طالبان کے ساتھ مزاکرات یا جنگ

Taliban

Taliban

گزشتہ لمبے عرصے سے ہم ایک عجیب کشمکش کا شکار ہیں کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات کیے جائے یا ان کے خلاف بھر پور کاروائی کی جائے۔ پاکستان کی زیادہ تر مذہبی قیادت کا زور ہے آپریشن کی بجائے مذکرات کی میز پر بیھٹا جائے۔ جبکہ دوسری جانب کچھ حلقے اس بات پر زور دے رہیے ہیں کہ آپریشن ہی کیا جائے اور اس آپریشن کے ذریعے دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ اس میں کوئی شک والی بات نہیں کہ آپریشن سے پہلے ہر ڈاکٹر مریض کو چند کے لیے میڈیشن استعمال کرواتا ہے تاکہ آپریشن کی ضرورت پیش نہ آئے اور مریض کا علاج بغیر آپریشن ہی انجام کو پہنچے لیکن جب مریض کو میڈیشن سے آفاقہ نہیں مل پاتا تو آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے پچھلے دنوں مولانا سمیع الحق اور وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کی ملاقات ہوئی جس سے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر سامنے آیا تھا کہ ایک بار پھر سنجیدگی سے حکومت نے مذاکرات کافیصلہ کر لیا ہے۔ اوراس مسئلے پر پریشان حال قوم نے بھی سکھ کا سانس لیا کہ اب معاملات ضرور بہتری کی جانب بڑھے گے۔ لیکن اس دوران کچھ بڑی کاروائیاں۔ بنوں اور روالپنڈی میں دھماکوں سے فوجی جوانوں کی شھادت اورکراچی میں میڈیا ٹیم پر حملہ اور شمالی وزیرستان میں فضائیہ کا سرجیکل آپریشن جس سے بچوں خواتین سمیت 50 سے زائد افراد کو اپنی جانوں سے ہاتھ دونا پڑے۔

Maulana Sami ul Haq

Maulana Sami ul Haq

جس کے بعد مولانا سمیع الحق کا بیان سامنے آگیا کہ میں نے مذکرات کے لیے کوشیش کی لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ مولانا اگر اس حوالے سے کردار ادا کر سکتے تھے تو حکومت کو امن کی خاطر ان کو موقع دینا چاہیے تھا لیکن پھر ایک بار ماحول آپریشن کی جانب بڑھ رہا ہے اس حوالے سے کچھ جماعتیں آپریشن کے حق میں ہیں اور کچھ کا کہنا ہے کہ پہلے مذکرات کیے جائے اور اگر مذکرات کامیاب نہیں ہوتے تو آپریشن کیا جائے اور کوئی اس بات کا مطالبہ کر رہیے ہیں کہ آپریشن کسی مسئلے کا حل نہیں سنجیدہ انداز سے مذکرات کیے جائے کیونکہ ہزاروں جانوں اور اربوں روپے کے نقصان کے بعد بھی آخر کار مذکرات ہی سے مسئلہ حل ہو گا۔۔ اسی طرح پوری قوم بھی ان تین حصوں میں بٹی ہوئی ہے۔ ان حالات میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن کا ایسا بیان پہلی بار سامنے آیا ہے جس میں انہوں طالبان کے ردعمل کیخلاف بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جیٹ طیاروں کی بمباری سے نہ امن قائم ہو سکتا ہے اور نہ خود کش حملوں سے شریعت نافذ ہو سکتی ہے۔ سید منور حسن اور جماعت اسلامی کے بارے میں عام تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں ہی طالبان رہنما کو شہید کہنے پر کافی حد تک تنقید کی زد میں رہیے ہے۔ میاں محمد نوازشریف جو پر امن پاکستان کا نعرہ لیکر اقتدار میں آئے ہے۔

ان کو سارے مسئلے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے پوری قوم کو اسانداز سے اعتماد میں لیا جائے کہ اگر مذکرات یا آپریشن جو بھی ہو پوری قوم ایک آواز ہو کر آپ کے پیچھے کھڑی ہو۔ اس وقت پوری قوم ڈرونز کے خلاف یک زبان ہے پاکستانی عوام تو امن کی خواہ ہے۔ جو ریاست کی مکمل ذمہ داری ہے اور ریاست کو اسی انداز سے معاملات کو چلانا ہو گا جس سے پائیدار اور دیرپا امن نصیب ہو سکے اور ہم پاکستانی امریکہ۔ اسرائیل اور بھارت کی شازش جس کے نتیجے میں مارنے والا بھی پاکستانی اور مرنے والا بھی پاکستانی ہم نے اس شازش کو ناکام بنانا ہے اور پاکستان کو پرامن ملک بنانا ہے ہمارا بھی فرض ہے کہ حکومت کے ہر اچھے اور مثبت فیصلے میں بھرپور ساتھ دیں اور جو غلط فیصلوں پر اپنی رائے کا بھر پور اظہار کریں جس سے حکومت کو اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنا پڑے ایک طرف تو ملک خودکش حملوں اور دھماکوں کی زد میں ہے۔

ملک بھر کے نامور علماء اکرام کی ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بھی ایک ہی کیمونیٹی کے کے لوگوں کو نشانہ بناکر ملک میں فرقہ وارانہ فسادات کی کوشیش کی جا رہی ہے، جو سمجھدار علماء اور بالغ نظر مذہبی قیادت کی وجہ سے دشمنان اسلام و پاکستان اپنی ان ناپاک حرکتوں میں ناکام ہوئے ہے اور انشاء اللہ ناکام ہوتے رہیے گے۔ اسی طرح ان مذہبی جماعتوں کو بھی سامنے آکر اپنا رول ادا کرنا ہوگا جن کے لیے طالبان نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان کی بات احترام سے سنتے ہیں وہ طالبان کے خودکش حملوں اور دھماکوں کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کریں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کا فرض بنتاہے کہ اس بدامنی کے اہم مسئلے پر سنجیدگی کا اظہار کرتے ہوئے تمام سیاسی و مذہبی قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مذکرات اور آپریشن کے حوالے سے اعتماد میں لے تاکہ اس اہم مسئلے پر پوری قوم یک زبان ہو اگر خدانخواستہ دہشتگردی کے اس بند کو باندنے کے لیے آپریشن ہی ناگزیر ہوتو تب بھی تمام سیاسی و مذہبی قیادت حکومت کے ساتھ کھڑی ہوں۔

Umar Farooq

Umar Farooq

تحریر:عمرفاروق سردار