دیار غیر میں پڑھنے والے سارے پاکستانی بچے خراب نہیں ہوتے قصور ماحول کا نہیں تربیت کا ہے، والدین کو بھی چاہیئے کہ وقت اور ماحول کے مطابق اپنے اندر تبدیلی لائیں۔ کمپیوٹر پروگرامنگ میں اعلی تعلیم حاصل کروں گا۔ آسٹریا جرمنی۔ ویلز اور انگلینڈ گھوم چکا ہوں۔ والد کی ایمانداری اور سچائی پر فخر ہے فیملی کو پورا وقت دینے کی انکی عادت بہت پسند ہے شاہ رخ جرال بہترین دوست جبکہ چھوٹا بھائی مرزا عمر بیگ دنیا کا سب سے پیار بچہ ہے پاکستان کے حالات پر دل خون کے آنسو روتا ہے ایجوکیشن ہی پاکستان کے تمام مسائل کا واحد حل ہے اٹلی بولزانو کے سجیدہ، ہنس مکھ اور اعلی تعلیم یافتہ گجرات کے مرزا طاہر بیگ کے نوجوان طالبعلم صاحبزادے اور اٹلی میں پاکستانیوں کی دوسری نسل کے نمائندہ عبد اللہ بیگ مرزا پریس کلب اٹلی کے دفتر میں ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ کمپیوٹر پروگرامنگ و بینکنگ کے کورس کے پانچویں سال میں زیر تعلیم ہیں پروگرامنگ کی پانچ سالہ تعلیم کے بعد نوکری تو مل جاتی ہے لیکن اکاونٹینٹ کے لیول سے آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔
لیکن اگر اسکے بعد یونیورسٹی کی تین سالہ ) LAUREA ( یا پانچ سالہ ) MASTER ( ڈگری حاصل کرلی جائے تو ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بنکوں کے دروازے نوکری کیلئے باآسانی کھل جاتے ہیں۔ عبد اللہ بولزانو کے اٹالین سکول COMMERCIALE TECNICO ISTITUTO میں پڑھتے ہیں۔ دوران تعلیم ہی سکول نے انہیں تین ہفتے کیلئے ویلز اور انگلینڈ میں سٹری و ورک ٹور پر بھیجا جہاں انہوں نے انگریزی زبان و ثقافت سے گہری واقفیت حاصل کرنے کے علاوہ LAVORO DEL MONDO کی دنیا کا تجربہ حاصل کرنے کیلئے اعزازی طور پر کام بھی کیا۔
Abdulla, Sha Rukh
وہ وہاں ایک پراجکٹ کے تحت ایک انگریز فملی کے ساتھ رہائش پزلر رہے 18 سالہ عبد اللہ اب تک آسٹریا جرمن، ویلز اور انگلینڈ دیکھ چکے ہیں۔ ایک سوال کے جواب مں انہوں نے بتایا کہ زبان اور کلچر کی وجہ سے انگلینڈ انہیں سب سے زیادہ پسند آیا۔ اٹلی کھانوں کی وجہ سے، سسوئٹرز لینڈ اکنامی کی وجہ سے مشہور ہیں لیکن انگلینڈ کھانوں کی وجہ سے بری شہرت یکہتا ہے کیونکہ وہاں کے کھانے اچھے اور مزیدار نہیں ہوتے۔ عبداللہ کم لیکن اچھے دوست بنانے پریقین رکھتے ہیں۔ انکے بیسٹ فرنیڈ شاہ رخ جرال ہیں۔
جن کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے انگریزی کا ایک مقولہ بھی کوٹ کیا YOU TIME YOU BECOME THE PERSON WITH THE MOST یہاں کی تہزیب ہمارے ملکوں سے مختلف ہے، لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں یہاں کوئی پاکستانی نوجوان یا طالبعلم کسی کے ساتھ بات کرلے یا تصویر اتروانے یا ساتھ کھڑا نظر آئے تو لوگ اور والدین شک کی نگاہ سے دیکنھے لگتے ہیں۔ سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے اچھے بھلے نوجوانون کو بلہ وجہ بدنام کر کے رکھ دیتے ہیں۔ میری سب سے نمایاں عادت یہ ہے کہ ہر قسم کے ماحول میں ایڈجسیٹ کر سکتا ہوں۔ پاکستان کے برے حالات کے باوجود پاکستان رہ سکتا ہوں لیکن وہاں فیوچر نہیں۔
پاکستان کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہاں ایک کماتا ہے دس کھانے والے ہوتے ہیں۔ نوجوان نہ پڑھائی کرتے ہیں نہ کام میں انکا دل لگتا ہے۔ میرے بچپن کے دوستوں میں علی، ہارون اور مانی شامل ہیں وہ سب پاکستان میں اعلی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ میری دعا تھی کہ اللہ تعالی مجھے ایک بھائی دے دے میری دعا پوری ہوئی میرا چھوٹا بھائی مراز عمر بیگ، اپنی شرارتوں کی وجہ سے میرا دل میری جان میراجگر ہے پاکستان سے طالبائزشین اور نااُمیدی کو تعلیم پھیلہ کر ہی حتم کیا جاسکتا ہے انڈیا، سری لنکا، اور بنگلہ دیش تعلیم پھیلا کر ہی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ میرا اپنے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے کہ دیار غیر میں ترقی کرنی ہے تو یہاں کے مقامی لوگوں سے قربت پیدا کریں۔ انکے کلچر کے بارے میں جانیں اور انہیں پاکستان کے کلچر و ثقافت کے بارے میں بتایئں۔