مذاق رات کی گردان

 Taliban

Taliban

دو دن قبل یہ مضمون لکھا اور آج صورت حال مختلف ہے تاہم ریکارڈ کے لئے مذاق رات یا مذاکرات کے اِس شور شرابے میں طالبان اپنے اہداف کو دن کی روشنی میں نشانہ بنا رہے ہیں طالبان کے حمائتی …نہیں اندر سے کٹر طالبان مذاکرات کے علاوہ کس دوسرے آپشن سے قوم کو ڈرا رہے ہیں کہ پتہ نہیں کیا آسمان گِر پڑے گا اگر طالبان کے ساتھ اُسی زبان میں بات کی جو وہ استعمال کر رہے ہیں تو کیا ہوگا ….طالبان تحریک کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہا ہے کہ مذاکرات حکومت کی خواہش (یعنی ہماری نہیں )ہے تو سنجیدگی دکھائے دھمکیوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا حکومت اپنی خواہش کے لئے بہتر ماحول فراہم کرے ( ایسا بہتر پر امن ماحول فراہم کرنا ہماری زمہ داری نہیں )اب طالبان کے حمائتی قوم کو ڈرا رہے ہیں سابق چیف آف آرمی اسلم بیگ کہتے ہیں …اپریشن کے لئے دباؤ بڑہانے والے نواز حکومت گرانا چاہتے ہیں، مگر کڑوی گولی نگلنے بارے یہ نہیں بتاتے کہ کس مسلہ پر مذاکرات ہونگے اور ہزار سے زائد معصوم پاکستانیوں کے خون سے رنگین ہاتھوں سے کس حثیت سے مصافحہ کیا جائے گا …اب مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں قوم کی بات کیو ں نہیں مانی جاتی، حکومت ملک میں جنگ بندی کرتے ہوئے قیام امن کے لئے مذاکرات کا راستہ اپنائے، مگر بنوں اور جی ایچ کیو، پر حملے، مستونگ میں نہتے عوام پر حملہ، کراچی اور ملک کے دیگر حصوں میں حملے کرنے والوں کو کھلی چھٹی ہے۔

انہیں یہ نہیں کہتے کہ نہتے عوام کا خون بہانے کا کھیل بند کریں اور مذاکرات کی راہ اپنائیں …اب دونوں طرف سے مذکرات کے پتے کھیلے جا رہے، اورھکومت اپنے انداز ے کے مطابق ترپ کے پتے استعمال کر رہی ہے، اور اس کھیل میں نہتے عوام اور فوجی مارے جارہے ہیں .. . پھر دفاع پاکستان کی سپریم کونسل نے حکومت کو متنبہ کیا ہے کہ فوجی اپریشن کے نام پر بے گناہ اور معصوم لوگوں کے قتل سے گریز کیا جائے، یہ پاکستان کا دفاع کرنے والی کونسل کی طرف سے حکومت کو تمبیہ تھی کیا عجب بیان ہے… اِ س کا مطلب یہ ہے کہ جو ہر روز بم دھماکوں اور خود کش حملوں میں فوجیوں سمیت عام شہری مارے جارہے ہیں وہ سب لوگ گناہ گار اور واجب القتل، اور اگلے دن مستونگ میں زائرین کو نشانہ بنایا گیا، دفاع پاکستان کونسل کے بیان کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ معصوم بھی گناہ گار تھے اور اگر قاتلوں کے خلاف اپریشن کیا جائے تو یہ لوگ معصوم ہیں ….مولانا منور حسن امیر جماعت نے کہا ملٹری اپریشن خطرناک ہے امریکی مقاصد پورے کئے جارے ہیں ،جناب امیر صاحب یہ سچ بھی کہہ دیں تاکہ عوام میں کوئی شک نہ رہے کہ طالبان ہر روز ہی نہتے عوام اور فوج کو نشانہ بنا رہے ہیں یہ کن کے مقاصد پورے کر رہے ہیں…اب تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہدنے ترپ کاپتہ پھینکا کہا کہ مذاکرات حکومت کی خواہش ہے تو سنجیدگی دِگھائے ہمیں دھمکیوں سے مرعوب نہیں کیا جا سکتا اگر مذاکرات حکومت کی خواہش ہے تو بہتر ماحول فراہم کرے ….،انکے کہنے کا مطلب صاف ہے کے ہم تو اپنے اہداف پر حملے کرنے میں آزاد ہیں جب چاہیں جہاں چاہیں ہدف کو نشانہ بنا سکتے ہیں ہماری کوئی خواہش نہیں کہ مذاکرات ہوں۔

…، پھر ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدلقدیر خان نے کہا ہے کہ موجودہ صورت حال میں طالبان سے ہتھیار ڈالنے کی توقع رکھنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں مگر دہشت گردی کی مذمت کرتا ہوں(دہشت گردوں کی نہیں..)تاہم امریکا مذاکرات کو سبو تاژکرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جب تک امریکا خطے میں موجود ہے معاہدہ ہونا ممکن نہیں …یعنی ہر ایک تان یا تو امریکا پر یا حکومت پرٹوٹتی ہے کہ یہ امن نہیں ہونے دیتے جس کا واضح مطلب طالبان کی حمائت کیونکہ جب سارا ملبہ کس اور پر ڈال دیا جائے تو لامحالہ طالبان کو تقویت ملے اور کامل یکسوئی سے اگلے تارگٹ کو نشانہ بنائیں گے۔

Imran Khan

Imran Khan

اب جناب عمران خان صاحب فرماتے ہیں کہ مجھے وزارت عظمےٰ دیں نجی ٹی کے پروگرم میں اینکر کے سوال پر کہا اگر طالبان سے مذاکرات میں نے کرنا ہیں تو پھر وزیر آعظم بنا دیا جائے تو مسلہ حل کر دونگا گفتگو کے دوران طالبان گروپس کے حوالے سے یہ اہم انکشاف بھی کیا کہ اُنکے پاس پہلے بھی اور اب بھی پیغامات آئے کہ چند گروپ مزاکرات چاہتے، مگر اگر میں وہاں ہوتا تو یہ سوال کرتا کہ کم ازکم قوم پر یہ احسان کر دیں وہ مسلہ کیا جس نے ہزاروں لوگوں کی جان لے لی، اور مسلہ، مسلہ کشمیر اور فلسطین سے بھی زیادہ گھمبیر و تباہ کن ہے جس ملک کی جڑین ہلا دی ہیں، طالبان حمائتیوں کا اس پر اسرار ہے حکومت کے لئے مشورہ کہ جنگ مسلہ کا حل نہیں، دنیا میں آج تک ہزاروں جنگیں لڑی گئی، اربوں کھربوں انسان ہلاک کئے کیوں؟۔

اگر جنگ مسلے مسائل کا حل نہیں تو پھر یہ ایٹم بم کس لئے، پاکستان میں ٦لاکھ سے زیادہ فوج رکھنے کی ضرورت کیا اس پر اربوں کا بجٹ کس لئے ؟پھر یہ دفاع پاکستان کونسل اگر یہ ہر قسم کے مہلک ہتھیار تلف کئر دئے جائیں، دوسروں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیا جائے فوجیں ختم کر دی جائیں تو یہ دنیا پھر سے باغِ عدن میں تبدیل ہو جائے گی، مگر ابلیس جو روز اول ہی سے آدم کا دشمن، محبت کی ضد ہے کبھی نہیں چاہا اور نہ چاہے گا کہ انسان انسان بن کر امن سے رہے، ابلیس اپنی شوریٰ سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ،،،ع؛ہے مرے دست تصرف میں جہانِ رنگ و بو؛ کیا زمیں کیا مہر و ماہ کیا آسمان تُو بتو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق؛ میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو، میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ اقوام یورپ کی جگہ تاریخ عالم کی روشنی میں اقوم عالم کہا جاتا تو زیادہ بہتر تھا ،کیونکہ ابلیس کی نظر میں کوئی ایک خطہ یا ایک قوم نہیں بلکہ پوری نسل آدم ہے کیا اِما مانِ سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ؛ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہُو ( علامہ اقبال) اب زیادہ متاثر تو خیبر پختونخوا ہے عمران خان نے امریکی ڈرون کے خلاف دھرنا دیا اور کامیاب بھی تو کیا وہ طالبان کی طرف سے جاری حملوں کے خلاف بھی دھرنا دے سکتے ہیں؟

کہ یہ حملے بند کئے جائیں، اب حکومت نے مذاکرات کے لئے ایک اور پتہ کھیلا ہے، وزیر آعظم کے مشیر امیر مقام نے کہا ہے کہ حکومت مذاکرات کے لئے تیار ہے مولانا فضل الرحمن، عمران خان، مولانا سمیع الحق اور مولانا منور حسن طالبان کا ایجنڈا سامنے لائیں کسی ایسے ایجنڈے کو تسلیم نہیں کریں گے جس میں حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جائے، مقام ِحیرت ہے جس پر حملے کئے گئے اور مُشیر خاص ہو طالبان ایجنڈے سے لا علم ہے، پہلی شِق، سزائے موت کے قیدیوں کی سزا ختم ؛ (٢)تمام طالبان قیدیوں کو غیر مشروت رہا کیا جائے(٣)ہماری حیثیت کو قانونی تسلیم کیا(٤)کسی قسم کا طالبان مخالف پروپیگنڈا ممنوع قرار دیا جائے،(٥)کسی بھی قانون سازی میں طالبان رائے شامل کی جائے…. مطالبات کی فہرست طویل ہو سکتی ہے، جن پر سودے بازی ہو گی ہزار پاکستانیوں خون معاف کر کے خود اپنا تحفظ کیا جائے سودا مہنگا نہیں۔

اب، ادارہ فکر و عمل اسلام آباد کے زیر اہتمام منعقد کانفرنس میں اب ایک اور پتا، مولاناسمیع الحق نے پھینکا حکومت طالبان سے مذاکرات میں سنجیدہ نہیں، ہم طالبان کے ساتھ نہیں وہ ہمارے ساتھ ہیں، کچھ لوگ فوج اور طالبان میں جنگ چاہتے ہیں کسی صورت جنگ کی حمائت نہیں کر سکتے افغانستان میں جنگ کا خاتمہ جبکہ پاکستان میں یہ جنگ شروع ہو رہی ہے اگر یہ جنگ چھڑ گئی تو ہر شہر میدان جنگ بن جائے گا بات چت کی مخالفت کرنے والے پاک فوج کو مروانا چاہتے ہیں(جبکہ ہم بچانا چاہتے ہیں ) سید منور حسن نے کہا اسامہ بن لادن جیسے لوگ مرتے نہیں بلکہ ہمیشہ دلوں میں زندہ رہتے ہیں انہوں نے کہا امن اور ظلم ایک ساتھ نہیں چل سکتے (پر امن وزیرستان )ہم شمالی وزیرستان میں فوجی اپریشن کی مخالفت کرتے ہیں ہمارا یہ مطا لبہ فوج کے حق میں ہے، ان رہنماؤں کے بیانات میں کوئی ابہام نہیں کھل کر طالبان کی حمائت اور اُنکے خلاف کسی کاروائی کی مخالفت وہ کہتے ہیں پاکستان میں جنگ شروع یہ طالبان نہیں بلکہ طالبان کے لبادے میں لفظ جنگ کا مطلب دو متوازی طاقتوں کے درمیان جنگ …ایسے بیانات سے عوام اور فوج کو ڈرایا جا رہا ہے۔

اگر حکومت مذاکرات ہی چاہتی تو پھر مولانا سمیع الحق، مولانا فضل الرحمن، سید منور حسن، اور لیاقت بلوچ ان راہنماؤں سے ہی مذاکرت کر لیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اُن کا کیا ایجنڈا ہے، اور پنجابی تحریک طالبان کے امیر عصمت اللہ معاویہ کی جو تصویر آن لائن جیو اردو، نے اس کے بیان کے ساتھ لگائی، دو اسلحہ بردار نقاب پوش محافظ اُس کی پشت پر کھڑے ہیں نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ تحریک طابان کی مجلسِ شوریٰ مذاکرات کا فیصلہ کر چکی ہے حکومت کو اِس پیش کا مثبت جواب دینا چاہئیے انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن سید منور حسن، عمران خان، اور مولانا سمیع الحق مذاکرات میں اہم کردار کر سکتے ہیں۔

Badar Sarhadi

Badar Sarhadi

تحریر : ع.م بدر بدر سرحدی