کہیں ایسا نہ ہو جائے

Waziristan Operation

Waziristan Operation

جن جب جسم سے نکلتا ہے تو جاتے جاتے وہ دیوار گرا کر جاتا ہے مجھے ڈر ہے کہ وزیرستان آپریشن کو ناگزیر بنایا جا رہا ہے ادھر ان مذاکرات کی پٹاری سے زہریلے ناگ سر اٹھا رہے ہیں ادھر کراچی کے اندر آگ کے شعلے بلند کئے جا رہے ہیں۔ وہی اندھے قتل ماوارائے عدالتی قتلوں کی بھر مار۔ پاکستان کے سارے دشمن اپنے اپنے ہاتھوں میں نیزے بھالے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ کراچی کے ساحلوں سے الطافئے اور افغانستان سے جرے علاقوں سے طالبانی ایک ہی نعرہ لئے آ گئے ہیں کہ کٹ کے رہے گا پاکستان خدا نخواستہ بٹ رہے گا پاکستان تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ ایک فتنہ ہے آندھی ہے طوفان ہے جس کے نتیجے میں تیمور کی طرح اور جنوبی سوڈان کی طرح ایک ملک کھڑا کرنے کی مذموم کوشش ہو گی۔ خاکم بدہن مگر کریں کیا خاموش نہیں رہا جا سکتا دونوں جانب انتہائیں ہیں ایک وہ ہیں جو خالی خولی نعروں سے دنیا میں اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں اور دوسری جانب وہ جو اسلام کا نام ان جہالت کے پروردہ لوگوں کی حرکتوں کو سامنے رکھ کر بدنام کئے جا رہے ہیں۔میرے خدا تیرے سادہ دل بندے کہاں جائیں جو نام تو تیرا لیتے ہیں اور تیرے نبیۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی ہونے پر فخر بھی کرتے ہیں جو نماز بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں مگر کسی کو کافر نہیں کہتے جو انگریزی بھی پڑھتے ہیں اور کتاب اللہ بھی۔ان کا نمائیندہ کون ہے؟ ان کی بات جو کرتا ہے اسے طالبان خان کہہ کر نکرے لگانے کی کوشش کر دی جاتی ہے۔

ویسے یہ جو طالبان ہیں ان کی سوچ دیکھ کر اور سن کر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ تحریک انصاف کے چیئر مین نے ان کی نیابت نہیں قبول کی ورنہ آج ان کا جو حشر دجالی میڈیا کرتا اس کو سوچنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ حیران کن مطالبات سامنے لائے جا رہے ہیں کیا یہ وہی طالبان ہیں جو نائن الیون سے پہلے افغانستان میں حکومت کیا کر تے تھے؟ میں تو ماننے کے لئے ہر گز تیار نہیں ہوں یا تو ہم سادہ لوح لوگوں کی آنکھوں میں مٹی جھونکی جا رہی ہے، جو اس قسم کے لوگ طالبان کے نمائندے بنا کر ہمارے سامنے پیش کئے جا رہے ہیں کراچی میں ہونے والے دھماکے میں پولیس کی شہادتوں کی ذمہ داری ان کی جانب سے قبول کی جا رہی ہے اور ایک شاہداللہ شاہد نامی شخص کہہ رہا ہے کہ ہم نے دھماکہ کیا ہے۔

قارئین اندھیرے اس قدر ہیں کہ کسی کو پتہ ہی نہیں چل رہا کہ قوم کے ساتھ ہونے والے اس ہاتھ کا ذمہ دار کون ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ لبرل فسادیوں کو موقع مل رہا ہے کہ وہ ہم پر ہنسیں۔
عاصمہ جہانگیر آج ایک چینیل پر چہک رہی تھیں۔ کہ اسلام لانا چاہتے ہیں یہ لوگ۔ اس قسم کے لوگوں سے در اصل اسلام بدنام ہو رہا ہے اسلام میں جبر کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور نہ ہی دنیا کی کوئی ایسی اسلامی ریاست ہے جو اسلام کی تشریح اس انداز میں کرتی ہے۔ عاصمہ جیسی مادر پدر آزاد خاتون ایک ہی سانس میں سعودی عرب کو بھی بدنام کر گئی اور طعنہ دیا کہ جا کر دکھائیں سعودی عرب میں۔ میں اس موضوع پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ سعودی عرب میں جائز طور پر رہنے والوں کے لئے کوئی مشکلات نہیں ہیں مگر جو لوگ غیر قانونی رہتے ہیں ان کے لئے دنیا کہ کسی بھی ملک میں جگہ نہیں ہے تو سعودی عرب کیوں نہ اپنی حفاظت کرے؟اس طرح کی حرکتوں سے عاصمہ جہانگیر فرزانہ باری ہود بھائی کا تو کچھ نہیں جائے گا مارا جائے گا وہ غریب پاکستانی جو یہاں بے کار تھا اور وہاں جا کر کم از کم اس کے گھر کا چولہا تو جلانے میں کامیا ب ہوا ہے۔ اس قسم کے لوگ پاکستان کے دوست نہیں ہو سکتے١٥ لاکھ پاکستانیوں کے لئے مشکلات تو کھڑی کی جا سکتی ہیں آسانیاں نہیں۔ پاکستانی بکائو میڈیا سوچی سمجھی سکیم کے تحت پاکستانیوں کے لئے مشکلات کھڑی کرنا چاہتا ہے۔ پہلے ہی انڈیا اس ملک میں گھس چکا ہے۔

Pakistanis

Pakistanis

یہ تو وہاں پاکستانیوں کی کوششیں ہیں جو وہاں روز گار کے مواقع پیدا کر رہی ہیں۔ اپنے سورمے تو ایک آدمی کا بندوبست نہیں کر سکتے۔ جس طرح کی انتہا پسندی کا مظاہرہ اس مادر پدر آزاد گروہ کی جانب سے کیا جا رہا ہے وہ کسی صورت بھی پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔پاکستان کی اساس اسلام ہے اور اسی کی نام پر یہ ملک وجود میں آیا ہے۔ مگر یاد رکھئے جہاں عاصمہ جہانگیر غلط ہے اور ان جیسے مذہب کے علمبردار لوگ بھی دین کی خدمت نہیں کر رہے۔ اسلام کی یہ ترویج کسی کو قبول نہیں کہ مٹھی بھر لوگ لاشوں کے انبار لگا کر اپنی مرضی کا اسلام نافذ کریں۔ کہا گیا کہ ملا عمر اور فضل اللہ پاکستان پر حکمرانی کریں گے۔ ہمیں اس پر تو کوئی اعتراض نہیں کہ علماء پاکستان پر حکومت کریں مگر کوئی غیر ملکی اس پاکستان کا حکمران کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی سرحدوں کو قبول نہ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے؟ اس سے پہلے کئی بار علماء نے پاکستان پر حکومت کی مگر پاکستانیوں نے انہیں جمہوری طریقے سے حکومت سے باہر بی کر دیا۔مولوی فضل اللہ اگر پاکستانی آئین کو قبولل کرتے ہیں اور قوم انہیں منتحب کرتی ہے تو بھلے سے پاکستان کی حکومت کو سنبھالیں۔

افسوس اس بات کا ہے کہ ایک طرف ہم لوگ طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری جانب سے انتہائی عجیب و غریب مطالبات سامنے لائے جا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس دجالی میڈیا نے تو ساری گیم بنا دی کہ اس قسم کی مضحکہ خیزیاں سامنے لا کر قوم کو بتایا جائے کہ دیکھو یہ لوگ ہیں جو جمہوریت کو سرے سے نہیں مانتے اور افغانی لوگوں کو پاکستان پر قابض کرنا چاہتے ہیں اگر ایسا ہے تو اللہ ہی حافظ ہے اس ملک کا اور قوم کا۔ اس قسم کی حرکات سے طالبان کی حمایت سرے سے ختم ہو گئی ہے اور مخصوص مکتب فکر کے لوگوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ دیو بندی مکتب فکر کے لوگ سارے ہی ان کی حمایت کر رہے ہیں مگر تحریک انصاف جو مذاکرات کی حمایت کر رہی تھی ان کے علاوہ جو لوگ ان کے حمایتی تھے ان کا مدارس دیو بند سے گہرا تعلق ہے۔ دوسری جانب سے شیعہ حضرات تو اول روز سے ہی طالبان سے مذاکرات کے مخالف ہیں۔ انہیں تو سعودی عرب طالبان کی حمایت میں سر گرم نظر آتا ہے۔ کھل کے کوئی بات نہیں کرتا مگر ہم مارے جا رہے ہیں ایران اور سعودی عرب کی مخاصمت کے نتیجے میں۔خطے میں اب مسلم غیر مسلم کی لڑائی ماند پڑ رہی ہے اس کی جگہ شیعہ سنی لڑائی اپنے زوروں پر ہے۔لبنان کو دیکھ لیجئے شام پر نظر دوڑائیں، عراق کی صورت حال آپ کے سامنے ہے اور بحرین میں تین مرتبہ شیعہ انقلاب کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہاں پاکستان میں اس بڑی لڑائی کے لئے صف بندی ہو رہی ہے اور اس کے لئے طالبان ایک مضبوط پہلوان کی شکل میں موجود ہیں جو ایرانی پشت پناہی پر کسی بھی گروہ سے لڑنے مرنے پر تیار نظر آتے ہیں۔

طالبان کی اس روش پر ماتم کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اس قسم کی سوچ وہ پہلے افغانستان پر تو نافذ کر لیں پھر پاکستان کی جانب توجہ دی جائے۔ ہم لوگ جو بار بار طعنے سنتے ہیں کہ آپ مذاکرات کے حامی ہیں اب لوگ کہتے ہیں دیکھیں کیا ہو رہا ہے؟ ہمیں تو اب بھی یقین ہے کہ یہ وہ طالبان نہیں جو افغانستان میں بر سر اقتتدار تھے وہاں تو امن امان تھا وہاں تو بچوں کے مدرسے کھلے تھے وہاں امن امان کی بہترین صورت حال تھی پوست کی کاشت مکمل طور پر ختم ہو چکی تھی۔ یہ کون سے طالبان ہیں جنہیں خوف خدا نہیں مساجد میں جمعے کی نماز میں دھماکے ہو رہے ہیں۔ شراب خانے جوئے خانے محفوظ ہیں۔ پاک فوج کو مارا جا رہا ہے۔ جید علماء کو شہید کیا جا رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ریاست نے اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھائیں ہمارے ادارے مکمل طور پر فیل ہو چکے ہیں۔ اس قسم کی فتنہ انگیزیوں کے بعد میرا خیال ہے وزیرستان آپریشن نا گزیر قرار دیا جائے گا اور پھر ہو گا وہی جس کا خدشہ ہم ان کالموں میں بار بار کر چکے ہیں کہ پاکستان اور افغانستان کے بارڈر پر ایک نیا تیمور کھڑا کر دیا جائے گا ایک نیا جنوبی سوڈان وجود میں آئے گا فرق صرف یہ ہے کہ وہ عیسائی ریاست تھی یہ اسلام کے نام پر ایک امارت بنا دی جائے گی۔ یعنی امریکہ جاتے جاتے ہم پر دیوار گرا جائے گا۔ اللہ نہ کرے۔جن جب جسم سے نکلتا ہے تو جاتے جاتے وہ کوئی دیوار گرا جاتا ہے۔ خاکم بدہن کہیں ہم اپنے ہی بوجھ کے نیچے نہ دبا دیے جائیں کہیں ایسا نہ ہو جائے۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر :انجینئر افتخار چودھری