اسلام آباد (جیوڈیسک) طالبان کی 3 رکنی کمیٹی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ طالبان کی کمیٹی کے قیام کو تین دن گزر چکے ہیں لیکن حکومتی کمیٹی نے ہم سے رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جس کے بعد ہم نے خود ہی ان سے رابطہ کر کے آج دوپہر 2 بجے ملاقات کا وقت طے کیا تاہم اس کے باوجود عین وقت میں ان کی جانب سے کہا گیا کہ ابھی کچھ معاملات واضح نہیں ہیں جب کہ طالبان نے 5 رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن اب 3 رکنی رہ گئی ہے لہذا فی الحال یہ اجلاس نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ بیرونی دباؤ نے حکومتی کمیٹی کو پسپا کر دیا جب کہ امریکا مذاکرات میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا مذاکرات کا عمل سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں حکومتی ٹیم جب چاہے مل بیٹھنے کو تیار ہیں۔ حکومتی کمیٹی ملاقات کی اہمیت نہیں سمجھتی، مذاکرات کا عمل سنجیدگی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
مولانا سمیع الحق نے کہا حکومت کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہم درمیان میں ہیں ہماری طرف سے دروازہ کھلا ہے ہماری طرف سے کوتاہی نہیں ہے۔ حکومت کتنی سنجیدہ ہے ہم دیکھ رہے ہیں طالبان سمجھتے ہیں ہمارے ساتھ کھیل ہو رہا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا بے شمار طاقتیں اس ملک میں امن نہیں چاہتیں ، وزیر اعظم مخلص ہیں لیکن دباو کا شکار ہیں محسوس یہی ہو رہا ہے کہ حالات آپریشن کی طرف جا رہے ہیں۔ واضح رہے حکومت اور طالبان کی مذاکراتی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس آج اسلام آباد میں طے تھا۔ اجلاس سے پہلے حکومتی کمیٹی نے بعض وضاحتیں طلب کیں۔
حکومتی کمیٹی کی جانب سے پوچھا گیا کہ دو ارکان کے شمولیت سے انکار کے بعد طالبان کمیٹی کی حیثیت کیا ہے۔ طالبان کی کمیٹی سے اس کے مینڈیٹ سے متعلق سوال بھی کیا گیا۔ حکومتی کمیٹی نے براہ راست کسی طالبان رہنما کے کمیٹی میں شامل نہ ہونے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینیٹر عرفان صدیقی نے مولانا سمیع الحق سے رابطہ کر کے فیصلے سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جلد تحریری شکل میں وضاحتیں طالبان کمیٹی کو پیش کر دی جائیں گی۔ وضاحتوں سے قبل مذاکرات کا آغاز لاحاصل ہو گا۔ حکومتی کمیٹی کے اس اقدام کے بعد مذاکرات میں تعطل پیدا ہو گیا۔ دونوں کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بھی منسوخ کر دیا گیا۔