برما کے بعد سینٹرل افریقہ وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی نسل کشی ایک باقاعدہ مہم کی صورت میں شروع کی گئی ہے۔ ایک طرف عالمی طاقتیں ردعمل دکھانے اور مؤثر کارروائی کرنے سے گریز کر رہی ہیں تو دوسری طرف دنیا کے مالدار اور طاقتور مسلمان ملک بھی مسلمانوں کی اس تباہی اور بربادی پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے سینٹرل افریقہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی اطلاع دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ کو مسلمانوں کی جبری ہجرت اور قتل و غارتگری کو روکنے کے لئے فوری اقدام کرنے چاہئیں۔ اس وقت جمہوریہ میں افریقین یونین کے 5300 اور فرانس کے 1600 فوجی موجود ہیں لیکن وہ ملک میں قتل عام بند کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جمہوریہ وسطی افریقہ کی صدر کیتھرین سامبا پنزا نے اس صورتحال کو ناقابل قبول اور تکلیف دہ قرار دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ عیسائی گروہوں پر مشتمل اینٹی بالاکا ملیشیا کو مار بھگایا جائے گا۔ یہ مسلح گروہ مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ تاہم ان کا باہم رابطہ ہے اور ان کا واحد مقصد ملک میں مسلمان آبادی کو ختم کرنا ہے۔ اس گروہ کے متعدد لیڈر انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں اور صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے واضح کر چکے ہیں کہ وہ سینٹرل افریقہ میں مسلمانوں کا خاتمہ کر کے دم لیں گے۔ اس صورتحال کو ختم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری بان کی مون نے فرانس اور دیگر یورپین ملکوں سے مدد کی درخواست کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی نسل کشی روکنے کے لئے فوری اقدام کرنے اور مؤثر فوجی قوت کی ضرورت ہے تا کہ سرکش اور طاقتور ملیشیا گروہوں کی سرزنش کی جا سکے۔ جمہوریہ وسطی افریقہ کی صدر کیتھرین سامبا پانزا نے بھی اینٹی بالاکا فورسز کی چیرہ دستیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ایک عورت ہوں اس لئے کمزور ہوں اور ان کے خلاف اقدام نہیں کر سکتی۔ تاہم اینٹی بالاکا ملیشیا اپنے اصل مقصد سے ہٹ چکی ہے۔
یہ غیر محفوظ عیسائی آبادی کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ملک میں مسلمان آبادی کو ہراساں کرنے، لوٹ مار کرنے اور تباہی و بربادی میں ملوث ہے۔ اس لئے اب ان کو روکنا بے حد ضروری ہے۔ تاہم جمہوری وسطی افریقہ کی حکومت بین الاقوامی امداد یا مختلف قبائل کے ملیشیا کی مدد کے بغیر مسلح گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ اس دوران ساڑھے چار ملین آبادی کے اس چھوٹے سے غریب ملک سے جو اطلاعات موصول ہوئی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ اقوام متحدہ نے دارالحکومت بنگوئی کے نواح میں ایک اجتماعی قبر کا انکشاف کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے واضح کیا ہے کہ عیسائی ملیشیا ملک میں مسلمانوں کی نسل کشی کا اعلان کر رہی ہے۔ بلکہ وہ اس کام میں پوری طرح ملوث ہیں۔ملک کے ساڑھے سات لاکھ مسلمانوں میں سے ایک تہائی کے قریب اپنے گھروں کو چھوڑ کر ہمسایہ ملکوں چاڈ، کیمرون ، نائیجر اور سینیگال وغیرہ میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بہت بڑی آبادی نے مختلف مراکز میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس بات کا اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے اندر اینٹی بالاکا ملیشیا کتنے ملسمانوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ تاہم اس کے حملوں کی وجہ سے بیشتر مسلمان آبادیاں ویران ہو چکی ہیں۔ ان کے کاروبار ، املاک اور گھروں کو لوٹ لیا گیا ہے۔
Human Rights
ہیومن رائٹس واچ کے نمائندوں نے بتایا ہے کہ اینٹی بالا ملیشیا جو زبان استعمال کرتے ہیں وہ انتہائی نفرت انگیز ہے اور وہ اپنے اس ارادے کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے کہ وہ سینٹرل افریقہ کو مسلمانوں سے پاک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس تنظیم کے نمائندے نے بنگوئی کے قریب ایک تجارتی یولوکے کا دورہ کیا ہے۔ اس علاقے میں ایک ماہ قبل 30 ہزار مسلمان آباد تھے اور 8 مساجد تھیں۔ جس وقت ہیومن رائٹس واچ کا نمائندہ وہاں گیا تو وہاں صرف ایک مسجد باقی بچی تھی۔ 500 مسلمانوں نے اس ایک مسجد میں پناہ لی ہوئی تھی۔ فرانسیسی فوجی اس مسجد کی حفاظت پر مامور تھے۔ نمائندے کے مطابق اس علاقے کے باقی مسلمان یا تو فرار ہو چکے تھے یا انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اینٹی بالاکا فورسز نے ان کے مکان اور کاروبار لوٹ لئے تھے اور علاقے کو ویران کر دیا گیا ہے۔
اس بدامنی اور مسلمان دشمن فضا میں افریقی یا فرانسیسی فوجی بھی غیر مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندوں نے ایسی رپورٹس پیش کی ہیں جن کے مطابق فرانسیسی فوجیوں کے سامنے اینٹی بالاکا سپاہیوں نے نہتے مسلمانوں کو قتل کیا اور ان کی لاشوں کی بے حرمتی کی۔ لیکن فرانسیسی فوجیوں نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس کی ایک وضاحت یہ کی جا رہی ہے کہ اینٹی بالاکا ملیشیا کے مقابلے میں فرانس اور افریقن یونین کی فوجوں کی تعداد اور قوت کم ہے۔خبروں کے مطابق پورے مواصلاتی نظام پر اینٹی بالاکا ملیشیا کا قبضہ ہے۔ وہ پناہ کے لئے دوسرے علاقوں میں جانے والے مسلمان قافلوں کا راستہ روک کر انہیں لوٹتے ہیں اور تمام لوگوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ اس ملیشیا کی اس خوں ریزی کی وجہ سے ملک میں خوراک کا شدید بحران بھی پیدا ہو گیا ہے۔ جمہوری وسطی افریقہ میں خوراک اور اس کی تمام مصنوعات کی تجارت مسلمانوں کے ہاتھ میں تھی۔ ان لوگوں کے اجڑنے کے بعد اب خوراک کی فراہمی کا نظام بھی درہم برہم ہے۔
یوں تو وسطی افریقہ گزشتہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی اور انتشار کا مرکز بنا رہا ہے لیکن مذہبی بنیاد پر قتل و غارتگری اس ملک میں ایک نئی روایت ہے۔ مسلمان گزشتہ ایک ہزار سال سے اس علاقے میں آباد رہے ہیں۔ اب انہیں اپنے گھروں اور وطن سے بے گھر کیا جا رہا ہے۔اس انتشار کا آغاز گزشتہ سال مارچ میں ہؤا تھا۔ ہمسایہ ملک چاڈ کے تعاون سے سلیکا نامی ملیشیا نے ملک پر قبضہ کرتے ہوئے مشل جتودیا کو صدر بنا دیا تھا۔ اس ملیشیا نے دس ماہ تک ملک کی عیسائی آبادی کو ہراساں کیا اور بیشتر عیسائی آبادیوں پر حملے کئے۔ اس ملیشیا پر لوٹ مار کے علاوہ انسانوں کے قتل اور خواتین کی آبرو ریزی کے الزامات بھی ہیں۔اس گروہ کے مظالم سے عیسائی آبادی کو بچانے کے لئے گزشتہ برس ستمبر میں اینٹی بالاکا نامی ملیشیا سامنے آئی۔ اس نے دیہات میں آباد عیسائی آبادی کو تحفظ فراہم کیا اور سلیکا فورسز وہاں سے نکلنا شروع ہو گئیں۔ تاہم عالمی دبادکی وجہ سے گزشتہ ماہ صدر جتودیا کو استعفیٰ دینا پڑا اور کیتھرین سامبا پانزا صدر بن گئیں۔ اس تبدیلی سے سلیکا ملیشیا کمزور پڑ گیا جبکہ اینٹی بالاکا نے قوت حاصل کی اور مسلمان آبادیوں پر حملے شروع کر دئیے۔ ایک ماہ کے مختصر عرصے میں سینٹرل افریقہ میں ساڑھے سات لاکھ مسلمانوں کو بے گھر اور غیر محفوظ کر دیا گیا ہے۔