دیکھتے ہیں کہ اوباما کو اِس میں کیا اور کتنی کامیابی حاصل ہوتی ہے .؟ یہ توبعد کی بات ہے اگرچہ یہ کام شکل تو ضرور ہے مگر اوباما نے اِس معاملے میں سوچا ہے، مگر پھر بھی اُمید رکھنی چاہئے کہ اُوباما اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے، اور اوباما کے اِس اچھے کام کے لئے مسلم دنیا کا ہر فرد بھی دُعا گوہے۔)

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com