آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مُلک دہشت گردی سمیت کئی دیگر مسائل سے ضرور دوچار ہے مگر اِس کا تویہ ہرگز مقصد نہیں ہے کہ ہمارے پاس اِن مسائل کا حل ہی موجود نہ ہو اَب یہ اور بات ہے کہ ہم خود کسی مسئلے کا حل نہ نکالنا چاہیں تو یقینا مسئلہ گھمبیر ہو چلاجائے گا اور کوئی مسئلہ ایسی صُورت اختیار جائے تو اِس کے حل کے بجائے ریاستی عناصر محض اپنی جانیں چھڑانے کے لئے موجودہ سیاسی اور بڑھتی ہوئی دہشت گردی جیسے ماحول میں سیاسی کُلّیاتِ جوازِیات پیش کر تے پھریں تو لامحالہ مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتے ہی چلے جائیں گے اور اِسی طرح دہشت گردوں کی دہشت گردی کو روکنے اور کم کر نے کے بجائے دہشت گردوں کی ہر دہشت گردی کے بعد اُلٹا ریاستی عناصر اور سیاستدان اور عوام دہشت گردوں سے مذاکرات و آپریشن کو جواز وبِلا جواز کی بحث میں بٹ کر رہ جائیں اور اپنے کسی مثبت فیصلے سے آنے والے کئی اچھے نتائج کے حصول سے رہ جائیں اور مُلک تباہی کے کنارنے پر پہنچ جائے، مگر قبل اِس کے کہ کوئی بُرا وقت میرے مُلک اور عوام پر آئے ساری پاکستانی قوم کو متحد و منظم ہو کر اپنی قسمت کا فیصلہ جلد خود کرنا ہو گا۔
اگرچہ آج میں نے اپنے کالم میں جس مُوضوع کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا ہے، یہ میرے پڑھنے والوں کو ادبی سا ضرور لگے گا کیونکہ یہ ذراسیاست سے تو ہٹ کر ہے مگر پھر بھی میری کو شش یہ ہے کہ میں اِس میں کہیں نہ کہیں سے سیاست کا عنصر اِس میں ٹھونس ٹھانس کر لے ہی آؤں، ارے سائیں ناراض مت ہوں اور خاطر جمع رکھیں آپ کو میں مایوس نہیں کروں گا، چلو بھئی آپ خوش ہوجائیں میں آپ کے لئے اپنے اِس کالم کو سیاست سے ہی لبریز کردوں گا، ہاں اَب تو ٹھیک ہے آپ ناراض نہ میں اپنے کالم کو سیاسی کالم ہی بنا رہا ہوں۔
تو پھر قارئین حضرات عرض یہ ہے کہ میں ا پ کی آسانی کے لئے پہلے تو اپنے آج کے کالم کے عنوان کی صحیح تشریخ بیان کر نا چاہوں گا سو اِس لئے اولذ کر عرض یہ ہے کہ لفظِ کُلّیات” دراصل (کُل۔لی۔یات) (ع۔ا۔مذکر و مونث )سے نکلاہے اور یہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اِسم ہے اور اِسی کے ساتھ ہی اِس لفظ کی ایک خُوبی یہ بھی ہے کہ یہ لفظ کُلّیات مذکر اور مونث دونوں ہی اصناف میں استعمال ہوتا ہے اور لغوی معنی کے لحاظ سے یہ لفظ کُلّی کی جمع ہے، اِس لفظ کے مزید لغوی معنی اور مفہوم ایک ہی شخص کی منظومات یا تصنیفات کا مجموعہ کے زمرے میں بھی آتاہے، یوں لفظ ”کُلّیات کے اردو لغت کی رو سے جو معنی اور مفہوم نکلا گیا ہے آج اِس پر اہلِ دانش پوری طرح متفق اور متحد نظر آتے ہیں کہ کُلّیات کا درست معنی و مفہوم یہی ہے جس کے معنی اردو لغت میں درج ہے، اور اِسی طرح ہماری روزمرہ کی زندگی میں بولنے اور لکھنے میں باکثرت استعمال ہونے والا ایک لفظ جواز بھی ہے جس کے اردو لغت میں جواز (جَ۔واز) (ع۔ا۔مذکر) (١) اِجازت (٢) جائز ہونا جیسے معنوں میں آتا ہے یہ لفظ بھی عربی زبان کا لفظ ہے، اِسم ہے اور صرف مذکر ہے۔
اَب یہاں مجھے قوی اُمید ہے کہ میرے قارئین…!میرے آج کے عنوان کا معنی اور مفہو م اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے ،یہاں مجھے اِنہیں یہ سمجھ کچھ سمجھنا یوں بھی مقصود تھا کہ ویسے بھی میرے قارئین کو اتناکچھ معلوم تو ہوجائے کہ لفظ کُلّیات اور جواز و بلاجواز کو کس طرح اور کن مقامات پر استعمال کیا جاسکتاہے، اِن کے اِس طرح کے استعمال کو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور ہونابھی نہیں چاہئے کیوں کہ ہم عام اردو بول چال اور لکھت پڑھت میں پہلے ہی بہت سے لفظ استعمال کررہے ہیں جن پر آج تک کسی نے زبان ہلانی تودرکنار خاموش احتجاج کے طور پر اشارتاََ انگلی اُٹھانی بھی گوارہ نہیں کی ہے، خیر چھوڑیں یہ ایک لگ بحث ہے ، اِسے پھر کسی اگلے وقت کے لئے لگ چھوڑتے ہیں۔
Political Parties
بہرکیف آج میر ے مُلک میں دہشت گردوں کی دہشت گردی سے متعلق سیاستدانوں نے جو سیاست چمکائی ہوئی ہے اِن کی اِس سیاست میں سیاست سے زیادہ سیاہ کاری کا عنصر غالبہے، اِس میں، میں زیادہ قصور وار سیاست دانوں کی’کُلّیاتِ جوازِیات کو ہی ٹھیرآؤ ں گا کیوں کہ عوام کے سامنے سیاست دانوں نے جو کُلّیاتِ جوازِیات رکھیں ہیں یہ سب کُلّیات سیاستدانوں کی اپنی اپنی سیاسی جمع خرچ پر مرتب کردہ ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں سیاست دانوں کے پیش کی جانے والے جواز جلد کُلّیات جوازِیات میں بدل جاتے ہیں اور یوں ہمارے یہاں ریاستی جواز بھی کُلّیات جوازِیات بن جایا کر تے ہیں آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آج تک ہمارے سیاستدانوں اور ریاست کی کُلّیاتِ جوازِیات کی ”کوئی کل ”اُس مثل والے ”اُونٹ کی کل ”کی طرح سیدھی نہیں ہوئی ہے، اور یہ سیدھی ہوبھی نہیں سکتی ہے کیوں کہ آج تک جو مثل والے اُونٹ کی کل درست نہیں ہوسکی ہے، آج میری دھرتی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں معصوم اور بے گناہ اِنسانوں کا جتنابھی خون بہہ رہاہے، اِس میں دہشت گردوں سے مذاکرات کو جائز اور ناجائز قراردینے والے سیاستدانوں کا جواز و بلاجواز کی رٹ لگاکر قائم ہونے والے وہ ایجنڈے ہیں جن پر ہمارے سیاستدان واضح طور پر دوتو کیا ..؟ کئی حصوں میں بٹے ہوئے نظرآرہے ہیں، آج اِ س بات کو نہ صرف پاکستانی عوام نے محسوس کیا ہے بلکہ ساری دنیا بھی اِس بات کو تسلیم کرنے لگی ہے کہ دہشت گردوں سے مذاکرات اور آپریشن اور ٹارگیٹڈ آپریشن کے معاملے میں پاکستان کے حکمران، سیاستدان اور فورسز کے ادارے بھی مخمصے کا شکار ہیں۔
ایسا کیوں ہے..؟ اِس کی ایک صاف وجہ یہ دیکھی اور محسوس کی جاسکتی ہے کہ ہمارے ایوانوں اور اداروں اور سیاستدانوں اور عوام سے لے کر ہر سطح پر دو نظریات اور خیالات کے حامل لوگ پائے جا رہے ہیں ایک اپنی پوری قوت سے دہشت گردوں سے مذاکرات کا قائل دِکھائی دیتا ہے تو دوسرانہ مذاکرات اور ٹارگیٹڈ آپریشن پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ دہشت گردوں کی دہشت گردی کے خلاف صرف اور صرف آپریشن کی حمایت کر رہا ہے، اور وہ اپنے نزدیک یہ درست سمجھتا ہے کہ بس سر زمینِ پاکستان پر دہشت گردی پھیلانے والوں سے ریاست متحد ہو کر آپریشن کرے اور اِس طرح ریاست دہشت گردوں کا پاک سر زمین سے قلع قمع کر کے دم لے وہ اِس کے لئے یہ جواز پیش کر رہا ہے کہ دہشت گردوں نے مُلک میں بلاجواز دہشت گردی کر کے بہت نفرتیں پھیلا دی ہیں، اِن دہشت گردوں سے نجات صرف فوجی آپریشن سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، جبکہ راقم الحرف کا خیال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں بلا تفریق اور مکمل فوجی آپریشن توفی الحال ممکن نظر نہیں آتا ہے مگر جواز بس یہی بنایا جائے کہ بلا تفریق آپریشن و ٹارگیٹڈ آپریشن کے بجائے، ہر صورت میں مذاکرات کی راہ کو جواز بنا کر پیش کیا جائے، تو ممکن ہے کہ مُلک ضدی دہشت گردوں کی دہشت گردی سے بچ جائے، اور خود ضدی دہشت گردوں کی جانب سے مُلک میں کوئی مثبت اور تعمیری کرن نمودار ہو جائے، مگر یہاں ضرورت صرف اِس امر کی ہے کہ ریاستی عناصر، سیاستدانوں عوام اور ضدی دہشت گردوں کی بھی جانب سے اپنی اپنی زبان سے بلا مقصد مرتب کی جانے والی کُلّیاتِ جوازِیات میں بھی فوری ترمیم کی جائے اور بس۔