ارض پاک پر وادی جنت نظیر” کشمیر

Subcontinent

Subcontinent

برصغیر میں تحریک آزادی کو منطقی انجام تک پہنچتا دیکھ کر بر صغیر سے پسپا ہوتی ہوئی سامراجی طاقت نے اپنے اکھڑتے قدموں کو مضبوط کرنے کیلئے برصغیر میں ”لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت عرصہ دراز سے باہم شیرو شکر رہنے والی مسلم و ہندو اقوام کے درمیان نفاق کا ایسا بیج بویا جس سے لگنے والے درخت پر آج تک پھل آرہے ہیں۔ یہ انگریز سرکار ہی تھی جس نے مسلمانوں اور ہندوں کو آپس میں باہم دست و گریباں کیا تاکہ مسلم ہندو اتحاد انگریز حکمرانی کے لئے خطرات نہ پیدا کر سکے۔ ایسے میں مفاد پرست ہندوؤں اور کچھ مسلم غداروں نے اس کارِ خیر میں انگریز سرکار کی نمک حلالی کا جو فریضہ انجام دیا اس کی وجہ سے ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان ایک ایسی خلیج حائل ہو گئی جس کی بدولت انگریز ایک طویل عرصہ تک سونے کی اس چڑیا برصغیر پر حکمرانی کرتا رہا اور پھر جب مسلمانوں کی قربانیوں اور مسلم رہنماؤں کی شب و روز محنت کے باعث اس کے لئے عوامی سیلاب کے سامنے بند باندھنا ممکن نہ رہا تو اس نے بادل نخواستہ برصغیر کو اپنے جبری تسلط سے آزادی دیتے ہوئے ہند و پاک میں تقسیم کر کے دو آزاد مملکتوں کے وجود کو تو تسلیم کر لیا۔

مگر ان دونوں مملکتوں کے درمیان ہمیشہ کے لئے کشمیر کے نام پر ایک ایسی وجہ تنازعہ پیدا کر گیا جس کے باعث یہ دونوں ممالک ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ”رقیب ” قرار پائے۔ یہ فرنگیوں کی سازش ہی تھی جس کی وجہ سے ”مرہٹہ راجہ ” نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ دینے والے کشمیر کا سودا اس کی عوام سمیت بھارت سے کر دیا۔ یہ دنیا میں اپنی نوعیت کی واحد ٹریڈنگ تھی جس میں مال و املاک قطعہ اراضی شجر و حجر ہی نہیں بلکہ زندہ انسانوں کو بھی فروخت کیا گیا اور بھارت نے چند ٹکوں کے عوض اس انسانی ٹریڈنگ کا قبیح فعل انجام دیا مگر دنیا بھر میں انسانوں پر خرید و فروخت پر پابندیاں عائد کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں نے لاکھوں انسانوں کی اس فروخت پر مظاہرہ کیا نہ اقوام عالم کے درمیان انصاف و مساوات کے منشور کو قائم کرنے کے لئے عمل پیرا اقوام متحدہ نے اس قبیح تجارت پر کوئی ایکشن لیا۔ یوں کشمیر لاکھوں انسانوں سمیت بھارت کی ملکیت قرار پایا مگر انسانیت کی اس تذلیل اور انسانوں کی اس خرید و فروخت کے لئے کشمیر کے غیور عوام نے عَلم جہاد بلند کر کے دنیا کو بتا دیا۔

Kashmir

Kashmir

کہ کشمیر نہ تو فروخت کرنے والے مرہٹہ راجا کا تھا اور نہ ہی خریدنے والے بھارت کا بلکہ کشمیر کشمیریوں کا ہے اور اپنے اس حق کو عالمی سطح پر منوانے کیلئے کشمیری اپنے لہو سے جو داستان رقم کر رہے ہیں اس کی لازوالیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کشمیر کا مسئلہ نہ تو پاکستان کا پیدا کردہ ہے اور نہ بھارت کا بلکہ یہ ایشیاء کے امن کے خلاف سامراج کی ایک سازش تھی جس سے اب پوری دنیا کے امن کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔

اس سازش کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ قیام ہند و پاک کے بعد جب برطانوی سازش کے تحت مسئلہ کشمیر نے جنم لیا اور کشمیری عوام کے تحفظ کے لئے پاکستان کے کردار کی ادائیگی کا وقت آیا تو قائداعظم کے احکامات کے باوجود اس وقت کے مسلح افواج کے برطانوی سربراہ جنرل ڈگلس نے قائداعظم کے احکامات سے انحراف کرتے ہوئے سامراجی خواہشات کے بموجب مسلح افواج کو کشمیر نہیں بھیجا اور یوں کشمیر پر بھارتی افواج کا غاصبانہ قبضہ عمل میں آیا جس کیلئے بھارت سے زیادہ برطانیہ ذمہ دار ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ برطانوی انگریز جب برصغیر آئے اور انہوں نے دولت شوکت اور شان کے مسلم حکمرانوں کے جو جلوے دیکھیں انہوں نے انگریزوں کی آنکھوں کو چندھیا دیا اور تجارت کے نام پر برِصغیر آنے والے فرنگی اس سرزمین کے مالک بن بیٹھنے کے خواب دیکھنے لگے جس کے بنیادی طور پر دو مقاصد تھے اول تو وہ صلیبی جنگوں میں مسلم سربراہوں اور جذبہ ایمانی کے ہاتھوں ہونے والی شکست اور لگنے والے زخموں کو نہیں بھولے تھے اور مسلمانوں سے اپنی اس شکست اور زخموں کا بدلہ لینا چاہتے تھے دوئم وہ یہ بات جانتے تھے کہ برِصغیر کے مسلمان صنعتی معاشی اقتصادی ثقافتی اور حربی اعتبار سے جس قدر مضبوط و مستحکم ہیں اگر انہیں سازشوں کے ذریعے کمزور نہیں کیا گیا تو کل پوری دنیا ان کی تقلید پر مجبور ہو گی اور مسلمانوں کا دنیا کی امامت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو جائے گا

United Kingdom

United Kingdom

اگر ایسا ہوجاتا تو یہ صلیبیت کی شکست ہوتی اس لئے برطانیہ نے جہاں برِصغیر پر قبضہ کر کے اس خطے کی دولت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا وہیں اس کی اقتصادی معاشی تجارتی اور ثقافتی بربادی کے اسباب پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں اور مسلمانوں کو بھی آپس میں اس طرح سے لڑایا کہ اس خطے کی محبت و اْخوت کی ثقافت تباہ ہو گئی اور اس کی جگہ مذہبی جنونیت نے فروغ پایا جس سے آج پاکستان بھی نبرد آزما ہے اور بھارت بھی اسی کا شکار ہے۔ اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ جب فرنگی مسلمانوں کی قوت ایمانی اور جذبہ شہادت کے ذریعے چلائی جانے والی تحریک آزادی کے ہاتھوں برِصغیر کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوئے تو انہوں نے اس خطے کو مذہب کی بنیاد پر دو ٹکڑوں میں بانٹنے کی سازش کی تاکہ برِ صغیر کے مسلمانوں کی قوت کو توڑا جاسکے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تحریک آزادی مکمل طور پر مسلمانوں کی جدوجہد پر مشتمل تھی اس میں ہندوؤں کا کوئی کردار نہیں تھا چونکہ فرنگی دور میں ہندوں کو اعلیٰ مراعات اور مراتب حاصل تھے۔

Muslims

Muslims

لہٰذا انہیں فرنگیوں سے نجات کی کوئی ضرورت ہی نہ تھی مگر جب مسلمانوں کی جانب سے تحریک آزادی زور پکڑتی چلی گئی اور فرنگی برِصغیر کو آزاد کرنے پر مجبور ہوئے تو برطانیہ کی ایما پر ایک سازش کے تحت ہندوؤں کو بھی اس جدوجہد میں شامل کرایا گیا۔ہندوؤں کی شمولیت کا مقصد انگریز سے آزادی کا حصول نہیں بلکہ آزاد ہونے والے خطے کو مکمل طور پر مسلمانوں کے حوالے کئے جانے سے اختلاف کرتے ہوئے اس خطے کو دو حصوں میں منقسم کرانا تھا اور یہی برطانیہ کا وہ حربہ تھا جس کے تحت پہلے برصغیر پاکستان و بھارت کے نام سے دو حصوں میں منقسم ہوا اور پھر اس کے بعد برطانیہ و بھارت کی سازشوں سے پاکستان کو مزید دو ٹکڑوں میں منقسم کر کے بنگلہ دیش کا وجود عمل میں لایا گیا کیونکہ برطانیہ نہیں چاہتا تھا کہ برصغیر میں کوئی ایسی مستحکم مسلم ریاست قائم ہو جو ایک بار پھر صلیبیوں کیلئے خطرات کا پیش خیمہ بن سکے۔

جبکہ اس حقیقت سے بھی برطانوی مکمل طور پر واقف تھے کہ سازش کے ذریعے برصغیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے اور یہاں کے مسلمانوں کو ایک جانب” ننھی منی”اور ”کمزور و ناتواں ” مسلم مملکت دینے جبکہ ساتھ میں ایک وسیع و عریض ہندو پڑوسی دینے اور بھارت میں موجود مسلمانوں کا قتل عام کرانے کے باوجود مستقبل میں کہیں پاکستان و بھارت کے درمیان دوستی کی وہ فضا پروان چڑھ سکتی ہے جو اس خطے کی اقتصادی خوشحالی کے ذریعے مسلمانوں کو ایک بار پھر وہ قوت پرواز عطا کرسکتی ہے کہ وہ دنیا کے امام و رہبر بن جائیں۔ اسلئے برطانیہ نے دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا مسئلہ پیدا کر کے ہمیشہ کے لئے دونوں ممالک کی دوستی کے درمیان ایک ایسی دیوار کھڑی کردی جو آج تک قائم ہے مگر اس سارے قضیئے میں سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کا ہوا جیسے ہاتھیوں کی جنگ میں گنے کا کھیت برباد ہوجاتا ہے بالکل اسی طرح برطانیہ کی مسلم دشمنی اور پاکستان و بھارت مخاصمت نے کشمیر کی جنت نظیر وادی کو اْمیدوں کا مدفن بنادیا گو کہ کشمیر پر بھارت کے غاصبانہ قبضے کے روز اول سے ہی ظلم و جبر کے جو پہاڑ توڑے گئے ان کی دنیا میں کہیں نظیر نہیں ملتی مگر جیسے جیسے کشمیر میں حریت پسندی کی لہر بڑھتی گئی ویسے ویسے بھارتی مظالم میں بھی شدت آتی گئی۔

اور 1989 سے آج یعنی 2014ء تک کشمیر میں روا رکھے جانے والے بھارتی مظالم کے اعداد و شمار انسانیت کی تذلیل اور حیوانیت کے عروج کی جو گواہی دے رہے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں ان 25 برسوں میں جہاں دنیا بھر میں پیداوار ترقی اور روز گار کے مسائل حل کرنے کی اسکیموں پر عمل ہوا حکمت عملیاں وضع کی جاتی رہیں وہاں مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم کا بازار گرم رہا آج صورتحال یہ ہے کہ روزگار کی کوئی حالت ہے نہ پیداوار کی پورا علاقہ مالی اور اقتصادی بدحالی کا شکار ہے۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہلاک ہوچکی ہے ‘معذوری کا شکار ہے یا پھر لاپتہ ہوچکی ہے گھروں املاک اور کاروبار کے مراکز کو تباہ کر کے خانگی زندگی کو بری طرح متاثر کر دیا گیا ہے۔

Srinagar

Srinagar

سری نگر سے شائع ہونے والے ایک ہفت روزہ کی رپورٹ کے مطابق بھارتی فوجی مردوں کو مویشیوں کی طرح ہانک کر بیگار کے لئے لے جاتے ہیں اور بعد میں ان کے گھروں میں گھس کر عورتوں کی آبروریزی معمول کی بات بن چکی ہے جبکہ بھارتی درندہ صفت افواج کے ہاتھوں 5 سال کی معصوم بچی سے لے کر 70 سال کی بزرگ خواتین بھی محفوظ نہیں ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں روزانہ 8 کم ازکم افراد شہید 15 زخمی’10 مکان خاکستر’ایک سے زائد خواتین بیوہ’ایک کا دامن تار تار اور 4 بچے یتیم ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں موجود آٹھ لاکھ سے زائد بھارتی فوج اور اس کے انسانیت سوز مظالم کشمیروں کے جذبہ حریت کو ماند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق کشمیر میںبھارتی فوج کے ہاتھوں اب تک دو لاھ سے زائد کشمیری شہید ہوچکے ہیں جبکہ 40 ہزار سے زائد کشمیری لاپتا ہیں ۔ان 25 سالوں میں 52675 عورتیں بیوہ بنادی گئیں جبکہ 207218 بچے یتیم کردیئے گئے 17 ہزار خواتین کی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی اور 205665 گھروں اور عمارتوں کے ڈھانچے تباہ کر دیئے گئے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کشمیر میں جاری اس انسانیت کے قتل عام کا ذمہ دار کون ہے ”بھارت” جس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے اور آٹھ لاکھ فوج کے ذریعے کشمیر کے نہتے عوام کو کچل رہا ہے یا برطانیہ جس نے مسلم دشمنی میں کشمیر کو پاکستان و بھارت کے درمیان تنازعہ بنانے کی سازش کرتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اس کے نتائج کشمیریوں پر کس طرح منتج ہوں گے یا کہ پھر اقوام متحدہ جو مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کشمیریوں کو حق خودارادیت دینے اور استصواب رائے کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کی قرادار پاس کرنے کے باوجود اس قراداد پر عملدرآمد کرانے میں ناکام رہی۔

Kashmiri People

Kashmiri People

آج جہاں ایک جانب برطانیہ سرکاری سطح پر مسئلہ کشمیر کیلئے کشمیری عوام سے معافی کا خواستگار ہے تو دوسری جانب اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری بان کی مون بھی مسئلہ کشمیر کے حل کو ضروری قرار دے رہے ہیں جو یقینا خوش آئند سہی کہ اس سے مستقبل قریب میں کشمیریوں کی جدوجہد کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے آثار ہونے شروع ہو گئے ہیں مگر مسئلہ کشمیر کے پیدا ہونے سے آج تک بلکہ مسئلہ کشمیر کے حل تک اس خطے میں جتنی بھی خونریزی غارت گری تشدد بدامنی اور انسانی حقوق کی پامالی ہوئی یا
ہوگی اس کیلئے اقوام متحدہ اور برطانیہ اتنے ہی ذمہ دار ہیں جتنا کہ بھارت لہٰذا برطانیہ کو اپنے پیدا کردہ اس مسئلے کے پر امن حل کی جانب فوری طور پر پیشرفت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراداد کے مطابق کشمیریوں کے استصواب رائے کے ذریعے انہیں حق خود ارادیت دلانا ہو گا اور اقوام متحدہ کو بھارت سے اپنی قراداد کی پابندی کراتے ہوئے فوری طور پر کشمیر میں منصفانہ انتخابات کے ذریعے کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا تب ہی ان کے گناہوں کا کفارہ ادا ہوسکتا ہے۔ وگرنہ بعد از قتل پشیمانی ماسوائے دھوکہ دہی کے اور کچھ بھی نہیں۔

تحریر: عمران چنگیزی