ڈھاکا (جیوڈیسک) بنگلہ دیشی کی عدالت نے جماعت اسلامی کے 70 سالہ سربراہ مطیع الرحمان نظامی سمیت 14 افراد کو موت کی سزا سنا دی ہے۔ مطیع الرحمان نظامی اسلحے کی اسمگلنگ کے اس کیس میں 2010ء سے پولیس کی حراست میں ہیں۔ اس کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔
اس عدالتی فیصلے کے بعد بنگلہ دیش میں مزید ہنگاموں کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ مطیع الرحمان نطامی کو دی جانے والی سزا کا تعلق 2004ء میں پکڑے جانے والے اسلحے کی بھاری مقدار سے ہے۔
مطیع الرحمان نظامی پر عائد الزامات کے مطابق انہوں نے بندرگاہ پر اسلحہ اتارنے میں مدد فراہم کی تھی۔ اس اسلحے میں تقریباً 5 ہزار جدید رائفلیں اور 27 ہزار سے زیادہ گرینیڈز بھی شامل تھے۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیر مطیع الرحمان نظامی جو اُس زمانے میں وزیر صنعت تھے اُن پچاس افراد میں شامل تھے جن پر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے گروہ کی حیثیت سے اسلحہ رکھنے اور سمگل کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر الزامات بھی عائد کئے گئے تھے۔
سزائے موت پانے والوں میں ایک سابق وزیر داخلہ کے ساتھ ساتھ دو بڑے خفیہ اداروں کے سابق سربراہان بھی شامل ہیں۔ پراسیکیوٹر کمال الدین نے کہا ہے کہ یہ ایک ایسا کیس ہے جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی، تمام ملزمان کے ساتھ انصاف کیا گیا ہے۔
ہم اس عدالتی فیصلے سے مطمئن ہیں۔ وکیل صفائی قمر الاسلام سجاد نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے کیونکہ یہ فیصلہ ”سیاسی” ہے اور اس کا مقصد ”بھارت” کو خوش کرنا ہے۔ واضع رہے کہ مطیع الرحمان نظامی گزشتہ ایک عشرے سے زائد عرصے سے جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ چلے آ رہے ہیں اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی اُس سابقہ حکومت کے ایک طاقتور وزیر تھے جسے دسمبر 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں اقتدار سے رخصت ہونا پڑا تھا۔
مولانا مطیع الرحمن نظامی جماعت اسلامی کے ان 10 رہنمائوں میں شامل ہیں جنہیں حسینہ واجد کی حکومت بطور خاص سزائیں دلوانے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس سے پہلے جماعت کے مرکزی رہنماء عبدالقادر ملا کو دو ماہ پہلے پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ سابق امیر پروفیسر غلام اعظم سمیت متعدد رہنما جیلوں میں بند سزا بھگت رہے ہیں یا مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں۔