آج کے اس پرفتن دور میں مقصود تعلیم و تعلم صرف و صرف کامیابی امتحان اور حصولِ نمبرز ہی رہ گیا ہے خواہ وہ نقل سے ہو یا فائف ایرسے یا نوٹس سے۔ جو واقعی محور و مقصود تعلیم تھا وہ فوت ہو گیا۔ جب ایسے حالات ہوئے تو علم ناپید ہو تا گیا۔ ّ ایک طرف تو جید و ماہر اساتذہ و مدرسین کا فقدان ظہور پذیر ہوا تو دوسری طرف قابل لوگوں کی مصروفیت کی بناء پر کم پڑہے لکھے لوگ مسند تدریس پہ آتے گئے نتیجةّ نظام تعلیم پستی کا شکار ہوتے ہوتے اس معیار کو پہنچ گیا ہیکہ جو کہ سب کی سامنے روشن و عیاں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ستم ظریفی یہ بھی ہوتی ہے کہ کچھ نہ جاننے کے باوجود بھی اساتذہ اپنی جہالت کو تسلیم کرنے کے بجائے اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا بیٹھتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ اس میں کیا کیا خرابیاں نمودار ہونے والی ہیں۔
اور کتنا طلباء کا مستقبل تباہ و برباد ہونے والا ہے لیکن ایسے حالات میں بھی کچھ ایسے ادارے و افراد ہیں جو کہ ملک و ملت کے طلباء کو روشن و تابناک دیکھنے کے خواہشمند رہیں اور اس ہی جذبہ سے سرشار ہو کر قوم و ملت کی خدمت میں شب و روز مصروف عمل ہیں اور انہی طلباء کے مستقبل کو روشن کر نے کیلئے مختلف جرائد و رسائل وقتا فوقتا شائع کر تے رہتے ہیں ان میں سے ایک یہ ماہنامہ بھی ہے جس کا تعارف میرے ایک محب و مہربان نے کروایا۔ بڑی خوشی ہوئی جوکہ اساتذہ و طلباء و معاشرہ کے تمام افراد کی بیک وقت اصلاح کرنے کے ساتھ ساتھ انکی روحانی تربیت بھی کرتا ہے اور معاشرہ کے تمام افراد کی اصلاح کیلئے ایسی تحریرات کو اپنے صفحۂ قرطاس پر لاتا ہے جو کہ ہر فرد کیلئے بیک وقت مفید و سود مند ہوتی ہیں۔ یہ ایک ایسا کام ہے جو کہ اس ملک وملت کے فقدان تعلیم کو نہ صرف ختم کرنے میں مددگار ثابت ہو نے کے ساتھ ساتھ ترقی میں بھی معاون ہوتا ہے یہ بات تو مسلم شدہ ہے کہ جن بھی ملکوں یا قوموں نے ترقی کی تو ان کو صرف وصرف صراط واحد تعلیم وتعلم ہی نظر آیا علم ایک ایسا سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں اور ہر انسان میں علمی حوالے سے بہت کمیاں ہیں کیونکہ کوئی بھی انسان خواہ وہ کتناہی بڑا عالم و فاضل و مفتی و منشی ہو لیکن وہ علوم کلیہ کے عبور و مہارت کا دعویدار تو ہوہی نہیں سکتا کیونکہ علم تو بحر بیکراں ہے۔
Holy Quran
بشر کی وسعت میں علم کا احاطہ ممکن ہی نہیں اورا س پہ قرآن مجید فرقان حمید بھی ناطق و شاہد ہے۔”ومااوتیتم من العلم الا قلیلاًo”ترجمہ اور انسان کو بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔(سورہ اسراء ،پارہ١٥،آیت٨٥) اور انسان کو حصول علم اپنی زندگی کا مل کا مشغلہ بنانا کا درس دیتے ہوئے فخر کائنات علیہ التحیہ والثناء نے ارشاد فرمایا کہ ”طلبواالعلم من المھد الی اللحدہ” ماں کی گود سے لے کر قبر کی آغوش تک حصول علم کرو۔ اور جب کوئی بات نہ معلوم ہوتو انسان کہہ دے کہ میں نہیں جانتا کیونکہ ہر جاننے والے کے اوپر ایک جاننے والا ہے اور جستجو کرے کہ علوم کے سمندر میں غوطہ زن ہو اور زیادہ سے زیادہ سیراب ہونے کی کوشش کرے اور اس چیز کا درس تو خود فخر کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا حالانکہ حضور اکرمۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ماکان و مایکون کا علم دیا گیا اور علوم مصطفویہ ۖپر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نص قرآنی بھی دال و بین ہے۔
”وعلمک مالم تکن تعلم” جو آپ نہیں جانتے تھے وہ آپ کو سکھا دیا۔ اور فرمایا”الرحمنoعلم القرآنo” رحمن نے قرآن سکھایا. (سورۂ الرحمن آیت ٢،١پارہ ٢٧).مگرپھر بھی خدا وند قدوس نے مزید حصول زیادتی علم کی دعا کر نے حکم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”وقل ربی زدنی علما”ترجمہ اور عرض کرو کہ اے اللہ مجھے علم زیادہ دے (سورة طہ آیت114) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علوم و فنون پہ تو کوئی شک بھی نہیں کر سکتا۔ مسلمان تو کجا یہ تو کافر و مشرک و ملحد کا بھی اعتقاد تھا کہ جو بھی اللہ کا نبی ہوتا ہے وہ علوم غیبیہ کا جامع ہوتا ہے چنانچہ ایک دفعہ ابوجہل مٹھی بند کر کے سوال کرتا ہے کہ اگر تم نبی ہو تو بتاؤ کہ میری مٹھی میں کیا ہے؟ حالانکہ یہ ایسا کافر تھا جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم س امت کا فرعون قرار دیتے ہوئے اسکی موت پہ اظہار مسرت کیا لیکن وہ بھی اس بات کو مانتا تھا کہ یہ پیغمبر کو روکائنات کے زرہ زرہ کی خبر ہوتی ہے جب ابو جہل جیسے کافر کا یہ عقیدہ ہے اہل ایمان تو بآسانی اس سمندر بیکراں کے علوم کا اندازہ کر سکتا ہے لیکن پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کتنی احتیاط کر تے یہود نے عرض کی ”ای البقاع خیر”کونسی جگہیں بہترین ہیں آپ نے فرمایا کہ ”لاادری”کہ میں نہیں جانتا انہوں نے پھر عرض کی کہ ”ای البقاع شر” کونسی جگہیں بد ترین ہیں۔
Hazrat Muhammad PBUH
آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا ”لاادری ”کہ میں نہیں جانتا حالانکہ زبان پیغمبر علیہ السلام وہ کن کی کنجی ہے کہ جس سے جو نکل جائے رب اسکو مقام قبولیت عطا کرتا ہے اور مقبولان خداجو زبان سے نکال دیتے ہیںخدا ارض و سماء کبھی اسکو رد نہیں فرماتا جیساکہ حضرت یوسف علیہ السلام سے جیل میں انکو دو ساتھیوں نے اپنے اپنے سوال عرض کئے ان میں سے ایک مصر کے شاہ اعظم ولید بن نروان عملیقی کا مہتمم مطبخ تھا دوسرا اسکاساقی ان دونوں پہ بادشاہ کو زہر دینے کا الزام تھا اس جرم میں وہ قید تھے آپ نے قید خانے میں اپنی علمیت کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ میں خوابوں کی تعبریں جانتا ہوں یہ سن کہ ولید بن نروان عملیقی کا ساقی بولا ”انی ارانی اعصر خمرا”میں نے خواب دیکھا کہ میں شراب نچوڑتا ہو۔ اور مہتمم مطبخ نے کہا کہ ‘انی ارانی احمل فوق راسی خبزا تاکل الطیر منہ ”میں نے خواب دیکھا کہ میرے سر پر کچھ روٹیاں ہیں جن میں سے پرندے کھاتے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے انکو دعوت توحید دینے کے بعد انکے خوابوں کی تعبیریں دیتے ہو ئے ارشاد فرمایا کہ یاصاحبی السجن اما احدکما فیسقی ربہ خمرا واما الاخر فیصلب فتاکل الطیرمن راسہ ”اے قید خانے کے دونوں ساتھیوں تم میں سے ایک تو اپنے بادشاہ کو شراب پلائے گا۔
اور رہا دوسرا تو وہ سولی دیا جائے گا تو پرندے اسکا سر کھائیں گے حضرت عبد اللہ بن مسعود نے فرمایا کہ تعبیر سن کران دونوں نے حضرت یوسف علیہ السلام سے کہا کہ خواب توہم نے کچھ بھی نہیں دیکھا ہم توہنسی کر رہے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرما یا”قضی الامر الذی فیہ تستفتیٰن۔”حکم ہوچکا اس بات کاجسکا تم سوال کرتے تھے۔ (پارہ ١٢، سورۂ یوسف آیت نمبر41) حالانکہ ان لوگوں نے نہ تو خواب دیکھا اور نہ ہی سوچا بس جو منہ میں آیا فوراً بول دیا۔ اب یوسف علیہ السلام نے بھی فرمایا کہ اب کچھ بھی کرلو جو بات میرے منہ سے نکلی وہ پوری ہو کر رہے گی قارئین کرام! یوسف علیہ السلام جو کہ ہمارے نبیۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقتدی ہیں۔ شب معراج حضرت یوسف علیہ السلام نے فخر کونیںۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں نماز ادا کی ان کا یہ عالم ہے تو امام الانبیائۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا عالم ہو گا؟ اگر وہ فرما دیتے کہ فلاں جگہ خیر البقاع ہے تو وہی بن جاتی کیونکہ ایسی کئی امثلہ موجود ہے جیساکہ ایک دفعہ حضورۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو حج کی فرضیت کے بارے حکم ارشاد فرمایا تو ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ہر سال تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے فرمایا کہ اگر میں ہاں کر دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتا مگرجب گروہ یہود نے آپ سے مقام خیر و شرکے متعلق سوال کیا تو آپ خاموش رہے یہاں تک کہ جبرائیل علیہ السلام بارگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے اس حوالے سے گفتگو کی آپ کے استفسار کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام بارگاہ خدا وندی میں حاضر ہو کہ واپس خدمت اقدسۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے تو عرض کی ”فقال شر البقاع اسواقہا و خیر البقاع مساجدہا ”ترجمہ پس فرمایا کہ سب سے بری جگہیں بازار اور سب سی اچھی جگہیں مساجد ہیں۔ (مشکوة المصابیح کتاب الصلوة باب المساجد ومواضو الصلاة الفصل الاول)جیسا کہ حج کی فرضیت کا فرمایا اگر یہاں پر بھی فرما دیتے تو ایسا ہی ہو جا تا انکی نگاہ کرم جس پہ بھی ہو جاتی وہ ہی خیر البقاع جس کو آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بنظر کراہت فرما دیتے وہ ہی شرالبقاع بن جاتا مگر آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف و صرف تعلیم و تربیت امت ہی کے لئے ایسا کیا تاکہ جسکو جو نہ معلوم ہو وہ لاعلمی کا اظہار کرنے میں ججہک محسوس نہ کرے اس ہی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منتظر حکم خدا وندی رہے گو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مختار کل ہیں چنانچہ ارشادِ قرآنی ہے ”ماینطق عن الھویٰ”یہ خواہش سے تو بولتے ہی نہیں ہیں۔
ان ھو الا وحی یوحیٰ”وہ نہیں ہوتا مگر وحی خدا (القران)چنانچہ ایک دفعہ سید عالم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں تم پر حج فرض ہے ایک شخص کھڑا ہوا یارسول اﷲۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال ۔آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اس نے پھر پوچھا آپۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے۔ تیسری دفعہ پھر سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں اگر ہاں کہہ دیتا تو تم پر ہر سال حج فرض ہو جاتا۔ ایسے مختار کل ہونے کے باوجود بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے ہیں کہ”لاادری” (کہ میں نہیں جانتا)تو جو شخص نہ جانتا ہو وہ کہہ دے میں نہیں جانتا کیونکہ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ سننے والا کسی اور سے صحیح مسئلہ دریافت کر لے گا اور جس سے پوچھا یہ بھی اپنے سے زیادہ جاننے والے سے معلوم کر لیگا اور دونوں کی اصلاح ہوجائے گی اور ہمارے اسلاف کا بھی یہی طریقہ کار رہا ہے کہ جس بات کا معلوم نہ ہوتا بر سر مجلس فرما دیتے لاادری میں نہیں جانتا۔حضرت امام احمد بن حنبل رحمة اﷲ علیہ سے 40 سوال کئے گئے 36کے جواب میں آپ نے فرمایا”لاادری” حضرت امام مالک رحمة اﷲ علیہ کے پاس ایک بندہ 6ماہ کی مسافت طے کرکے آیا اور مسئلہ دریافت کیا آپ رحمة اﷲ علیہ نے فرمایا میں نہیں جانتا۔
اس نے کہا میں لوگوں کو کیا جواب دونگا تو فرمایا ان سے کہنا مالک نے جواب نہیں دیا۔ لہٰذا انا کا مسئلہ بنائے بغیر جس بات کا علم نہ ہوتو انکار کردینا چاہیے ۔بقول حضرت ابن مسعود رضی اﷲ عنہ کہ یہ بھی علم میں سے ہے کہ جو آپ نہیں جانتے اس کے بارے میں کہہ دیں واﷲ اعلم اور طلباء کو چاہہے کہ جب تک پڑھ رہے ہیں اس وقت تک طلباء ہی بن کے صحیح انداز میں پڑھے کیونکہ کل کے استاد آج ہی کے شاگرد ہیں اور آج کے طلباء کل کے معمار ہیں اور اساتذہ فخرعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور سلف صالحین کے طریقہ کار پر عمل کریں تاکہ ملک و ملت حق وصداقت کی راہ پہ گامزن ہوسکے اور پاکستان حقیقی معنوں میںتنزلی کے راستوں سے بچ کر ترقی کی راہ پہ چل سکے۔