ہر سال فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی موبائل کمپنیوں کی طرف سے ٹیکسٹ میسج آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ اپنے چاہنے والوں کو پیار بھرا پیغام بھیج دیجئے، الیکٹرانک میڈیا پر اس دن کے حوالے سے خصوصی پروگرام نشر ہوتے ہیں، ڈرامے اور ٹیلی فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ موبائل کمپنیاں مختلف ترغیبات کے ذریعے اپنے صارفین کے بیلنس پر ہاتھ صاف کرتی ہیں جبکہ ٹی وی چینل والوں کو اپنے ناظرین کو بے وقوف بنانا کا ایک اور موقع مل جاتا ہے۔
ہر سال چودہ فروری کو ایک پادری ویلن ٹائن کے بدکاری کی سزا میں مارے جانے کی یاد میں دنیا بھر کے جنسی بے راہ لوگ ”یوم محبت” مناتے ہیں۔ لادین مغرب کی اندھی تقلید نے ہماری عقلوں پر جالے بُن دیئے ہیں۔ پچھلے برسوں سے ویلن ٹائن ڈے جیسے مغرب کے حیاباختہ دِنوں اور تہواروں کو مسلم ممالک میں جس جوش و خروش سے منایا جاتا ہے، اس سے ہماری ثقافتی اقدار کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔
بالخصوص ”ویلن ٹائن ڈے” کے موقع پر آوارگی، اوباشی، بے حیائی، بے ہودگی اور فحاشی جس طرح اپنے عروج پر ہوی ہے، وہ ہماری اخلاقی اور تہذیبی اقدار و روایات کے لیے کی طرح بھی موت سے کم نہیں۔ ہم کسی اور میدان میں ترقی کریں یا نہ کریں مغربی تہذیب کی پیروی میں سب سے آگے ہیں۔ نجانے کیا بات ہے کہ مغرب کی پیروی میں کیوں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا ہے۔ اس پیروی کو ہم نے اپنا دین و ایمان بنا رکھا ہے جبکہ جو اصل دین ہے اس کو فراموش کیے بیٹھے ہیں۔
اپنے آپ کو ماڈرن ظاہر کرنے کے چکر میں ہم اپنی اصلیت بھولتے جا رہے ہیں۔ بظاہر مسلمان کہلاتے ہیں لیکن مسلمانوں والی کوئی بات ہم میں نہیں پائی جاتی۔ خرافات کو اپنانے میں ہم اپنی مثال آپ ہیں، دین میں بدعتوں کو رواج دینا ہو تب بھی ہم نمبرون ہیں، اسی کی ایک مثال ”ویلن ٹائن ڈے” ہے جس کو منانے میں ہم ان سے بھی آگے نکل گئے جہاں سے اس روایت کا آغاز ہوا تھا۔ دینِ اسلام ہمیں اللہ تعالی، رسول اللہ اور پوری انسانیت سے محبت کا درس دیتا ہے، جس کے اظہار کے لیے ہمارے پاس سال کا ہر دن اور ہر لمحہ موجود ہے اور اس کا اظہار ”ویلن ٹائن ڈے” کے موقع پر سرخ پھولوں اور تحائف سے نہیں، بلکہ احکام الٰہی اور اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے سے ہوتا ہے۔
Valentine’s Day
مسلمانوں کو ویسے بھی یہ دن نہیں منانا چاہئے کیونکہ اس میں غیر مذہب کی تقلید ہے، جسے اسلام سختی سے منع کرتا ہے۔ اس وقت حکومت اور عوام دونوں ایک ہی ڈگر پر چل نکلے ہیں، جس کا نتیجہ اخلاقی بگاڑ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس طرح کے لایعنی تہوار وہ لوگ مناتے ہیں، جن کی اپنی کوئی تہذیب یا ثقافت نہیں ہوتی۔
الحمد اللہ ہماری اپنی جداگانہ خوب صورت تہذیب اور ثقافت ہے۔ ویلن ٹائن ڈے جہاں ایک غیر مذہب کی ثقافت کو رواج دینے کی چال ہے وہاں نوجوان نسل کو بے حیائی کی طرف دھکیلنے کی ایک سازش بھی ہے۔ اسلام ہی سچا دین ہے اور مسلمان قوم ہی دنیا کی دیگر اقوام سے ہر لحاظ سے افضل و برتر ہے لیکن افسوس کہ ہماری قوم کے اکثر افراد غیر مسلموں کی تقلید کر کے خود کو کم تر ثابت کر رہے ہیں۔
ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ہم کسی مذہب کے پیروکار، کسی نبی کی اُمت اور کسی قوم سے وابستہ ہیں۔ ہمیں ہر معاملے میں صرف اور صرف اسلامی عقائد اور اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھنا چاہیے اور اسلامی تہواروں کو خاص اسلامی طریقے سے منانا چاہیے۔
یہی ہمارے لیے باعث فخر ہے، نہ کہ بسنت اور ویلن ٹائن جیسے غیر اسلامی تہواروں کو منانا اور فروغ دینا۔ ہمیں اپنا امتیاز، اپنی پہچان اور اپنا وقار قائم رکھنے کے لیے ہر قسم کے غیر اسلامی تہواروں کو منانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر اظہارِ محبت ہی کرنا ہے تو کسی مخصوص دن نہیں بلکہ ہر دن اپنے ماں باپ سے کیجیے، بچوں سے کیجیے، بہن بھائیوں سے کیجیے، اساتذہ سے کیجیے، ہسپتالوں میں پڑے بیماروں سے کیجیے۔
محبت صرف یہی نہیں جس کا اظہار دو غیر محرم مخالف جنسوں کے درمیان ہو، بلکہ محبت کے اور بھی بہت سے رُخ ہیں، کبھی اس طرف بھی سوچئے۔ اگر چودہ فروری کا دن منانا اتنا ہی ضروری ہے تو پھر اس کا نام بدل کر ”یومِ نکاح” رکھ لیں اور پھر شادی شدہ جوڑے اس دن کو یوم محبت کے طور پر منائیں، جبکہ غیر شادی شدہ افراد کی اجتماعی شادیاں ہوں۔