بغداد (جیوڈیسک) اپنی ویب سائٹ پر شائع ہاتھ سے لکھے گئے پیغام میں مقتدہ صدر نے کہا کہ وہ مستقبل میں نہ کوئی سرکاری عہدہ لیں گے اور نہ ہی ان کی پارلیمان میں کوئی نمائندگی ہو گی۔
مقتدہ صدر اور ان کی شیعہ ملیشیا مہدی آرمی 2003 میں امریکہ کی طرف سے عراق پر حملے کے بعد منظرِ عام پر آئی۔ انھوں نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ اپنے تمام دفاتر بند کر رہے ہیں اور صرف خیراتی کاموں کے لیے چند دفاتر کو چلایا جائے گا۔
مقتدہ صدر ایک شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے اور 11 سال پہلے صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد انھوں نے عوامی تقاریر اور انٹرویو میں امریکہ مخالف جذبات کو بھڑکایا۔ ان کی وفادار شیعہ ملیشیا مہدی آرمی نے 2003 سے امریکہ کے خلاف بے شمار جنگیں لڑی اور واشنگٹن نے اسے عراق میں عدم استحکام پھیلانے والی فورس قرار دیا تھا۔
ان کی ملیشیا پر 2006 اور 2007 میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران ہزاروں کی تعداد میں سنی مسلمانوں کو اغوا کرنے، ان پر تشدد کرنے اور انھیں ہلاک کرنے کے الزامات لگائے گئے تھے۔ 2006 میں جب ان کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا گیا تو ایران فرار ہو گئے۔
دو سال بعد ان کی مہدی آرمی وزیرِاعظم نوری المالکی کے زیرِ سرپرستی عراقی فوج کے خلاف برسرِ پیکار ہوئی۔ اس دوران ان کی ملیشیا کے بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے گروپ نے کہا کہ وہ ہتھیار ڈال کر اپنی تنظیم ختم کر رہے ہیں۔ بعد میں مقتدہ صدر نے وزیرِاعظم نوری المالکی کے ساتھ صلح کر لی اور 2010 میں دوبارہ وزیرِاعظم بننے میں ان کی مدد کی۔
انتخابات کے بعد ان کا گروپ نئی حکومت کے قریب رہا اور متعدد وزارتیں بھی حاصل کیں۔ مقتدہ صدر 2011 میں خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے عراق میں واپس آ گئے اور زیادہ مفاہمتی انداز اپنانے ہوئے عراق میں یک جہتی اور امن پر زور دیتے رہے۔