واشنگٹن (جیوڈیسک) افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے کہا ہے کہ انہیں امریکا کی اپنے ملک میں موجودگی کا کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ ایک برطانوی اخبار کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں افغان صدر نے کہا کہ امریکیوں نے ان کے لیے کوئی کام نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف کام کرتے رہے۔
اس انٹرویو میں صدر کرزئی نے کُھل کر امریکہ مخالف جذبات کا اظہار کیا اور طالبان کو “اپنے بھائی” اور امریکیوں کو “مخالف” قرار دیا۔ صدر کرزئی نے کہا کہ وہ اپنے دورِ اقتدار کے 12 برسوں کے دوران میں مسلسل امریکیوں سے یہ التجا کرتے رہے کہ وہ عام افغانوں کی زندگیوں کو اپنے ہم وطن امریکیوں جتنی اہمیت دیں۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ سال جون میں امریکی صدر براک اوباما سے آخری بار بات کی تھی جس کے بعد سے ان کے بقول دونوں رہنمائوں کے درمیان کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔ انہوں نے اخبار کو بتایا کہ ان کا جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کی آخری رسومات کے موقع پر صدر اوباما سے آمنا سامنا ہوا تھا لیکن دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ صدر کرزئی کے بقول اس عرصے کے دوران میں ان کے اور امریکی صدر کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوتا رہا ہے۔
افغان صدر نے الزام عائد کیا کہ امریکہ کو جو رقم افغان پولیس کو دینا چاہیے تھی وہ اس نے نجی سکیورٹی اداروں کو دی اور قبائلی لشکر تشکیل دینے پر خرچ کر دی جس کے نتیجے میں بدامنی، بدعنوانی اور ڈکیتیوں کو فروغ ملا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کرنے کے بعد امریکیوں نے افغانوں پر نفسیاتی جنگ مسلط کر دی تا کہ افغانوں کی اپنی دولت بیرونِ ملک منتقل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔
صدر کرزئی نے الزام عائد کیا کہ امریکیوں نے ان کے ملک میں مخصوص مالدار حلقوں کو پروان چڑھایا اور باقی آبادی کو محرومی اور غصے میں جلنے کے لیے چھوڑ دیا۔ امریکیوں کے رویے سے شاکی افغان صدر نے اس انٹرویو میں برطانیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے برخلاف برطانوی حکومت نے افغانوں کے ساتھ انتہائی مہذب برتائو کیا اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر بنانے میں مدد دی۔ اخبار کے اس سوال پر کہ امریکہ مخالف موقف اپنانے پر مغربی ممالک ان کی حکومت کی مالی امداد بند کر سکتے ہیں جس پر فغان صدر کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک پیسہ ہی سب کچھ نہیں اور وہ ذاتی طور پر غیر یقینی صورتِ حال کا شکار ہونے کے بجائے غربت میں زندگی گزارنے کو ترجیح دیں گے۔
صدر کرزئی نے کہا کہ انہیں اپنے 12 سالہ دورِ اقتدار پر فخر ہے اور وہ افغان عوام کے لیے ایک ایسا ملک چھوڑے جا رہے ہیں جو تمام افغانوں کا گھر ہے اور جسے ایسی پارلیمان میسر ہے جس میں تمام متحارب کمانڈر، علما، مجاہدین اور خواتین ساتھ بیٹھتے اور قانون سازی کرتے ہیں۔