ملک کے تمام اداروں کا خانہ خراب ہو چکا ہے گندہ، گھٹیا اور بوسیدہ نظام جس میں گلے سڑے اور غلیظ لوگ بیٹھے ہوئے آپ کا منہ چڑا رہے ہیں اور اس بات کا تجربہ تقریبا ہر اس پاکستانی کو بخوبی ہو چکا ہوگا جسے کسی کام کے سلسلہ میں سرکاری دفتروں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو میری بات کا بخوبی اندازہ بھی انہی کو ہو گا کہ ایک جائز کام کے سلسلہ میں انہیں کتنا ذلیل کر دیا جاتا ہے جبکہ ایک ناجائز کام کروانے والا دھونس، دھاندلی یا پھر پیسے کے زور پر اپنا ہر کام چائے کے کپ کے آنے سے لیکر پینے کے وقت کے تک نکلوا لیتا ہے اور گڈ گورننس کے دعوے داروں نے اس نظام کو اتنا خراب کر دیا ہے کہ ایک شہر میں بیٹھا ہوا ڈی سی او بھی اسی کھیل کاحصہ بن چکا ہے اوربعض اوقات تو ان کھجل خرابیوں کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شائد ہم اسی غلامی کے دور میں زندگی گذار رہے ہیں جہاں پر انگریز نے ہم جیسوں کو تنگ کر نے کے لیے ایسے ایسے قانون بنا رکھے تھے کہ ہم انکے دفتروں کے چکر لگاتے لگاتے یا تو کام کو بھول جائیں یا پھر اپنے آپ کو بھول جائیں۔
پاکستان کے کسی بھی کونے میں رہنے والا فردان سرکاری اداروں اور ان میں بیٹھے ہوئے لالچی ملازمین کے رویہ سے تنگ آچکاہے اگر کبھی آپ کو کسی سرکاری ادارے کے افسر سے کام پڑ گیا اور خاص کر کلرک بادشاہ سے اور آپ نے اسکی اوقات کے مطابق اسکی خدمت نہ کی تو پھر سمجھ لیں کہ آپ جتنے مرضی حق پر ہوں اور آپ اپنا حق نہیں لے سکیں گے آپ تھانہ میں کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج کروانے گئے ہیں اور وہاں پر بیٹھے ہوئے منشی یا تھانیدار کی خدمت نہیں کی تو آپ ایڑیاں بھی رگڑ لیں تب بھی مقدمہ درج نہیں کرواسکتے اور اسی دوران اگر آپکا مخالف فریق پولیس سے مک مکا کر لیتا ہے تو پھر آپ عدالت کے حکم پر بھی اسکے خلاف مقدمہ درج نہیں کروا سکیں گے ہم میں سے ہر فرد کو اپنی زندگی میں ڈومیسائل کی ضرورت پڑتی ہے اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ یہ کام بغیر کسی سفارش اور پیسے کے کر لے گا تو یہ اسکی بہت بڑی نادانی اور بھول ہوگی جن لوگوں نے اس کام کو آسان سمجھ کر خود کیا ہوگا وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں کیسے کیسے پاپڑ بیلنے پڑے ہونگے کبھی تحصیلدار نہیں تو کبھی قانونگو نہیں اور کبھی پٹواری کے پاس وقت نہیں ہوتا بعض اوقات انسان اتنا زچ ہو جاتا ہے کہ وہ اس کام سے ویسے ہی توبہ کر لیتا ہے اور جو ان سب چکروں سے گذرے ہوتے ہیں اور اس نظام کو سمجھتے ہیں وہ کچہری میں جا کر کسی نہ کسی ٹائوٹ کو پیسے اور تصویر دیتے ہیں اور چند دنوں میں ڈومیسائل ان کو مل جاتا ہے اسی طرح آپ کوئی بھی جائز اور ناجائز کام بغیر قائداعظم کی تصویر والے کاغذ کے نہیں کروا سکتے ہمارے دیہاتوں میں رہنے والے دوست اس بات کو بخوبی جانتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ پٹواری سے فرد بغیر پیسوں کے نہیں لے سکتے اور اگر کوئی اس خوش فہمی میں ہو کہ میں کسی اعلی عہدے دار کا سفارشی ہوں اور سرکاری فیس کے علاوہ ایک روپیہ نہیں دونگا تو اس کی یہ ساری اکڑ فوں تین چار چکر لگانے کے بعد نکل جاتی ہے۔
مجھے خود اخباری شعبہ سے منسلک ہوئے تقریبا 22 سال ہو چکے ہیں اور ان گذرے سالوں میں بہت کم ایسا ہوا کہ اپنے ذاتی کام کے سلسلہ میں کسی کے پاس جانا پڑا ہو یا کسی کے جائز کام کے لیے کسی کو سفارش کرنا پڑی یہی وجہ ہے کہ میرے اپنے کام اسی وجہ سے بے سبب تاخیر کا شکار ہوئے کیونکہ میں خود پیسے دینے پر یقین نہیں رکھتا اور نہ کسی کو دیے ہاں ایک دو بار سفارش ضرور کروائی بھی اور کی بھی مگر نتیجہ دونوں کا خواری کے سوا کچھ نہیں نکلا ایک بار اپنے کسی بہت ہی عزیز دوست پیر عقیل کے بے حد اثرار پر اپنے ایک بہت ہی پرانے جاننے والے موجودہ سیکریٹری پاپولیشن الطاف ایزد خان کو ایک ملازم کے تبادلہ کی سفارش کی اور انہیں بتایا کہ اس ملازم کے ساتھ آپکے کچھ افسران زیادتی کررہے ہیں براہ مہربانی اس غریب ملازم کو تنگ نہ کیا جائے۔
Rawalpindi
اور اس سفارش کا اثر یہ ہوا کہ اس بے چارے ایماندار ملازم کو لاہور سے اٹھا کر راولپنڈی ٹراسفر کردیا گیااس سے میں نے سبق نہ سیکھا اور پھراپنے ایک ذاتی کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے میں نے اپنے بھائی جیسے دوست جو میرے بڑے بھائی سہیل اکبر(مرحوم) کے ہم نام ہے اور میں انہیں پہلے بھائی کی نظر سے دیکھتا ہوں بعد میں دوستی کی نظر سے اور اسی لیے میں انکا بے حد احترام بھی کرتا ہوں کو ساہیوال میں تعینات ڈی سی او ساجد چوہان کو سفارش کے لیے کہاجب میں نے اپنے اسی دوست کے حوالہ سے چٹ اندر بھجوائی تو ایک تکلیف دہ لمبے انتظار کے بعد موصوف نے بلایا تو میں نے کہا کہ جناب میری ایک فائل عرصہ تقریباتین چار سال سے آپ کے کلرکوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے اور میں نے انکی ڈیمانڈ کے مطابق وہ کاغذ بھی لگادیے ہیں جن کا اسکے ساتھ کوئی تعلق نہیں بنتا اس لیے اب میری ان کلرکوں سے جان چھڑوادیں موصوف ڈی سی او نے ایک منٹ میری بات سنی اور دوسرے ہی منٹ میری چٹ مجھے پکڑواتے ہوئے کہا کہ ڈی او سی سے ملیں میں اس کام کو ویسے ہی چھوڑ کر واپس لاہور کی طرف روانہ ہوگیا۔
یہی سوچتے سوچتے پتاہی نہی چلا میں کب تین گھنٹے کا سفر کرکے گھر پہنچ گیاکہ پاکستان میں ایک کلرک سے چیف سیکریٹری تک سب عوام کا استحصال کرکے اپنی اپنی نوکری پکی کرنے میں لگے اگر کسی محکمہ میں بھرتیاں کی جاتی ہیں تو وہ بھی اپنی نوکری پکی کرنے والے ایک چٹ پر بھرتی کرلیتے ہیں اور جو نوجوان بھاگ بھاگ کر شائد یہ سوچتے ہونگے کہ وہ دوڑ میں سب سے آگے تھے اسلیے وہ بھرتی ہو جائیں گے مگر پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا یہاں پر اگر کام کروانا ہو توان دم ہلاتے افسران کے آگے پیسہ ڈالو یا پھر ایوان اقتدار میں بیٹھے فرعون نما حکمرانوں کی ڈنڈے نما سفارش۔