ہر سال 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے کے نام سے پوری دنیا میں بڑی دھوم دھام سے یہ دن منایا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کے لیے تو یہ تہوار برا نہیں ہو گا مگر مسلمانوں کے لیے یہ بے حیائی، بے شرمی اور بے غیرتی کا تہوار ہے۔ کوئی بھی مسلمان نہیں چاہتا کہ اسی کی بہن بیٹی کسی نامحرم کو پھول یا تحائف پیش کرے۔ ہمارے مسلمانوں کا کچھ مخصوص طبقہ جو اپنے آپ کو لبرل مسلمان بھی کہلانا پسند کرتے ہیں ان کا اس تہوار کے بارے میں فرمان ہے کہ ” لازمی نہیں کہ کوئی گرل فرینڈ اپنے بوائے فرینڈ کو ہی یہ دن وِش کرے بلکہ ایک بیٹی اپنے باپ کو اور کوئی بہن اپنے بھائی کو بھی وِش کر سکتی ہے۔
ایسے لبرل مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے یہ تو جان لیں کہ یہ دن کیوں یا کس کی یاد میں منایا جاتا ہے یا اس دن کا بیک گراؤنڈ (back ground) کیا ہے؟ اس تہوار کی حقیقت کیا ہے؟ ایک مسلمان ہونے کے ناطے اس کا منانا جائز ہے یا ناجائز اور اس کا شرعی حکم کیا ہے؟ کبھی مسلمانوں نے بالخصوص نوجوانوں نے سوچا ہے کہ ہم کن کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں؟اس کا تاریخی پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک پادری تیسری صدی عیسوی کے آخر میں رومانی بادشاہ کے زیر حکومت رہتا تھا۔
کسی نافرمانی کی وجہ سے بادشاہ نے پادری کو جیل میں بند کر دیا۔ جیل میں جیل کے چوکیدار کی لڑکی سے اس کی علیک سلیک ہوگئی اور وہ اس کا عاشق بن بیٹھا یہاں تک کہ اس لڑکی نے نصرانیت قبول کر لی۔ وہ لڑکی ایک سرخ گلاب کا پھول لے کر اس کے پاس آتی تھی۔
جب بادشاہ کو اس معاملے کا علم ہوا تو اس نے پادری کو پھانسی کا حکم دے دیا۔ پادری کو جب یہ پتا چلا تو اس نے سوچا کہ آخری لمحات اپنی معشوقہ کے ساتھ گزارے۔ چنانچہ اس نے اس کے پاس ایک کارڈ بھیجا جس پر لکھا تھا ”مخلص ویلنٹائن کی طرف سے” پھر اس پادری کو 14 فروری کے دن پھانسی دے دی گئی۔
بس اس دن کے بعد سے یورپ میں ہر سال اس تاریخ کو لڑکوں کی طرف سے لڑکیوں کو کارڈ بھیجنے کا رواج چل نکلا۔ آج پوری دنیا میں اس دن کو نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بڑے زور و شور سے مناتے ہیں۔ اس موقع پر کارڈ اور خاص طور سرخ گلاب کے پھول پیش کیے جاتے ہیں اور مختلف رنگین محفلیں سجائی جاتی ہیں۔
Red Rose
افسوس کہ مسلمان معاشرہ بھی اس سے بے ہودہ حرکات سے محفوظ نہ رہ سکا حالانکہ یہ ایک خالص غیر مسلم عقیدہ ہے جس میں ایک کافر نصرانی شخصیت کی یادگار منائی جاتی ہے۔ اسلام میں ویلنٹائن ڈے منانا، سرخ گلاب کا پھول یا کوئی اس نوعیت سے تحفہ تحائف دینا قطعاً جائز نہیں کیونکہ مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں لیکن جب ہم مسلمان یہ دن مناتے ہیں تو کافر بہت خوش ہوتے ہیں کہ ان کے مذہب میں مسلمان بھی شریک ہو رہے ہیں۔ کیا آپ نے کبھی اسلامی تہواروں میں غیر مسلموں کو اس زور و شور سے شامل ہوتے ہوئے دیکھا ہے؟ ہرگز نہیں۔
شریعت اسلامیہ کا اس بارے میں موقف کچھ یوں بیان کیا گیا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ”تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں (یہود ونصاریٰ) کی قدم بقدم پیروی کرو گے، اگر وہ لوگ گوہ کے سوراخ میں داخل ہونگے توتم لوگ اس میں بھی داخل ہونے کی کوشش کرو گے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ پہلی قوم سے آپ کی مراد یہودو نصاریٰ ہیں؟ آپ نے فرمایا پھر اور کون؟” (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ امت محمدیہ کے کچھ لوگ ہر برے اور خلاف شرع کام میں یہود و نصاریٰ کے نقش قدم پر چلیں گے اور بغیر سوچے سمجھے ان کی تقلید میں مبتلا ہوجائیں گے حتیٰ کہ غلیظ سے غلیظ کام میں بھی وہ ان منحوس و ملعون قوموں کے نقش قدم کو اپنائیں گے۔
ہم مسلمانوں کو اس بات پر غور کرنا ہو گا کہ 14 فروری کو یہ دن منانا ہمارے لیے جائز ہے یا ناجائز؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس دن سے ہمارے دین کا کوئی تعلق نہیں۔جبکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی منع فرمایا ہے پھر بھی ہم اس کو منائیں تو یہ ہماری بد بختی نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف ہم اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کی باتیں کرتے ہیں اور عمل یہودیوں کے طور طریقوں پر کرتے ہیں۔
اسلام میں عورت کانامحرم کو دیکھنا بھی منع ہے حتیٰ کہ کزنز سے پردے کا حکم ہے اور مر د کو حکم ہے کہ ایک نظر کے بعد دوبارہ کسی غیر محرم عورت کو دیکھنا بھی گناہ ہے (حضرت علی) جبکہ آج کل ہماری نئی نسل اس بے ہودہ رسم کی پیروی کرتے ہوئے ناواقفوں کو پھول اور کارڈ پیش کرتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پچھلے برسوں سے کتنے لوگ مارے جا چکے ہیں۔ آخر ہم مسلمان کیوں نہیں سوچتے کہ ہمارے ان فضول کاموں سے ہمارے مذہب کی کتنی بدنامی ہوتی ہے۔ غیر مسلم مسلمانوں کے متعلق کیسی سوچ رکھتے ہونگے۔ ہمیں چاہیے کہ ناصرف خود بلکہ دوسروں لوگوں کو بھی اس غیر مسلم حرکت سے روکیں۔
Aqeel Khan
تحریر : عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com