معجزات معجزہ کی جمع ہے اور اسکا مطلب ہے عاجز کرنے والا کیونکہ یہ ایسا کا م ہوتا جو کہ عام انسان اس کی تفہیم سے عاجز و قاصر ہوتے ہیں اور یہ انبیاء کے ساتھ خاص ہے اور معجزات کی چار قسمیں بنتی ہیں (١)و ہ چیز ہی ایسی ہو کہ جو کہ ظاہری عادات و واقعات کے خلاف ہو جیسے فخر عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چاند کے دو ٹکڑے کرنا ڈوبے ہوئے سورج کو پلٹانا مری ہو بکری کا زندہ کرنا (٢)وہ چیز بذات خود تو خلاف عادت نہ ہو مگر اسکا ظہور خاص اس وقت میں خلاف توقع جیسے کہ میدان جنگ میں آندھی کا آنا اور کفار کے دیگوں کا چولہوں سے گر پڑھنا (٣)نہ تو وہ چیز خلاف واقع ہو اور نہ ہی اسکا وقوع خلاف معمول ہو مگر اس وقت ہونا اس کا عقل سے بالا ہو جیسے موسی علیہ السلام کی دعاوں سے دفعا بنی اسرئیل سے عذاب کا کافور ہونا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ کا دعا نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فورا ایمان لانا (٤) ان واقعات کا تعلق مذکورہ تینوں قسموں سے تو نہ ہو مگر وہ ایسا ہو کہ اسکا وقوع مستقبل میں ہو اور اسکی خبر حال میں دے دی جائے یا اسکا وقوع دوسرے شہر میں ہو اور مخبر بغیر کسی ظاہری اسباب کے اسکو بتا دے جیسے ایک دن پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامقام بدر پہ کفار قریش کے مقتول گاہوں کے نشان لگا دینا۔ معجزہ عطا کرنے کی وجہ۔ قران مجید نے جہاں پہ انبیاء علیھم السلام کا تذکرہ فرمایا تو ساتھ ہی میں کچھ ایسے نشانیوں کا بھی تذکرہ فرمایا جو خداو ند قدوس نے انکو دعوٰ ی نبوت کی دلیل کے طور عطا کئے اسی کا نام معجزہ رکھا گیا ہے اور یہ معجزات ہر پیغمبر کے الگ الگ اور معدور ہیں اور اس پہ کتاب اللہ ناطق و گواہ بھی ہے چنانچہ اللہ تعا لی نے موسی علیہ السلام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”فالقاھا فاذا ھی حیة تسعی قال خذھا ولا تخف سنعیدھا سیرتھا الاولی۔ واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء آیة ئاخری۔ لنریک من آیاتنا الکبری”ترجمہ تو موسی نے ڈال دیا تو جبھی وہ دوڑتا ہوا سانپ ہو گیا فرمایا اسے اٹھا لے اور در نہیں اب ہم اسے پہلے کی طرح کر دیں گے اور اپنا ہاتھ اپنے بازو سے ملا خوب سفید نکلے گا بے کسی مرض کے ایک اور نشانی کہ ہم تجھے بڑی بڑی نشانیاں دیکھائیں۔
(سورة طہ آیت ٢١تا٢٣)اسی طرح جب اللہ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام نے لوگو ں کو اللہ کی توحید کی طرف بلایا تو لوگوں نے طلب دلیل کرتے ہوے عرض کی کہ”ما انت الا بشر مثلنا فات بآیة ان کنت من الصدقین”ترجمہ تم تو ہم جیسے آدمی ہو تو کوئی نشاانی لاو اگر تم سچے ہو (سورہ شعراء آیت ١٥٤)آپ نے اللہ کے حکم سے جس طرح وہ چاہتے تھے اسی طرح کی نشانی کو انکو عطا کرتے ہوئے فرمایا کہ ” قال ھذہ ناقة لھا شرب ولکم شرب یوم معلوم ولا تمسوھا بسوء فیاخذکم عذاب یوم عظیم”ترجمہ فرمایا یہ ناقہ ہے ایک دن اس کے پینے کی باری اور ایک معین دن تمہارے پینے کی باری اور اسے برائی کے ساتھ نہ چھوو کہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آ لے گا (سورہ شعراء آیت ‘١٥٦۔١٥٥)اسی طرح جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو اپنی رسالت پہ دلیل دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”انی قد جئتکم بآیة من ربکم انی اخلق لکم من الطین کھیئة الطیر فانفخ فیہ فیکون طیرا باذن اللہ و ابرء الاکمہ والابرص و احی الموتی باذن اللہ و انبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم ان فی ذلک لایة لکم ان کنتم مومنین”ترجمہ یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی مورت بناتا ہو ں پھر اس میں پھونک مارتا ہوتو وہ فورا پرند ہو جاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہو مادر زاد اندھے اور سفید داغ والے کو اور میں مردے جلاتا ہو اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہو جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو (سورة ال عمران آیت٤٩)یہاں پہ میں نے مقصرا تین پیغمبروں کا تذکرہ کیا جس میں موسی علیہ السلام کے عصاکو اللہ تبارک و تعالی نے سانپ اور آپ کے مبارک ہاتھ کو اللہ تعالی نے ید بیضاء کر دیا اس ہی طرح صالح علیہ السلام کی امت کی درخواست پہ اونٹنی کو پہاڑ سے نکالا اور جلیل الپیغمبر حضرت عیسی علیہ السلام خود اعلان فرما رہے ہیں کہ لوگوں میں ان اوصاف خمسہ کے ساتھ مو صوف کر کے مبعوث کیا گیا ہو۔
Miracle
مگر قربان جاو جب باری آئی تو میرے مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تو آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ لوگو مجھے میرے رب نے ایک دو پانچ یا دس اوصاف کے ساتھ موصوف کر کے بھیجا ہے بلکہ فرمایا کہ ” قد جائکم برھان من ربکم”ترجمہ تمھارے پاس اللہ کی دلیل آئی (القران) جب ذکر صالح علیہ السلام آیا تو ذکر ایک معجزے کا ذکر موسی علیہ السلام آیا تو ذکر چند معجزوں کا ذکر عیسی علیہ السلام آیا تو ذکر چند معجزوں کا مگر جب ذکر مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آیا تو رب نے فرمایا کہ تمھارے پاس معجزے لے کے نہیں بلکہ بن کے آیا ہے۔ اس ہی لئے تو سر سے لے کہ پاوں تک تو ہر ہر عضو معجزہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے اگر کوئی ان معجزات کی تفصیل لکھنا چاہے تو بلا مبالغہ ہزاروں صفحات بھی کم ہیں مگر میں اہل ایمان کے ذوق کے لئے ان چاروں قسموں سے ایک ایک کی امثلہ ذکر کر دیتا ہوتا کہ اسکی مزید وضاحت ہو کر ہمارے قلوب و اذہان کو مزید راحت میسر آئے سکے۔ (١)ہر عا م و خاص جانتا ہے کہ آ گ جلاتی ہے مگر حضرت انس بن مالک کے دستر خواں کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ اگر اسکو جلتے تندور میں ڈال دیا جاتا تو وہ صاف و شفاف ہو جاتا اسکو آگ نہ جلاتی کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس دستر خواں کو برکت عطا فرمائی تھی۔
آگ کا کام جلانا ہے یہ اسکی فطرت ہے اگر وہ نہ جلائے تو یہ اسکی فطرت کے خلاف ہے اور طبیعت کے خلاف ہے یہ انسان کی سوچ اور عقل سے ماوراء ہے اور جو چیز فہم فراست سے ماوراء ہو اسکی نام معجزہ ہے (٢) میدان بدر میں افراد کی کمی اسباب کی قلت کے باوجود اپنے سے تین گناہ زیادہ لوگوں کو شکست دینا حالانکہ یہ بات عام ہے کہ جنگ میں ہار جیت ہوتی ہے مگر اس طرح کا ہارنا کہ جو بدر میں ہوا یہ ما وراء العقل ہے۔ کیونکہ مسلمانوں کے تعدادصرف ٣١٣ ہے کفار ایک ہزار ہے کفار خوشحال ہیں اور مسلمان تنگ دست کفار کو جنگ جدال کا تجربہ اور مسلمان بظاہر اس سے نابلد کفارکی ساری زندگی جنگ میں گزری تو مسلمان امن و سکون کے ساتھ جنگ سے دور فتح کا کوئی سبب ایسا نہیں نظر آتا کہ جس سے مسلمان جیت جائیں مگر پھر بھی جیت جانا معجزہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بین دلیل ہے (٣) امام محمد بن اسماعیل البخاری حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک سال عرب میں بہت قحط پڑا نبی صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں خطبہ دے رہے تھے کہ ایک اعرابی نے کھڑے ہوکہ عرض کی کہ ھلک المال و جاع العیال فادع اللہ لنا فرفع یدیہ وما نری فی السماء قزعة فوالذی نفسی بیدہ ما وضعھا حتی ثارالسحاب امثال الجبال ثم لم ینزل عن منبرہ حتی رایت المطر یتحادر علی لحیتہ صلی اللہ علیہ و سلم” ترجمہ مال ہلاک ہو گئے اور بچے بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں آپ اللہ تعالی سے دعا کیجئے پس اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کے لئے ہاتھ بلند کر د ے۔
آسمان پہ کو ئی بدلی نہ تھی اس اللہ کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ نیچے بھی نہ رکھے تھے کہ پہاڑوں کی مثل بادل چھا گئے اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے بھی نہ تھے کہ آپکی داڑھی مبارک سے پانی کے قطرے ٹپکنے لگے۔ اس کے بعد حضرت انس بن مالک مزید فرماتے ہیں کہ اس کے بعد یہ بارش مسلسل سات روز تک ہوتی رہی اگلے جمعہ کو پھر ایک شخص کھڑا ہوکر عرض کرنے لگا کی عمارتیں منہدم ہو گئی مویشی ہلاک ہو گئے پس آپ ہمارے لئے دعا کیجئے پس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ”اللھم حوالینا ولاعلینا”ترجمہ اے اللہ ہمارے دائیں بائیں ہو ہم پہ نہ ہو پھر آپ اپنے ہاتھ سے بارش کو اشارہ فرمایا تو مدینہ کے ارد گرد بارش ہونے لگی مدینہ شریف سے رک گئی (بخاری کتاب الجمعہ باب الاستسقاء فی الخطبة یوم الجمعة) بارش کا اچانک ہونا یہ بھی معجزہ ہے کیونکہ بارش سے پہلے اسکے اسباب ہوتے ہیں اس ہی طرح دعا سے فورا ہی کافور ہو جانا بھی معجزہ ہے کیونکہ یہ بغیر کسی سبب کے ہے۔ (٤)بخاری شریف میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ”ان النبی صلی اللہ علیہ و سلم صعد احد و ابو بکر و عمر و عثمان فرجف بھم فقال اثبت احدفانماعلیک نبی و صدیق و شھیدان”حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ احد پہاڑ پہ چڑھے ابوبکرو عمر و عثمان ساتھ تھے احد پہاڑ نے وجد کیا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ احد رک جا تجھ پہ ایک نبی اور ایک صدیق اور دو شہید ہیں (بخاری کتاب المناقب باب قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم لوکنت متخذا خلیلا)یہ تو سب کو معلوم تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی ہے اور ابو بکر صدیق ہیں مگر حضرت عمر و عثمان کو کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ شہید ہیں مگر نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف دیکھا بلکہ اسکا اعلان بھی فرما دیا تو معجزہ کی چوتھی قسم ہے کہ حال میں مستقبل کی خبر دینا۔
یہ تو میں نے صرف چند ایک امثلہ پیش کی ہیں ورنہ تفصیل کے لئے بخاری و مسلم و ترمذی و نسائی و ابن ماجہ و ابو داود اور سیکڑوں کتب حدیث و سیرت بھری پڑھی ہے مگر انہوں نے بھی آخر میں یہ ہی لکھا کہ یہ ایک باب ہیں ورنہ مکمل معجزات لکھنے کیلئے تو یہ زندگی بھی بہت قلیل ہے خدا کریم اسکو اپنی جناب میں قبول فرما کہ ہماری نجات کا ذریعہ بنائے آخر میں اس بندہ نا چیز کیلئے دعاء حسن خاتمہ کی التماس ہے۔