یہ غالبا ٢٠٠٩ کی بات ہے راولپنڈی کے فلیشمین میں ایکس سروس مین سوسائٹی نے ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں پاک فوج کے سابق افسران کے علاوہ پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے اقابرین شامل ہوئے۔ جنرل مشرف کے خلاف ایکس سروس مین سوسائٹی کا کردار قابل فخر ہے اور اسے تا دیر یاد رکھا جائے گا۔ مجھے تحریک انصاف کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہوا جہاں میں نے پارٹی مو ء قف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ مشرف کے ان ساتھیوں کے خلاف بات کی جو اس کی شاہ سے زیادہ وفاداری کرتے رہے۔ سعودی عرب میں جنرل اسد درانی کی چیرہ دستیوں کا شکار اور بھی بہت سے لوگ ہوئے جن میں بھی شامل تھا۔میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جنرل مشرف جمہوری قوتوں کا شکار ہے اور اسے کوئی گندہ پتھر نہیں مارے گا اور جنرل اسد درانی جو اسٹیج پر براجماں تھے ان کے اس اقدام کی پر زور مذمت کی جس میں انہوں نے جدہ میں مقیم پاکستانیوں کو جیلوں میں بند کرویا تھا۔رو ئف کلاسرہ تقریب کے خاتمے کے بعد میرے پاس آئے اور انہوں نے اس داستان غم کی تفصیلات حاصل کیں۔اگلے روز انہوں نے انگریزی روزنامے میں تفصیلات شائع کیں۔
میں اس سے پہلے بھی ان کی تحریروں کو شوق سے پڑھتا تھا اور یقین کیجئے اس شوق میں بلکل کمی نہیں ہوئی ان کی بے لاگ تحریریں، جرات مندانہ تبصرے نہ صرف میں اور بہت سے لوگ بشمول تحریک انصاف کے لوگ پڑھتے ہی نہیں سر بھی دھنتے ہیں۔ ان کا ایک کالم جو انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین کے بارے میں لکھا جس میں امریکہ سے آئے ہوئے ایک پاکستانی محبوب اسلم کے بارے میں انہوں نے قارئین کو آ گاہ کیا۔ ان کی تحریر پڑھ کر ایک عام فہم شخص تحریک انصاف کے چیئرمین سے متنفر ہوا۔اوپر سے عمران اسمعیل کے تبصرے کا ذکرنے تو جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ میں سب سے پہلے انہیں اس موضوع پر قلم اٹھانے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ ایک اچھے صحافی کی طرح انہوں نے ایک کارکن کی آواز کو لوگوں تک پہنچایا ہے۔ لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ یہ کہوں گا کہ انہوں نے آدھا سچ بیان کیا ہے۔ یہاں مجھے الطاف حسین قریشی یاد آئے ٩٠ کے آواخر میں انہوں نے جدہ میں مجھے اردو ڈائجسٹ کے لئے ڈائری لکھنے کا کہا ان سے ہدایات لیتے ہوئے میں نے ان سے پوچھا اس ذمہ داری کو عطاء تو آپ نے کر دیا ہے اب یہ بھی بتائیے کہ آپ مجھے کون سی ہدایت دینا پسند کریں گے؟ الطاف حسین قریشی جو میں سمجھتا ہوں صحافی برادری کا ایک معتبر نام ہیں انہوں نے کہا۔کہ بس اتنا خیال رکھئے کہ خود فریق نہ بن جائیے۔ مزید کریدنے پر فرمایا جب ایک فریق کے خلاف کوئی خبر ملے تو دوسرے سے بھی مو ء قف جان کر سٹوری فائل کریں۔تا کہ یک طرفہ مو ء قف سے ایک فریق کے ساتھ زیادتی نہ ہو پائے۔
Imran Khan
میں برادر کلاسرہ سے کہوں گا کہ آپ نے اس مروجہ اصول کا لحاظ نہیں رکھا کیا ہی اچھا ہوتا آپ اس سلسلے میں پارٹی کی سیکریٹری انفارمیشن شیرین مزاری سے پوچھ لیتے آپ تو ماشاء اللہ عمران خان سے رابطے میں ہیں ان سے بھی پوچھا جا سکتا تھا۔میں پارٹی کا مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات رہا ہوں ٢٠٠٧۔٢٠٠٩ تک کے عرصے میں اور اب بھی کسی بھی صحافی کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب دیا جاتا ہے۔
اب میں جناب محبوب اسلم کے بارے میں بات کرنا چاہوں گا۔اٹلی سے آئے ہوئے جناب ندیم یوسف کا آج لاہور سے فون آیا وہ بہت خوش تھے کہنے لگے ہمارے اٹھائے ہوئے تمام سوالات کے جواب بڑے اچھے انداز میں دے دیے گئے ہیں اور جناب چیئرمین ہمیں ملنے کے لئے اسلام آ باد سے آج لاہور پہنچ رہے ہیں۔انہوں نے ہی مجھے بتایا کہ محبوب اسلم صاحب نے چیئرمین سے انتہائی بد تمیزی کی تھی۔ سادہ سا جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ محبوب اسلم کسی کے پڑھائے ہوئے تھے اور وہ اس لہجے میں عمران خان سے بات کر رہے تھے جیسے خان صاحب نے انہیں ماں بہن کی گالی دی ہو۔بنی گالہ میں ہر شخص منہ اٹھا کے نہیں جا سکتا اس کے لئے باقاعدہ نام طے کئے جاتے ہیں اور یہ لوگ جو امریکہ اور یورپ سے آئے تھے انہیں بڑے احترام کے ساتھ وہاں بلایا گیا تھا مگر لگتا ایسے تھا کہ محبوب اسلم کسی اور کی زبان بول رہے ہیں ۔اس قدر بے ہودہ گفتگو کے بعد انہیں وہاں سے نکالا گیا۔اب بتائیے اس میں گردن سے پکڑ کر دھکے دے کر گالی گلوچ کر کے نکالے جانے کی بات کیوں کی جا رہی ہے ؟یہ مصالحہ کیوں ڈالا جا رہا ہے؟اب آئیے تیک فورس ہے کیا؟ہر زندہ پارٹی کے اندر اختلافات ہوتے ہیں تحریک انصاف میں ایک ایسا طبقہ تھا جو اپنے آپ کو اس پارٹی کا ماں باپ اور والی وارث سمجھتا تھا ان کا خیال تھا کہ پارٹی ہم سے ہیں ہم پارٹی سے نہیں۔انہیں خان تو قابل قبول تھے مگر سیفاللہ نیازی، عامر کیانی، اظہر طارق ،احسن رشید سے نہیں بنتی تھی۔ایک عرصے سے یہ لوگ سوشل میڈیا پر پارٹی میں مالی بد عنوانیوں کی بات کر رہے تھے۔ انہیں بار ہا کہا گیا کہ حساب کتاب موجود ہے چیک کر لیں مرضی کے آڈیٹر مقرر کر لیں مگر لگتا ایسے تھا کہ صاحبان کو حساب کتاب سے زیادہ شخصیات سے چڑ تھی۔یہ ایک غیر فطری عمل تھا،میں نے خود انہیں کئی بار کہا کہ مل بیٹھ کر معاملات کی تہہ تک پہنچتے ہیں مگر اصحاب دانش کا خیال تھا کہ ہمی جلیں گے تو روشنی ہو گی۔وہ تو نہ ہوئی۔ بے شمار غلط فیصلوں کے باوجود سیف نیازی اور ان کے ساتھیوں نے پارٹی کو سنبھالا دیے رکھا۔جہاں تک پارٹی ٹکٹوں کامعاملہ ہے اس کا شکار میں بھی ہوا مگر یہ نہیں کیا کہ جسے ملا اس کی مخالفت شروع کر دی۔
آواز بلند کرنا اور بات ہے اور دشمنی کرنا اور چیز جب ٹکٹ دیے جا رہے تھے تو میں نے بھائی ہارون الرشید سے بھی کہا مگر انہیں خود گوجر خان کے چودھری عظیم کا ٹکٹ نہ مل سکا، جو یقین کیجئے انہوں نے دل پر لے لیا۔ راجہ فہیم بھٹی بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی تھا جس نے پارٹی کے لئے قربانیاں دیں عمران خان نے اسے ٹکٹ دے دیا۔ یہاں سے برادر ہارون جو میرے لئے محترم ہیں اس لئے کہ وہ میرے دیرینہ دوستوں کے کزن ہیں اور مہربان بھی۔ انہوں نے وہ قلم جو وہ تحریک انصاف کے لئے برسوں استعمال کیا یک دم خلاف استعمال شرع کر دیا۔مری سے پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر گرچہ ایک کمزور امیدوار تھے مگر بحثیت کارکن صداقت عباسی کی قربانیوں کو کوئی صرف نظر نہیں کر سکتا تھا۔صداقت ہارون الرشید کے کالموں کا موضوع بننا شروع ہو گئے۔میں سمجھتا ہوں ان جیسے کالم نگار کا مرتبہ یہ تھا کہ وہ یہ زخم برداشت کر جاتے۔ اب بھی پنجابی میں کہتے ہیں ڈلیاں بیراں دا کج نئی گیا۔ اب بھی وہ تحریک انصاف کے کارکنوں کے لئے محترم ہیں۔انہوں نے ٹیک فورس کے اجتماع کو بھی موضوع بنایا، یہ بھی کوئی اچھا قدم نہ تھا۔میری تو ان سے اختصاری پیغام کے ذریعے بات بھی ہوئی، عزیزم بلال الرشید سے بھی رابطہ رہا۔ پارٹی کے کارکنوں کا خیال ہے کہ روٹھے ہوئے تمام لوگ واپس آئیں جب ایڈمرل جاوید اقبال گئے تو ہم تڑپے شیریں مزاری کو ہم لوگ واپس لائے اور فوزیہ قصوری کے جاتے قدم ہم نے روکے۔ ہم کہاں ہارون الرشید کو جانے دیں گے۔ تحریک انصاف میں ہزار خرابیاں ہوں گی مگر کلاسرہ صاحب یقین جانئے یہ وہ پارٹی ہے جس کا کارکن عمران خان کو روک کر پوچھ لیتا ہے ذرا چشم تصور میں سوچئے کہ پی ایم ایل این کا کارکن ایسا کر سکتا ہے۔ میں نے ان کے اراکین اسمبلی کو روتے دیکھا ہے کارکن تو کوئی چیز ہی نہیں۔ وہاں دور جلاوطنی میں میں ان کے ہاں بٹ گردی مچی رہتی تھی اور اب بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔وہ پیپلز پارٹی بھی لد گئی بلکہ لد کیا گئی جے اے رحیم کے ساتھ کیا ہوا تھا،ملک سلیمان کی بیٹیاں تھانے میں کس نے بٹھائیں، ڈاکٹر غلام حسین کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کسی سے پوچھئیے۔ گجرانوالہ کے علی محمد دھاریوال کا جو حشر ہوا وہ ہم جانتے ہیں خدا را یاد رکھئے کہ پارٹی کے قاید کی بھی کوئی عزت نفس ہوتی ہے، ماں بہن ہر کسی کی ہوتی ہے چاہے وہ کارکن ہو یا لیڈر۔
میں آ خر میں اس تصور کو سرے سے نہیں مانتا کہ تحریک انصاف کا کارکن بد تمیز ہے وہ سوشل میڈیا پر گالی دیتا ہے۔ہاں وہ مزاحمت کرتا ہے،وہ سوشل میڈیا پر متحرک اس لئے کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور اوور سیز پاکستانی تو ہے ہی پی ٹی آئی کا۔ ہم اپنے ان محترم صحافیوں کی دل و جان سے عزت کرتے ہیں میرے ڈرائنگ روم میں ایک تصویر ہے جس میں سیف اللہ نیازی،زاہد کاظمی، ایڈمرل جاوید اقبال، احسن رشید عمران خان اور میں ایک ٹرک پر سوار ہیں یہ ١٤ اگست ٢٠٠٨ کی ریلی تھی ہم سب آبپارہ سے نکلے تھے، ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے۔ ہم سفر پرانے ہی اچھے ہوتے ہیں۔ہارون بھائی یہ تو اس وقت کی بات ہے جب لوگ ہمیں ٹانگے کی سواری کہتے تھے۔ اب تو اللہ کا کرم ہے۔
کبھی جب دھیمے سروں میں کوئی یہ گیت گاتا ہے لوٹ آئو میرے پردیسی بہار آئی ہے مجھے آپ اور وہ سب لوگ بہت یاد آتے ہیں۔ سلیم نواز گنڈہ پور، اویس، ثمینہ گنڈہ پور، ایڈمرل جاوید اقبال، اکبر ایس بابر، ندیم ملک، جاوید اقبال، حفیظ اللہ نیازی سبیاد آتے ہیں۔ ہم نے روشنی کی تلاش میں سفر کا آ غاز کیا تھا۔ آج کلاسرہ صاحب کو ہمارے درمیان پڑی دراڑیں محسوس ہو رہی ہیں۔ ابھی اندھیرے چھٹے نہیں ابھی سیاہ رات باقی ہے۔ آئیں مل جل کر، اگر کوئی بات ہے بھی تو سر جوڑ کر، اگر مسئلہ موجود ہے تو اسے بیٹھ کر حل کرتے ہیں۔ بس ایک جذبہ چاہئیے برداشت کا، کوئی کپڑے اگر گندے ہیں تو انہیں اندر ہی دھو ڈالتے ہیں۔ محبوب اسلم جیسے رویے ہمارے ہاں نہیں چلتے۔ ہم تو فقیر وہ لوگ ہیں جو ان کی منتیں ٹھوڈیاں کر لینے کے لئے تیار ہیں، لیکن اس بات کا خیال رکھئے عمران ڈکٹیٹر کے چمچوں کے دھکے برداشت کر سکتا ہے ڈیرہ غازی خان کی جیل بھگت سکتا ہے مگر اسے اپنے تو نہ دھکے دیں۔ کلاسرہ صاحب پورا سچ تو یہ ہے۔