برسوں پہلے نواز شریف کو اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف نے معزول کر کے گرفتار کر لیا تھا۔ اور انہیں جلا وطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اب نواز شریف صاحب تیسری بار وزیراعظم بن چکے ہیں اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف پہلے قید خانے میں گئے پھر ضمانتیں ہوئیں اور اب ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ (مطلب یہ کہ بدلہ وصولی کا روایتی اندازجاری ہے) ان کے خلاف جس طرح کے سنگین الزامات ہیں اس میں انہیں خدا نخواستہ سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اب ٧فروری کو دیکھئے عدالت میں کیا ہوتا ہے۔ نواز شریف اس اعتبار سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں عوام نے تیسری بار وزیراعظم بنوا دیا۔ ویسے تو انتخابات کے دوران مسجدوں سے یہ اعلان بھی کیا گیا تھا کہ عورتیں ووٹ دینے کے لیئے گھر سے باہر نہ نکلیں پھر بھی غالباً ایک قبائلی علاقہ ایسا تھا جہاں کی عورتوں نے بھی ووٹ ڈالا مگر پردہ کی خلاف ورزی کیئے بغیر۔ اس بار پاکستان کی قومی اسمبلی کے الیکشن میں ایک بہت ہی نمایاں خصوصیت یہ رہی کہ بھٹو خاندان کا سحر ٹوٹ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور پھر بینظیر بھٹو تک نے عوام کو اپنا خاصہ گرویدہ کر لیا تھا اور پھر بی بی کی شہادت کے بعد بھی ان کی حکومت بنی اور پاکستان کی تاریخ میں اپنے پانچ سال پورے بھی کئے۔ اس بار بھی ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے اپنی حکومت لانی چاہی مگر ان کی یہ کوششیں کارگر نہ ہوئی یعنی کہ ان کی گاڑی آگے نہ چل سکی۔ صرف سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہی بن سکی۔ عمران خان نے بھی بڑی جد و جہد کی اور ماضی میں سیاست سے اگرچہ ان کی دوری رہی تھی لیکن پھر بھی انہوں نے انگنت کامیابی حاصل کی کہ تحریک انصاف کی سیٹوں کی تعداد تقریباً اتنی ہے جتنی کہ پیپلز پارٹی کی مگر نواز لیگ کو دو تہائی سے زائد اکثریت مل گئی۔
نئے وزیراعظم کو اندرون ملک بجلی کی شدید قلت، فرقہ وارانہ غارت گری، شدید قسم کی مہنگائی عروج پر پہنچی ہوئی بے روزگاری، کرپشن ، روپئے کی گرتی ہوئی ساکھ سمیت دہشت گردی کی لعنت جیسے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ افغانستان کے حالات اور ڈرون حملے بھی اس حکومت کے لیئے دردِ سر ہیں۔ اب ان تمام حالات و واقعات کو لے کر نواز حکومت کی کیا پالیسی ہوگی وہ سب وقت آنے پر معلوم ہو گا۔ اتنا ضرور ہے کہ موجودہ وزیراعظم کے لیئے تیسری باری گزارنے میں ان کی اور ان کی ٹیم کی ذرا سی غلطی انہیں مہنگی پڑ سکتی ہے۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ کیونکہ ان کا یہ ٹرم پچھلے دو ٹرموں سے زیادہ مشکل ہے۔ آج میڈیا آزاد ہے اور ذرا ذرا سی بات فوری طور پر بریکنگ نیوز بن جاتی ہے یعنی عوام تک خبروں کی رسائی انتہائی آسان ہو چکی ہے۔ اپوزیشن کے تمام لوگ اس تاک میں ہوتے ہیں کہ کہیں غلطی ہو اور ایشو بنایا جائے۔ اسی طرح ملکی حساس معاملات بھی دگر گوں ہونے کی وجہ سے انہیں خاصہ محتاط رویہ رکھنا پڑ رہا ہے۔ پڑوسی ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اپنانا بھی خاصہ مشکل تھا مگر اب تجارت اور عام لوگوں کی آمد و رفت میں کچھ آسانیاں فراہم کی گئیں ہیں جو اس حکومت کا اچھا فیصلہ ہے۔ 1990ء کی دہائی می نواز شریف دو مرتبہ وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اس وقت بھی اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان میں تعلقات کو بہتر بنانے کا وقت ہے جنہیں حل کرنا بے حد ضروری ہے۔
Elections
انتخابات سے پہلے کا سیاسی منظر نامہ مختلف تھا، میدان میں جو بڑی پارٹیاں تھیں ان میں نواز لیگ، پیپلز پارٹی، تحریکِ انصاف، ایم کیو ایم، عوامی نیشنل پارٹی اور کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں شامل تھیں۔ ایم کیو ایم نے تو اپنی روایتی سیٹیں حاصل کر لیں مگر عوامی نیشنل پارٹی نے سرحد کی حکومت کھو دی۔ مگر نواز لیگ نے میدان مار لیا اور حکمران بن گئے۔ اس موڑ پر یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ ابھی سینیٹ میں دیگر پارٹیوں کا ریشو زیادہ ہے بنسبت حکمراں پارٹی کے۔ اب وقت انتخابات میں نعروں اور وعدوں کا گزر چکا ہے اور ١١مئی سے پہلے کیئے گئے تمام وعدوں کو ایفاء کرنے کا وقت ہے۔
چونکہ کالم نگار بھی اسی دنیا میں رہتا ہے اور اپنے گرد و پیش کے حالات اور عام لوگوں سے اکثر سیر حاصل ڈسکشن کرتا رہتا ہے، تو اسی حوالے سے جو بات چیت لوگوں سے ہوئی اس کا ممبہ یہ نکلا کہ اب لوگوں میں یہ جستجو خاصہ پروان چڑھ رہا ہے کہ ہم نے ووٹ دے کر اپنا فرض پورا کر دیا ہے، اب بال حکمرانوں کے کورٹ میں ہے، وہ جلد سے جلد اپنے کیئے گئے وعدوں کی تکمیل کریں تا کہ عوام کی ترقی نظر آئے۔ ابھی تک بلدیاتی انتخابات سوائے بلوچستان کے کسی اور صوبے میں نہیں ہوئے۔ بلدیاتی افرادی قوت نہ ہونے کی وجہ سے شہروں کی خستہ حالی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ جو ترقیاں ہوئی تھیں اب وہ پستی کی جانب رواں دواں ہے۔ یعنی کہ ہم بجائے ترقی کرنے کے خستہ حالی کی جانب رواں دواں ہیں۔ اس لیئے مناسب ہوگا کہ جلد سے جلد شہروں کو بلدیاتی افرادی قوت مہیا کیا جائے۔
بلدیاتی ادارے ہونگے تو شہر میں ترقیاتی کام بھی ٹھیک طرح سے ہو سکیں گے۔ کچھ سالوں پہلے راتوں کو روڈ کی صفائی مشینوں کے ذریعے کی جاتی تھی مگر اب گٹر کی صفائی تک نہیں ہوتی۔ گلیاں جوہڑ کا نقشہ پیش کر رہی ہیں۔ اور سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ ایک دوسرے کے روایتی اختلاف کو ہوا مت دیجئے، آج فٹ پاتھوں پر اپنا روزی کمانے والے لوگوں پر اپنے بچوں کے لیئے روزی کمانا مشکل ہو چکا ہے۔ ہر روز دیکھنے میں آ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ان کے روزگار کو اُجاڑا جا رہا ہے جس کی وجہ سے یہ بیچارے لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں اور اپنے بچوں کی روزی کے حصول میں انہیں سخت دشواری کا سامنا ہے۔
آیئے زیرِ نظر سطور میں گئی تمام باتوں پر خاک ڈالتے ہوئے ہم صرف حکومت سے ایک التجا کرتے ہیں۔ ابھی آپ کی حکومت کے پاس لگ بھگ چار سال تو ہیں۔ آپ اس موقعے کا فائدہ اٹھایئے اور مسائل کی چکی میں پستے آپ کے اپنے عوام کے لیئے کارہائے نمایاں انجام دیتے جایئے۔ کوئی دھماکے میں اُڑ گیا تو اسے معاوضہ دیکر چپ کرا دینے والا معاملہ ختم کر کے دھماکوں کو ختم کیجئے۔ اس ملک سے بیروزگاری جیسی لعنت کو ختم کرنے کے لیئے عملی اقدامات کیجئے بجائے اس کے گزرے ہوئے سالوں اور حکمرانوں کی طرح لکیر کے فقیر بنے رہیں۔ مہنگائی کی وجہ سے تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہے اور ان کا ماہانہ بجٹ سخت متاثر ہے، اس لیئے ضروری ہے کہ ان کی تنخواہوں میں مارکیٹ بیس پر اضافہ کیا جائے، اس کے علاوہ تقریباً اداروں میں اقربا پروری بھی اپنے عروج پر ہے۔
سینئر ملازمین کو ترقی نہیں ملتی اور سفارشی لوگوں کو جو کہ سینئر لوگوں سے کم تجربہ کار ہوتے ہیں انہیں اعلیٰ عہدوں پر ترقی دے دی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان سینئر ملازموں کی حق تلفی ہو رہی ہے اس پر بھی گہری نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ امن و امان آپ کے لیئے بھی اور عوام کے لیئے بھی بے حد ضروری ہے اور ملکی ترقی کے لیئے بھی لہٰذا اس معاملے کو بھی سردست ٹھیک کرنے کی التجا ہے۔ ایک دوسرے کے روایتی مخالف ہونے کے بجائے مل کر مسائل کے حل کی کوششیں کی جائیں۔
آج کسی ادارے میں عام لوگوں کے لیئے نوکری نہیں ہے، اگر ہے تو سیاسی کارکنوں کیلئے، ایسا کیوں ہے، کیا ووٹ ڈالنے والے عوام کا ان نوکریوں پر کوئی حق نہیں ہے نوجوانوں کی ڈگریاں محض ایک کاغذ کا ٹکڑا بن کر رہ گیا ہے۔ اس وقت عوام کو خشک ہمدردی، یکطرفہ عشق میں مبتلا کرنے کا وقت نہیں جو ساحل پر بیٹھ کر ریگزار پر اپنی انگلیوں سے اپنی کامیابی کی یاد میں کچھ لکھتا ہے اور تیز ہوا کا ایک جھونکا یا سمندر کی ایک لہر آکر اسے مٹا جاتا ہے بلکہ ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اللہ آپ سب کو عوامی ایشوز کو حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین