کراچی میں پولیس وین پر دہشت گردی کی واردات کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ اب مذاکرات کا سلسلہ ختم ہو جائے گا کیونکہ طالبان ایک طرف مذاکراتی وفود سے مل رہے ہیں تو دوسری طرف دہشت گردی بھی جاری ہے، بے گناہوں کا خون بھی بہایا جا رہا ہے، ایک طرف امن امن کے نعرے تو دوسری طرف وطن عزیز کی مٹی کو لہو لہان کیا جا رہا ہے۔ مسائل خواہ جتنے بھی ہوں سب کا واحد حل مذاکرات ہی ہیں۔ اگر امریکا تمامتر وسائل، ٹیکنالوجی،ا سلحہ کے باوجود افغانستان میں شکست خوردہ ہو کر طالبان سے مذاکرات کر سکتا ہے تو پاکستا ن میں قیام امن کے لئے مذاکرات جاری رہنے چاہئے۔ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے امن کی بحالی کیلئے مذاکرات کا فیصلہ کرکے ملک کو بدامنی کی دلدل میں دھکیلنے کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔ اب مذاکرات کی کامیابی کیلئے بھی تمام محب وطن قوتوں کو ایک پیج پر متحد ہونا چاہیے۔طالبان اور حکومت دونوں کی طرف سے فوری سیز فائر ہونا چاہئے۔
ملک بھر کے علماء قیام امن کیلئے مذاکرات کی کامیابی کیلئے متحد ہیں، آپر یشن کے تلخ تجربات کو دہرانے اور دہشت گردی کے بیج بونے کے بجائے امن کو ایک بار نہیں سو بار موقع دینا چاہئے۔ جمہوریت کی ناکامی پر مزید جمہوریت کی کوشش کی جاتی ہے آمریت کو کوئی دعوت نہیں دیتا۔ امریکی لابی مذاکرات کے بجائے ملٹری آپریشن کے خواب دیکھ رہی تھی تاکہ امن کی کوششوں کو تہس نہس کیا جاسکے۔ وزیر اعظم کی طرف سے مذاکرات کے اعلان کے بعد ان کے سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں۔ حکومتی اور طالبان کمیٹی نے انتہائی تدبر سے کام لیا ہے۔ قوم کومولانا سمیع الحق کی طرف سے معاملے کو سلجھانے کی گراں قدر کوششوں کا ساتھ دینا چاہئے۔ پاکستان امت مسلمہ کی قیادت اسی صورت کرسکے گا جب اندرونی طور پر پر امن اور مستحکم ہوگا، اسی لئے اسلام و ملک دشمن قوتیں پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار رکھنا چاہتے ہیں۔
امریکہ اور بھارت نہیں چاہتے کہ طالبان کے ساتھ حکومت کے مذاکرات کامیاب ہوں۔ کراچی پولیس وین حملے کے بعد مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس ہوا جس میں ثالثی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق، کمیٹی کے سرکردہ رکن و امیر جماعت اسلامی خیبر پی کے پروفیسر محمد ابراہیم، مولانا محمد یوسف شاہ، حکومتی کمیٹی کے ارکان عرفان صدیقی، رستم شاہ مہمند، رحیم اللہ یوسفزئی اور میجر (ر) محمد عامر نے شرکت کی۔ حکومتی کمیٹی نے مطالبہ کیا کہ طالبان امن کے منافی کارروائیاں فوری بند کریں، طالبان کمیٹی نے کہا کہ پائیدار امن کیلئے حکومت بھی طاقت کا استعمال نہ کرے۔
اجلاس کے بعد جاری مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا کہ دونوں کمیٹیوں نے امن کے منافی سرگرمیوں پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ ایسے واقعات امن کوششوں پر انتہائی منفی اثرات ڈالیں گے۔ حکومتی کمیٹی نے کراچی کے حالیہ واقعہ کا حوالہ دیتے ہوئے مئوقف ظاہر کیا کہ خلاف امن کارروائیوں سے امن مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائیگا۔ طالبان سے فوری طور پر اس واضح اور دو ٹوک اعلان کیلئے کہا جائے کہ ہر قسم کی منافی امن کارروائیاں بلاتاخیر بند کی جا رہی ہیں اس اعلان پر مئوثر عملدرآمد کو بھی یقینی بنایا جائے۔ طالبان کمیٹی نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو بھی ایسی کوئی کارروائی نہ کرنے کا واضح اعلان کرنا چاہئے جس سے اشتعال پھیلے۔ پائیدار امن کیلئے ضروری ہے کہ کسی بھی طرف سے طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔ حکومتی کمیٹی نے اعادہ کیا کہ خلاف امن کارروائیوں کے مئوثر خاتمے کے فوراً بعد دیگر اعتماد سازی کے اقدامات پر پیشرفت ہو گی۔ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ امن کے منافی سرگرمیوں پر دکھ ا ور افسوس ہے، حکومتی ٹیم نے کہا کہ امن کے خلاف کارروائیوں سے مذاکرات جاری رکھنا مشکل ہو جائے گا۔
Taliban Shura
اجلاس میں طالبان کی طرف سے کراچی میں پولیس بس پر کئے گئے حملے کے بعد پیدا ہونے والی نئی صورتحال کا جائزہ اور اس پر طالبان کمیٹی کا مئوقف لیا گیا طالبان کی رابطہ کار کمیٹی نے طالبان شوریٰ سے ہونے والی بات چیت پر حکومتی کمیٹی کو اعتماد میں لیا۔ حکومتی کمیٹی نے مئوقف اختیار کیا کہ خلاف امن کارروائیوں کے خاتمے کے بعد اعتماد سازی کے اقدامات پر بھی پیشرفت ہو گی۔ اس اجلاس کے دوسرے روز لاہور میں جمعیت علماء اسلام(س) کی طرف سے امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میںدفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین مولانا سمیع الحق، امیر جماعت اسلامی سید منور حسین، مولانا یوسف شاہ، پروفیسر ابراہیم، مولانا عاصم مخدوم، پیر محمد اکبر ساقی نقشبندی و دیگر علماء کرام شریک ہوئے۔ امن کنونشن میں ملک بھر کے جید علمائے کرام اور مشائخ عظام نے مذاکرات کی کامیابی کے لئے جنگ بندی پہلی شرط قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ طاقت کے استعمال سے گریز کیا جائے۔ گزشتہ حکمرانوں کی غلط پالسییوں کی وجہ سے 15 برس سے پورا ملک آگ اور خون کی جنگ میں مبتلا ہے، پوری قوم اس آگ اور خون کے کھیل سے عاجز آچکی ہے۔
علمائے کرام اور مشائخ عظام مذاکراتی عمل کے لئے حکومت اور طالبان کمیٹی کے ارکان اور مولانا سمیع الحق کی کوششوں کی حمایت کا یقین دلاتے ہیں۔ اعلامئے میں کہا گیا ہے کہ طالبان پاکستانی قوم کے فرزند ہیں، قوم توقع رکھتی ہے کہ طالبان فوری طور پر ہمارے شانہ بشانہ امن و سلامتی، انسانیت، وطن کی خاطر ہمارے ساتھ چلیں اور ہتھیاروں کے بجائے امن کی زبان میں بات کریں۔ تاکہ ہم اپنے اسلامی، قومی اور ملی مقاصد حاصل کرسکیں تاکہ پاکستان اور اسلام دشمن قوتیں ناکام ہوجائیں اور پاکستان اسلامی نفاذ کی اصل منزل کی جانب پر امن طور پر گامزن ہوسکے۔اعلامئے میں ملک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں سے اس امید کا اظہار کیاگیا ہے کہ وہ اس معاملے میں حب الوطنی اور قومی وحدت کا مظاہرہ کرکے ملک میں فرقہ واریت اور علاقائی و لسانی، داخلی وخارجی سازشوں کو ناکام بنادیں اور یک آواز ہوکر فریقین کو امن کے منافی سرگرمیوں کو روکنے پر مجبور کر دیں۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ تمام مقتدر ادارے ملک میں پیدا کردہ شورش کے اصل محرکات پر توجہ دیں۔ پارلیمنٹ کی مفتقہ قراردادوں اور آل پارٹیز کانفرنس کی متفقہ سفارشات کے مطابق خارجہ اور داخلہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور ملک کو اسلام دشمن قوتوں کی جنگ سے نکال لیں۔ حکومت اور طالبان کی جانب سے قائم کی گئی مذاکراتی کمیٹیاں اب سیز فائر کا اعلان کریں کیونکہ پاک سرزمین پر بہت بے گناہوں کا خون بہہ چکا۔اب علماء کرام نے بھی قیام امن کے لئے مذاکرات کے لئے مولانا سمیع الحق کو امن کا سفیر قرار دے دیا ہے، مولانا سمیع الحق جنہیں پہلے”فادر آف طالبان ” کہا جاتا تھا اب امن کے سفیر بن چکے ہیں انہیں طالبان کو اس بات پر راضی کرنا چاہئے کہ وہ سیز فائر کریں۔ ملک بھر کے علماء کرام نے مولانا سمیع الحق پر اعتماد کیا اور قوم تو ان پر اعتماد کرتی ہی ہے دفاع پاکستان کونسل کے کامیاب ترین جلسے اس بات کی گواہی ہیں قیام امن کے لئے شروع ہونے والے مذاکرات کو کسی بھی طرح ناکام نہیں ہونا چاہیے جو جتنا کردار ادا کر سکتاہے کرے۔