اسامہ بن لادن کی زندگی کی طرح ان کی موت بھی ساری دنیا کے لیے ایک معمہ رہی اور اس کی وجہ بھی خود امریکی حکام کا رویہ بھی تھا۔ ایک نظر یہ کے مطابق ان کی موت کچھ اس طرح ہوئی ۔10 مئی کو ڈان نیوز ٹی وی پر خبر القاعدہ کی وضاحت شائع ہوئی، جس میں بتایا گیا کہ شیخ اسامہ بن لادن 2003ء میں انتقال کر گئے حالانکہ 4 مئی کو ایک جہادی ویب سائٹ کے حوالے سے یہ بات پھیلائی گئی کہ القاعدہ نے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق کر دی ہے۔ القاعدہ کے رابطوںکا کئی سال تک تعاقب اور پکڑے گئے قیدیوں سے تفتیش کے نتیجے میں اسی آئی اے نے پتہ لگایا کہ پاکستانی علاقے ایبٹ آباد میں ایک مکان ایسا ہے جس کے رہائشی پر اسرار حد تک خود کو سماجی و معاشرتی معاملات میں محدود رکھتے ہیں۔ حتی الامکان اس جگہ کی جاسوسی کرنے کے باوجود حکام اس میں اسامہ بن لادن کی تصدیق کرنے میں ناکام رہے۔ بالاخر امریکی حکام نے رسک لینے کا فیصلہ کیا۔ پینٹا گون نے اس مکان پر فوجی آپریشن کی منظوری دے دی اور اس آپریشن کے لیے افغانستان میں بگرام میں موجود امریکی فوجی اڈے کو اپریشن مرکز بنایا گیا۔
اس سلسلے میں امریکی فوجیوں کو اس بات کا اندیشہ نہیں کہ پاکستانی علاقت میں جارحیت کرنے جا رہے ہیں۔ کیوں کہ انہیں یقین تھا کہ پاکستانی حکام پچھلے واقعات کی طرح اس دراندازی پر بھی خاموش رہیں گے۔ اندیشہ صرف اس بات کا تھا کہ کہیں اتنے اہم اور بڑے آپریشن کے نتیجے میں اسامہ بن لادن تو دور کی بات القاعدہ کا کوئی رکن بھی ہاتھ نہ لگا تو آنے والے وقتوں میں ان کے حوصلے ٹوٹ سکتے ہیں خلاف توقع آپریشن کامیاب رہا ایسا امریکی حکام کا دعوی ہے لیکن اسامہ بن لادن کی لاش کو منظر عام پر نہیں لایا گیا اس بات میں تضاد لگتی ہے ایسا بھی بہت سے لوگوں اور مفکرین کا خیال ہے۔ کیونکہ کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اسامہ بن لادن واقعی میں ایبٹ آباد آ پریشن میں قتل کیے گئے ہیں۔
یکم اور دو مئی 2011ء کی درمیانی شب تین امریکی فوجی ہیلی کاپٹر نے پاکستانی سرحد عبور کر کے اس مکان پر دھاوا بول دیا۔ آپریشن کے ابتدائی مرحلے میں ہی ہیلی کاپٹر گر کر تباہ ہو گیا۔( جس کے متعلق یہ بھی شبہ ہے کہ اسے امریکی حکام نے خود مار کر گرایا ہے تاکہ آپریشن میں اپنے لیے ہمدردی کا جواز پیدا کر سکیں) آپریشن جاری رہا، مکان میں اسامہ بن لادن کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی موجود تھے۔ بعض القاعدہ ارکان کے یہ قول ہے کہ اسامہ بن لادن ہر دم خود کش جیکٹ پہنے رہتے تھے۔ لہذا انھوں نے گرفتاری سے پہلے ہی خود کو دھماکہ سے اڑا لیا۔ جب کہ امریکی فوجیوں کے دعوے کے مطابق بن لادن کو گولی ماری گئی۔ ایک امریکی فوجی کے بیان کے مطابق بن لادن گرفتاری کے وقت غیر مسلح تھا۔
اس آپریشن کے مناظر براہ راست مختلف مقامات پر نشر کیے جاتے رہے جس میں پین ٹا گان اور وائٹ ہاؤس بھی شامل ہیں۔ اس چند ہی منٹوں میں ختم ہو گیا۔ پاکستانی حکام کو کو جتنی دیر میں امریکی در اندازی کے بارے میں معلوم ہوا اور ان کے جیٹ طیارے نے مذکورہ مکان کی طرف آنے کے لیے پرواز کی اس سے پہلے ہی آپریشن میں حصہ لینے والے فوجیوں نے اسامہ بن لادن کی لاش اس کی بیوی بچوں اس کے مکان سے ملنے والے تمام اہم سامان لٹیریچر ہیلی کاپٹر میں ڈال کر افغانستان میں اپنے اڈے پر پہنچ گئے۔ وہاں پہنچ کر دی این اے کے زریعے اسامہ بن لادن کی میت پہچان کی گئی۔ مگر بن لادن کے لاش کی تصویر کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔ جب کہ اس کی میت کو بھی بحریہ عرب میں موجود امریکی بحری بیڑے پر پہنچایا گیا بعد ازاں اس کو بحریہ عرب میں سمندر میں برد کر دیا گیا۔
مشہور امریکی صحافی سمیو رحرش Seymour Hersh نے اسامہ بن لادن کی اس حملہ میں موت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکی روئداد جھوٹ پر مبنی ہے۔
Construction Of kaaba
حرمیں کی تعمیر: اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں ہمیشہ سے مقدس اسلامی مقامات مسجد الحرام اور مسجد بنوی سے انتہائی عقیدت رہی ہے۔ ان کی تعمیرات کمپنی نے شاہ فیصل اور شاہ فہد کے ادوار میں ان دونوں مقدس مقامات کی تعمیر کا کام کیا تھا۔ اسامہ بن لادن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے زاتی طور پر اس منصوبے میں دلچسپی لی اور مختلف توسیعی منصوبے اپنی نگرانی میں مکمل کرائے۔
مذہبی رجہانات: اسامہ بن لادن کے کٹر مذہبی خیالات اپنے خاندان کی طرف سے وراثت میں ملے تھے۔ محمد بن لادن اور ان کا خاندان ہمیشہ سے امام احمد بن حنبل اور شیخ عبدالوہاب نجدی کے تحریک احیاء توحید و سنت کا حامی اور مدد گار رہے تھے۔ انہوں نے ایک عرب شہزادے کی سی زندگی گزاری مگر وقت کے ساتھ ساتھ انکے اندر تبدیلیاں آئیں۔ 1979ء میں افغانستان پر سویت یونین کی جارحیت کی خبر انہوں نے ریڈیو پر سنی۔ ابتداء میں انہوں نے افغان مجاہدین کی مالی معاونت کی مگر کچھ عرصے کے بعد وہ خود اپنی تمام دولت اور اساسوں کی پرواہ کیے بغیر میدان کارزار میں اتر آئے۔ اسامہ بن لادن نے شیخ عبد اللہ اور دیگر عرب مجاہدین کے ساتھ ملکر سویت یونین فوجیوں کے دانت کھٹے کر دیے۔
الزامات : اسامہ بن لادن پر کینا کے دارالحکومت نیروبی کے دھماکوں سے لیکر ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پین ٹا گون پر حملوں کی کئی الزامات لگائے جاتے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر سے پہلے جہاز ٹکرائے جانے کے صرف پندرہ منٹ کے اندر امریکی میڈیا اور حکومت نے اسکا الزام نیو یارک سے ہزاروں میل دور افغانستان کے پہاڑوں میں بیٹھے رو پوش اسامہ بن لادن پر عائد کر دیا تھا۔ تاہم مختلف میں لگ بھگ 6000 افراد کو لقمہ اجل بنانے کا الزام ہے۔ تاہم اب تک دنیا کے کسی بھی عدالت مین آج تک ان پر کوئی الزام ثابت نہیں کیا جاسکا۔ ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں جو کہتے ہیں کی اسامہ بن لادن سی آئی اے کے پرانے کارندوں میں شمار ہوتے ہیں اور سی آئی اے نے اس جگہ پہنچایا جہا ں آج وہ کھڑے ہیں۔ سی آئی اے کے ملٹ بیرڈن نے بھی اس بات کی تصدیق کی تھی مگر وائٹ ہاؤس نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔
روپوشی اور متضاد اطلاعات اسامہ بن لادن دنیا کے سب سے مطلوب شخص تھے۔ اسامہ بن لادن 1998 ء میں افغانستان افغانبارڈر کے قریب رو پوش تھے۔ 2001ء میں امریکی حملے کے بعد اسامہ بن لادن کے بارے مختلف متضاد اطلاعات ہر وقت گردش کرمیں تھے۔ کبھی کہا جاتا تھا کہ اسامہ بن لادن امریکی فوجیوں کے گہرے میں آگئے تو کبھی یہ مشہور ہو جاتا تھا کہ اسامہ بن لادن انتقال کر گئے ہیں۔ بعض لو گ اسامہ بن لادن کی خبریں بھی دیتے تھے اور کچھ کا خیال میں اسامہ 2001 میں تورا بورا پر امریکی حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوگئے ہیں۔ ان لوگوں کے مطابق اسامہ بن لادن کے بعد تمام تمام پیغامات جعلی ہیں ۔ تاہم ان خیالات میں سے کسی ایک کی بھی تصدیق آج تک نہ ہوسکی اور غالب گمان یہی ہے کہ اسامہ بن لادن ایک پاک افغان سرحد کے قریب کہیں رو پوش ہیں امریکی اہلکار بھی اسامہ بن لادن کے موت کے مختلف بیانات دیتے رہے ہیں بعد ازاں ایبٹ آبادآپریشن میں قتل کرنے کا دعوی بھی کیا گیا ہے۔ اب حیققت خدا جانتا ہے کہ اسامہ کہاں ہے کون ہے؟