بیٹیاں تو انمول ہوتی ہیں

Daughter

Daughter

اسے پھولوں کا تبسم لکھوں یا خوش رنگ و خوشنما حنا، اسے سندس کی خوش بو لکھوں یا باد صباء کا جھونکا، اسے شبنم کا قطرہ لکھوں یا پھر خالق کا عطیہ، اسے سحر کا سویرا لکھوں یا رات کی رانی، اسے ستاروں کی کہکشاں لکھوں یا نایاب ہیرا، اسے زمین کا یاسمین لکھوں یا آسمان کا کوکب، اسے آنکھوں کی زونیرہ لکھوں یا صدف کا موتی، اسے باپ کی آبرو لکھوں یا ماں آرزو، میں اگر سب سے بڑھ کر کچھ لکھوں تو اس قدرت کی ثناء لکھوں جس نے بیٹی کو جہاں میں بے نظیر اور لاریب پیدا کیا ہے۔

روح زمین پر سب سے مقدس رشتہ والدین اوراولاد کا ہوتاہے۔ اللہ نے اگر بیٹے کو نعمت بنایا ہے تو بیٹی کو بھی رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ بیٹے کو سدا والدین کے ساتھ رہنا پڑتا ہے جبکہ بیٹی کے مقدر میں جدائی لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اسے والدین کے گھرسے رخصت ہونا پڑتا ہے۔اسے اک نیا گھر بسانا ہوتاہے۔ والدین کے گھر بیٹی پر کچھ حقوق ہوتے ہیں جس میں تعلیم، اخلاقیات، اور مناسب وقت میں شادی۔ قانون نے جو شادی کی عمر بتائی ہے وہ لڑکی کے لیے کم از کم 16 سال اور لڑکے لیے 18 سال ہے۔ اس سے کم عمر شادی کرنا قانون جرم ہے۔ ہر اچھے، باشعوراور محب وطن شہری وہی ہوتا جو شرعی اور ملکی قوانین پر عمل کرتا ہے۔

Marriage

Marriage

پاکستان کے بعض علاقوں بلخصوص سندھ میں کم ”عمری کی شادی” کا رجحان عام ہے۔ ”کم عمری کی شادی” کی کئی اشکال ہیں جن وٹہ سٹہ، دیت، ونی، توہم پرستی وغیرہ عام ہیں۔ اس فرسودہ رسم کی چند اہم وجوہات میں گیردارنہ نظام،دین سے دوری، غربت، تعلیم کی کمی، ہونا شامل ہے۔ اللہ نے بیٹی کا کوئی نعمل البدل نہیں بنایا جس کے بدلے بیٹی دی جائے۔ وٹہ سٹہ کی رسم کی نہ تو دین اجازت دیتاہے اورنہ ہی دنیا کا کوئی قانون۔ بیٹی رب کی ایک نعمت ہے یہ کوئی منڈی میں تبادلے کے لیے پیدا نہیں کی گئی ۔ شادی اس کا جائزحق ہے اور شریعت نے اُسے فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے۔

یہ کیسا فیصلہ ہوتا ہے جس میں معافی کی لیے شرط بیٹی کا رشتہ رکھ دیا جاتا ہے؟ جرم بیٹا کرتا ہے تو سزا بیٹی کوملتی ہے۔جس طرح زندگی گزارنابیٹے کا حق ہے اسی طرح بیٹی کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ بیٹی کو جرائم کی معافی کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ بیٹیاں تو عزتوں کی محافظ ہوتی ہیں۔ہمارے ہاںایک انتہائی گھٹیاں رسم بیٹی کے پیدا ہوتے کسی کے نام لگا دی جاتا ہے۔ وہ جیسے ہی بڑی ہوتی ہے اس بیاہ دیا جاتا ہے۔ لڑکا چاہے جرائم کا ہی مرتکب ہی کیوں نہ ہو۔ بیٹی دینی ہی اسی کو ہے ور نہ خاندان میں ناک کٹ جاتی ہے۔

یہ تمام رسمات پاکستان میں موجود ہیں۔ ان کو ختم کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔اگر یہ نظام یوں ہی چلاتا رہا تو بیٹیوںکی کوئی اہمیت نہیں رہے گی۔ تعلیم کو عام کر کے لوگوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہو گی۔

Media

Media

اس بات کو میڈیا، جمعہ کے اجتماعات، سکولوں کے نصب میں شامل کر کے لوگوں کو آگاہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ قانون کی پاسداری بھی ایک اہم محرک ثابت ہو سکتاہے۔ بیٹیاں جہاں عابدہ، ساجدہ اور صابرہ ہوتی ہیں وہاں عفت اور حیا کی علم بردار بھی ہوتی ہیں۔ بیٹیوں کو ان حقوق سے محروم کرنا ان کے ساتھ ظلم اور نہ انصافی ہے۔

تحریر: فہیم سلطان ہری پور