انتہا پسندی بنیاد پرستی، میں ان لفظوں کے لغوی معنی نہیں جانتا کیا ہیں، لیکن میں نے ان الفاظ کو اپنے معنی دئے ہیں، جب گھر میں، میں اپنے بچوں پر یہ قانو ن لاگو کرتا ہوں کہ یہ کرنا ہے اور یہ نہیں کرنا، اور جب وہ سن شعور کو پہنچتے ہیں، تب انسانی سرشت جس میں بغاوت کے عنصر موجود ہیں جاگ جاتے ہیں، تب وہ میری مرضی تسلیم کرنے اور عمل کرنے کی بجائے اپنی مرضی اور خواہشات پر چلنا چاہتے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں وہ باغی ہیں یہ فطرت حیوانات میں بھی موجود ہے، اور جب وہ باغیانہ رویہ اپنانتے جبکہ ایسا نہیں یعنی اپنی مرضی سے اپنی راہوں کا تعین کرتے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے مگر میں یہ حق دینے کی بجائے اُن پر جبر کرتا ہوں تو یہی بنیاد پرستی یا دہشت گردی کہی جاتی ہے یا بن جاتی ہے، پھر جب اُن کو وقت ملتا ہے وہ وہی کچھ جواُنکے ساتھ ہوأ کرتے ہیں
اور یہ تو ابتدائے آفرنیش ہی سے جاری، ہر زمانے میں رہی، یعنی جو بھی مقتدر حلقے یا جابر قسم کے لوگ کہیں انہوں نے ہر مقام پر اپنی مرضی مسلط کی، اور اگر کسی نے لیت لعل کیا تو پھر جبراً یہ بنیاد پرستی، انتہا پسندی اگر طاقت کا عنصر شامل ہوأ تو یہی دہشت گردی کہلاتی، مگر یہ سچ یہاں تسلیم نہیں، پھر یہ کوئی نئی طرح نہیں کہ آج میڈیا پر ایک ہی موضوع زیر بحث ہے اخبارات میں خبریں، تبصرے، تجزئے، کالمز، دہشت گردی اور مذاکرات کے موضوعات سے سیاہ الیکٹرانک میڈیا پر بھی یہ موضوع انقرہ میں وزیر آعظم ڈاکٹر میاں نواز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا فوج اور عوام کی مذاکرات پر مکمل حمائت ہے، طالبان سے خوش خبری سننا چاہتے ہیں اور کہا مذاکرات سبوتاژ کرنے والوں پر نظر ہے مگر مذاکرات کے ان دنوں میں ٢٩ جنوری تا١٢،فروری تک دہشت گردی کے ١٥، واقعات ہوئے جن میں ٧٥، افراد جاں بحق ہوئے اور ٢٠٠،سے زائد زخمی ہوئے، اِس طرح مذاکرات کے دنوں میں اوسطاً پانچ سے زیادہ بے گناہ شہری روزانہ مارے گئے۔
Taliban
جبکہ طالبان نے ان جاری حملوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا ہے اور ١٣ فروری کو کراچی میں پولیس بس پر ھملہ جس میں ١٣ پولیس اہلکار جاںبحق اور ٥٥ زخمی ہوئے اِس حملہ کی زمہداری طالبان نے قبول کی، اُس سے پہلے یکم جنوری ١٤،سے ٢٢ جنوری تک ٨، حملے ہوئے جن میں ٩٢مارے گئے اور ٢٥٢،زخمی ہوئے اِن میں ١٩ جنوری کو بنوں میں فوجی قافلہ کو نشانہ بنایا گیا جس میں ٢٣ جوان جاں بحق اور ٦٦ زخمی جن میں ١٥ کی حالت تشویشناک تھی جنہیں فوری CMH پشاور منتقل کیا اب تک ہونے والے حملو ں میں سب سے زیادہ حلاکت خیز تھا، فوج پر حملے کرنے والے کیونکر ملک و قوم کے خیر خواہ ہو سکتے ہیں انگریز نے وزیرستان کو انتظامی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا جنہیں آج مذاکرات کی صورت میں ایک ریاست کے مساوی حیثیت سے تسلیم کیا جا رہا ہے، اور ٢٠، جنوری کو فوج کے دل GHQ پر دوسری مرتبہ حملے کی کوشش کی جس میں ٧ فوجیوں سمیت ١٤ جاں بحق اور ٣٣ زخمی ہوئے، ان حملوں کے بعد فوج حرکت میں آئی اور فضا ئی کاروائی کی تو طالبان نے فوراً اپنا نیا کارڈ مذاکرات کا پھینک دیا طالبان حمائتیوں نے حکو مت پر دباؤ بڑاہا دیا کہ مگر مذاکرات کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا اور نہ ہی نکلے گا کہ مذاکرات حکومت کی پسپائی ظاہر کرتے ہیں۔
مگر طالبان اپنے پتے کھیلنے میں کامیاب ہوئے اور ملک میں اپنی کاوائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، کراچی میں رینجر کے ونگ کمانڈر پر حملہ یہ کوئی معمولی اور عام سی خبر نہیں. وزیر داخلہ نثار علی خان صاحب کہتے ہی دشت گرد حملے اور مذاکرات ایک ساتھ نہیں چل سکتے اور بس خاموش ،کہ ان کے پاس وقت کے مطابق کوئی اہم فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں یا اجازت نہیں ماسوائے رپورٹ طلب کرنے۔
مگردوسری طرف اودھر مولانا سمیع الحق کہتے ہیں کہ طالبان کے تمام گرپوں نے مذاکرات کی حمائت کر دی ہے، بعض عناصر دہشت گرد کاروائیاں کرکے مذاکرات امن عمل کوششوں پر پانی پھیرنا چاہتے ہیں نہیں مولانا فادر آف دی طالبان کس حوالے سے آپ یہ کہتے ہیں جبکہ طالبان خود حملے کے بعد اعلانیہ قبول کرتے ہیں پھر بھی ساری کمیٹی اور حمائیتی کہتے ہیں کہ طالبان سنجیدہ ہیں تو پھر ہر روز بلا ناغہ یہ خون کی حولی کون کھیل رہا کیوں؟ ،جناب ان کی نشاندہی کریں آپ کے علم میں ہیں اور حکومت کو اُن کے خلاف موثر کارائی کے لئے فری ہینڈ دیں تو پھر معلوم ہوگا طالبان امن کے لئے سنجیدہ ہیں مگر نہیں وہ ہر گز سنجیدہ نہیں ایک طرف وہ مذاکرات کے لئے پتے کھیل کر حکومت، امن پسند عوام اور فوج کو الجھائے رکھنے کی پالیسی پر تو دوسری طرف اپنی دشت گرد کاروائیاں بھی جاری رکھ کر حکومت، فوج اور عوام کو دباؤ میں رکھنا چاہتے ہیں۔
،یہ سچ ہے کہ طالبان کو غیر مسلحہ کر کے مذاکرات کی میز پر بٹھانے کی بات تو آسان ہے مگر عمل میں لانا انتہائی مشکل ہے بلکہ وہ براہ راست مذاکرات کا حصہ بھی نہیں اسکے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ طالبان ہی طالبان سے مذاکرات کر رہے ہیں تو پھر مذاکرات کا مقصد کیا رہ جاتا ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے ہے کہ طا لبان حکومت اور فوج کی کمزوریوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے اور اگلے اہم ٹارگٹ کے لئے بھر پور تیاری کر رہے ہیں، دائیں بازوں کی اہم جماعتوں سے تعاون کے حصول کے لئے بھی کیونکہ یہ کہنا کے کسی بھی اپریشن میں ٤٠ فیصد کامیابی کا امکان کمزوری کی دلیل ہے خصوصاً فوج پر اسکا منی اثر یہ بھی اطلاعات ہیں کہ ٤٠،سے زیادہ دہشت گرد گروپوں کو مختلف ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ہر طرح کی امداد پہنچا رہی ہیں، مگر سوال یہ ہے امداد جس میں ہر قسم کا جدید اسلحہ ان تک آسمان سے تو نازل نہیں ہوتا بہر حال زمینی راستہ ہی سے پہنچتا ہے یہ ناکے اور ایجنسیا سوئی رہتی ہیں یا اپنا حصہ وصول کر کے آنکھیں بند کرلیتی ہیں، دوسری، اور اہم بات یہ ڈالر توبراہ راست نہیں ملتے بلکہ پاکستانی کرنسی میں تبدیل ہوکر ملکی بنکوں کے یا ہنڈی کے زریعہ ہی رقوم اُن تک پہنچتی ہے کیا ایجنسیا بے خبر ہیں اگر یہ بے خبر ہیں تو پھر ایسے سفید ہاتھیوں پر کروڑوں ضائع کرنے کی بجائے جنگل میں چھوڑ دیا جائے۔
اب کراچی میں ١٣ فروری کے خونی واقع جس میں ١٣، اہم پولیس ا ہلکار جان بحق اور زخمی، اس حملہ کی زمہ داری کسی پس و پیش کے طالبان نے اعلانیہ قبول کی اور استدلال یہ کہ اپریشن میں ساتھوں کی ہلاکت کا بدلہ لیا، ایک دن پہلے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہ تھا، حکومتی کمیٹی وزیرستان آنا چاہے، تحفظ دینگے اور آج حکومتی کمیٹی کے سربراہ نے نجی ٹی وی پر کہا کہ طالبان نے سیز فائر کا اعلان کیا تو ہم وزیرستان جائیں گے؟ کیا مطلب، مطلب واضح ہے کہ وزیرستان پر طالبان کا مکمل کنٹرل ہے وہاں حکومتی رٹ نہیں بلکہ کرم، اورکزئی، خیبر، باجوڑ مہمند اور دیر پر بھی حرف آخر، مذکرات کے حوالے سے جس طرح کی خبریں اور ساتھ ہی خود کش حملے اور دھماکوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذاکرات فاتح اور مفتوح کہ درمیان ہو رہے ہیں کامیابی کی صورت میں فاتح اپنی مرضی جبراً مفتوح ملک و قوم پر مسلط کریگا۔