ہمارے سیاستدان تو ماشا اللہ مفت میں ہی تعلیم یافتہ ہوتے جا رہے ہیں اب تو حال یہ ہے کہ ان کو بغیر محنت کیئے ہی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بانٹ دی جاتی ہیں اور ایک ہمارے بچارے طالبعلم ہیں جو کئی کئی سال محنت و مشقت کرتے رہتے ہیں عرصے تک تحقیقاتی مواد لکھنے کے بعد ہی کہیں جاکر پی ایچ ڈی کی ڈگری ملتی ہے جس کے بعد وہ ڈاکٹر کہلاتے ہیں۔
اس طرح یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے کے لیے اور کورس کے دوران طلباء کا ہزاروں لاکھوں روپیہ خرچ ہوجاتا ہے اور ساتھ ساتھ طالبعلموں کو انتھک محنت الگ سے کرنا پڑتی ہے جس کے بعد آخر کار کامیابی ان کے قدم چومتی ہے اور انہیں ادارے کی طرف سے ڈگری جاری کی جاتی ہے۔
Doctor
اب زرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں کہ یونیورسٹیاں کس طرح اپنے نمبر بنانے کے لیے فری میں ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں بانٹ دیتی ہیں اسی کئی مثالیں موجود ہیں ناکام سیاست دان کس طرح ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ ان میں رحمان ملک ہو یا سند ھ کے قائم علی شاہ صاحب آرام سے ڈگری لے کر ڈاکٹر کہلاتے ہیں۔
اسی طرح حال ہی میں وزیر اعظم پاکستان نواز شریف کو گورنمنٹ یونیورسٹی لاہور نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دے دی او رظلم دیکھئے کہ جو بیچارے چار چار سال محنت کرتے رہے انہیں وزیر اعظم کی سیکیورٹی کو مد نظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی کے کانوکیشن میں جانے ہی نہیں دیا گیا واہ بھئی واہ کیسا مذاق ہے۔
جن بیچاروں نے یہ ڈگری حاصل کرنے کے لیے سالوں محنت کی ان کی اپنی ہی یونیورسٹی میں داخل ہونے سے منع کیا گیا جس کی وجہ وزیر اعظم کی آمد تھی۔ پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری ملنے کے بعد وزیر اعظم اب ڈاکٹر نواز شریف بن گئے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔