ویلنٹائن ڈے پر پیش آنے والی حقائق

Valentine's Day

Valentine’s Day

اِس سال 14 فروری 2014 کو جب میری قوم کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنے باعزت والدین اور غیرت مند بھائیوں کو چکمہ دے کر اغیار کی تقلید کرتے ہوئے نامحروموں کے ساتھ محبت کے نام پر پارکوں، ریسٹورانٹوں اور گلی محلوں میں گھوم پھرکر باہوں میں باہیں ڈالے لمحات گزار کر پھولوں کے تحفے دے اور لے کر ویلنٹائن ڈے منارہے ہیں تو ایسے میں مجھے اپناوہ گُلفروش دوست وجیہہ الحسن شدت سے یاد آگیا ہے جو پچھلے ہی سال اچانک اِسی دن انتقال کر گیا اور جس کی تدفین اگلے روز 15 فروری کو مقامی قبرستان میں عمل میں لائی گئی تھی، میں جانتاہوں کہ وجیہہ الحسن نے ہمیشہ نوکری کو غلامی سمجھا وہ کاروبار کرنا چاہتا تھا مگر اِس نے یہ کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ”وجیہہ الحسن سے وجیہہ الحسن گلفروش بن جائے گا”اور لوگ اِسے وجیہہ الحسن گلفروش کے نام سے جاننے اور پہنچاننے لگیں گے اِس کی کبھی بھی یہ خواہش نہ تھی کہ وہ اپنے اَبّا کاہی چھوڑا ہوا گُلفروشی کا کاروبار کرے گا وہ تو کوئی اور کاروبار کرنا چاہتا تھا مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اِس نے گلفروشی کا کاروبار اپنی ہی ہٹ دھرمی ونالائقی اور ضدکی وجہ سے ہی چُن لیا تھا چونکہ اَب وہ اِس کے علاوہ کوئی اور کام کربھی نہیں سکتا تھا وہ اِس کاروبار کو کرنے پر کیوں مجبور ہوا..؟اِس کی ایک بڑی لمبی داستان ہے اگر یہاں میں اِسے بیان کرنے بیٹھ گیا تو میں اپنے مُدّعا سے کہیں کا کہیں نکل جاؤں گا

بس سمجھانے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ اِس نے اِس لئے گلفروشی کا کاروبار شروع کیا تھا جب اِس کے اَبّا حیات تھے اور وہ اپنی بیماری کے باعث دُکان پر نہ آسکے تو تب اِس کے اَبّا نے اِسے دُکان پر بیٹھنے کو کہا تھا پہلے تو اِس نے انکار کیا مگرجب اَبّا کا اصرار بڑھا تو یہ دل پر پتھر رکھ کا آخر کار ایک روز دُکان پر بیٹھ ہی گیا ویسے تو دُکان پر کاریگر بہت تھے سارا کام تو اُنہیں ہی کرنا تھا اِسے تو بس گّلے پر ہی بیٹھنا تھا ایک دو روز تو اِسے عجیب سالگا مگر تیسرے روز اِس کا دل دُکان پر ایسے لگا کہ پھر یہ آخری دم تک دُکان کا اور دُکان اِس کی جان سے چمٹی رہی وجہ اِس کی یہ تھی کہ جس روزسے اِس کا دُکان پر دل لگ گیا تھا وہ ویلنٹائن ڈے تھا اِس روز صبح سے رات گئے تک لڑکے اور لڑکیاں اِس کی دُکان سے پھول اور پھولوں کے نبے دوسرے سستے اور مہنگے داموں گلدستے خریدتے رہے اِسے دُکان داری میں بڑا مزہ آیا..مزہ جو آیا سوآیا.. اِس کے مزے کی ایک خاص وجہ وہ لڑکیاں تھیں جو اِس کی خُوبصورتی کی تعریفیں اپنی نظروں سے کر کے جارہی تھیں یہ ساری باتیں مجھے وجیہہ الحسن نے خود بتائیں تھیں۔

اَب معمول کے مطابق روز صبح دُکان کھولنا اور رات گئے بند کرنا اِس کی ذمہ داری ہوگئی تھی، اِس نے اَبا کو آرام کا کہہ کر گھر تک ہی کر دیا تھا ابھی ایک ویلنٹائن ڈے گزرا ہی تھا کہ اگلے ویلنٹائن ڈے کے آنے تک گئی خُوبصورت لڑکیاں اِس پر عاشق ہوکر مرمٹی تھیں خواہ وہ اِسکول کی لڑکیاں ہوں کالجز یا جامعات کی بس ہر لڑکی کی خواہش یہ تھی کہ کسی بھی طرح وہ اِس کا بن جائے لڑکیوں کے چکر میں پڑ کر وجیہہ الحسن نے اپنی پڑھائی کا سارا وقت دُکان پر دینا شروع کر دیا تھا اَب پڑھائی وڑاہی سب غرق ہو گئی تھی۔

بات مختصریہ کہ وہ ایک اپنے سے زیادہ مالدار لڑکی کی محبت کے جھانسے میں آگیا تھا اور پھر چندہی دِنوں میں اِس سے اُس کی شادی ہو گئی تھی، اِس کی شادی میں، میں بھی اِس کے سگے بھائیوں کی طرح شامل ہوا تھا، پہلی لڑکی کی پیدائش کے بعد دونوں میاں بیوی کی بس ایک خواہش یہ تھی کہ اِن کا ایک بیٹا ہو جائے اِس چکر میں لگا تار اُوپر نیچے چار بیٹاں ہو گئیں تھیں اور ہر بیٹی دوسرے سے خُوبصورت تھی، اولاد تو سب ہی کو پیاری ہوتیں ہیں خواہ ساری بیٹاں ہوں یا سارے ہی بیٹے ہوں مگر بس سب کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ بیٹے اور بیٹیاں دونوں ہی ہوں تو ساری خواہش پوری ہو جاتی ہے، وجیہہ الحسن اور بھابھی نزہت نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کی طرح پلاتھا اِنہیں اچھی تعلیم تو دلوائی تھی مگر شاید دونوں میاں بیوی اپنی بیٹیوں کی کچھ اچھی تربیت نہ کرسکے تھے آج اگر وہ اِن کی اچھی تربیت کرتے تو ہوسکتا ہے کہ وہ ابھی زندہ رہتا کیوں کہ ہمارے معاشرے میں والدین کی لمبی عمر کی ایک وجہ نیک اور صالح اولاد کا ہونا بھی ہے اور جن کی اولاد بے راہ روی میں پڑ جاتی ہے وہ میرے دوست وجیہہ الحسن کی طرح جلد دنیائے فانی سے منہ موڑکر کوچ کر جاتے ہیں۔

بہر حال! وجیہہ الحسن کا جس صدمے سے انتقال ہوا اِس کی بڑی وجہ ویلنٹائن ڈے اور اِس کی دُکان کے ہی وہ پھول اور گلدستے تھے جو اِس نے پچھلے سال 14 فروری 2013 کو اپنی دُکان سے ویلنٹائن ڈے کے موققے پر نوجوان لڑکوں کو صبح سے شام تک فروخت کئے تھے مجھے یہ بات اِس کے انتقا ل کے چار روز گزر جانے کے بعداِس کے ایک انتہائی قریبی رشتے دار اور اِس کے ایک سکے ماموں کی زبانی معلوم ہوئی تھی اِس پر وجیہہ الحسن کے وہ الفاظ یا د آگئے جو اِس نے اپنی موت سے سات دن پہلے مجھ سے کیں تھیں اِس نے بڑے فخر سے مجھے بتایا تھاکہ وہ اِس مرتبہ ویلنٹائن ڈے پر زیادہ رقم لگائے گا، اور اِس مرتبہ ویلنٹائن ڈے پر دیسی اور انگلش پھولوں کی ایسی ورائٹیاں متعارف کرائے گاکہ یہ سارے شہر ہی کیا بلکہ پورے مُلک میں یہ اِس کی پہنچان بن جائیں گیں اور یہی پھول اور گلدستے اِس دن اِس کا اشتہارہوں گے حقیقت ہے کہ اِس نے جیسا سوچا اُسے اُس ہی رنگ میں پیش بھی کیا اِس کی پھولوں کے گلدستے کی ورائٹی سے خود اِس کی بیوی اور بچیاں بھی واقف نہیں تھیں کہ وجیہہ الحسن نے اِس ویلنٹائن ڈے پر پھولوں اور گلدستوں کی ورائیٹیز کے حوالے سے کیا پلاننگ کر رکھیں ہیں۔

Allama Iqbal College

Allama Iqbal College

مجھے یاد ہے میری ملاقات وجیہہ الحسن سے بیس سال قبل اُس وقت ہوئی جب وہ اور میں کراچی میں ائیرپورٹ کے قریب واقع علامہ اقبال کالج میں شام کی کلاسوں میں بی کام فرسٹ ائیر کے طالبعلم تھے اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ کلاس کاہی نہیں بلکہ کالج کا بھی سب سے ذہن اور اسمارٹ طالبعلم تھا، اِسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے قدرت نے ساری ذہانت اور خوبصورتی اِس ہی میں کوٹ کوٹ کر بھردی ہے، وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا اِس کے اَبّا کی شہر کی مشہور پھولوں کی مارکیٹ میں ایک بڑی پھولوں کی دُکان تھی، اوراِس کے اَبّا مارکیٹ میں تاجر برادری کی انجمن کے صدر بھی تھے، اور اِس حوالے سے یہ اپنا اچھا اثر و رسوخ رکھتے تھے، اِنہیں اپنے اَبّاکی چھوڑی ہوئی جائیداد سے بہت کچھ ملا تھا یوں اِن کے پاس دولت تو بہت تھی، یہ اگر پھولوں کی مارکیٹ میں پھول کی دُکان نہ بھی کھلتے تو اِن کا زندگی بھر اچھا گزر بسر ہو سکتا تھا، مگر مارکیٹ میں پھولوں کی دُکان تو اُنہوں نے بس یوں ہی کھل لی تھی تاکہ اِن کا دل لگار ہے اور اِن کی پھولوں سے شخف بھی جاری رہے۔ اِنہیں پھولوں کی دُکان سے جتنی بھی آمدنی حاصل ہوتی وہ سب کی سب اپنے بیٹے وجیہہ الحسن کی اچھی تعلیم و تربیت پر خرچ کر دیتے، بیٹا جو تھا اِس ہی لئے تو اِس کے والدین نے اِس کے ناز اُٹھائے وہ تو بس اِسے ایک قابل اِنسان بنانا چاہتے تھے، اِنہیں یقین تھاکہ اِن کا اکلوتا بیٹا مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہو کر اعلیٰ افسربنے گا۔ مگر والدین کے بیجا لاڈ نے تو اِسے نخرالو اور ضدی بنا دیا تھا وجیہہ الحسن اپنے والدین سے اپنی مرضی کی ہر بات اپنی ضدسے بنوالیا کرتا تھا چونکہ وہ ضدی تھا اِس لئے اِس کے والدین اِس کے سامنے بے بس ہوجاتے اور اِس کی ہر اُلٹی سیدھی خواہش تُرنت پوری کرتے اِس کی اِسی عادت نے اِسے بکاڑ دیا تھا بھابھی نزہت سے شادی کے لئے بھی اِس نے ضدک ی تھی اور اِن سے شادی نہ ہونے کی صورت میں خودکشی کی بھی دہمکیاں دی تھی۔

اِس حقیقت سے انکار نہیں ہے کہ بعض اوقات قدرت بھی کچھ فیصلے فوراََ دنیاہی میں کر دیا کرتی ہے وجیہہ الحسن کے ساتھ بھی قانونِ قدرت نے ایساہی کچھ کیا چونکہ یہ مکافاتِ عمل تھا اِس کا یقینا کر لینا چاہئے کہ قدرت جو کرتی ہے وہ ٹھیک ہوتا ہے، ہمیں قدرت کے فیصلوں پر بولنااور قیاس آرائیاں کرکے خود کو گناہ گار نہیں کرناچاہئے ۔پچھلے سال 14 فروری 2013 کو ویلنٹائن ڈے پر لاکھوں کے پھول فروخت کرنے والے گلفروش وجیہہ الحسن کے ساتھ جو ہوا ایسا تو اِس کے ساتھ ہونا ہی تھا کیوں کہ جب ہم ویلنٹائن ڈے پر اپنے کاروبار کو چمکانے اور ذرا سے منافع کے خاطر دوسروں کی بہن بیٹیوں کے لئیپھول فروخت کر کے معاشرے کے نامحرموں کو محبت اور اُلفت کی آڑ میں فحاشی پھیلانے کا موقع فراہم کریں گے تو ہمارے گھر کی بہن بیٹیاں بھی بھلا کیسے کسی نامحرم کی نظرسے محفوظ رہ سکتی ہیں…؟

وجیہہ الحسن کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا گزشتہ سال جب یہ ویلنٹائن ڈے کے موقع پر صبح سے رات گئے تک نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو اپنے بنے ہوئے گلدستے فروخت کرکے خُوب منافع کما کر ہنسی خوشی گھر لوٹا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اِس کی دُکان کے بنائے گئے بے شمار گلدستے اِس کے اپنے گھر پر اِس کے آنے سے پہلے ہی موجود تھے، اور اِس کی چار بیٹیوں میں سے دوبیٹیاں گھر میں موجود نہیں تھیں جب اِس نے اِن معاملات کا اپنی بیوی نزہت سے اِستِفسار کیا تو اِس کا بس ایک ٹکا سا جواب یہ تھا…کہ میں نے بھی تو تمہارے دل کے دروازے پر اِسی ویلنٹائن ڈے پر دستک دی تھی اور میں بھی تو تمہار زندگی میں دن آئی تھی، اور آج تم کونسی عبادت کر کے آرہے ہوں…؟ مسٹر وجیہہ الحسن صاحب ..!سارا دن تم قوم کے لڑکے اور لڑکیوں کو ویلنٹائن ڈے پر محبتوں کے نام پربے حیائی کو پروان چڑھانے کے لئے گلدستے تو فروخت کرتے رہے ہو…؟ آج جب تمہاری شہزادی جیسی حسین و جمیل بیٹیاں اِسی ویلنٹائن ڈے پر نامحرموں سے گلاستے لے آئیں ہیں اور اِن کے ساتھ رنگ ریلیاں منانے نکلی ہوئیں ہیں تو مسٹر وجیہہ الحسن تمہاری غیرت کو جوش آرہا ہے… تب تمہاری غیرت کہاں مرگئی تھی جب تم دن بھر قوم کی بہن اور بیٹیوں کے لئے نامحرم مردوں اور لڑکوں کو گلدستے بیچ رہے تھے…؟اِس کی بیوی نزہت کے منہ میں جو آتا جا رہا تھا وہ کہئے جا رہی تھی… اور میرا دوست وجیہہ الحسن خاموشی سے اِس کی سُنے جا رہا تھا وہ حیران تھا کہ آج بیس سال بعد اِس کی بیوی نے اپنی اصلیت دکھادی تھی اِس کی باتوں کا اِسے بہت صدمہ ہوا اور وہ سینے پر ہاتھ رکھے آہستہ آہستہ زمین پر آتا جا رہا تھا اور پھر یکدم سے وہ زمین پر آگرا اور ایسا گرا کہ اِسے وہ رات اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی موت کی وادی میں دھکیل کر قبر کی آغوش میں جانے کا اعلان کرچکی تھی، اِس کا دل کا دورہ اتنا شدید تھا کہ وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی انتقال کر گیا تھا۔

آج 15 فروری 2014 ہے اور میرے دوست کو دنیا سے رخصت ہوئے ایک سال ہوگیا ہے میں اِس کی قبر پر اِس کے ہی دُکان کے پھول ڈالنے کے بعد فاتحہ پڑھ کر قبرستان سے واپس نکل رہا ہوں تو میرے سامنے تین اور جنازے قبرستان میں آرہے ہیں، شاید اِن میں سے بھی کوئی ایک یاد ویا شاید تین کے تینوں جنازے کسی غیرت مندباپ، بھائی یا ماں کے ہوں جن کی بہن یا بیٹی نے 14فروری 2014 کو منائے جانے والے ویلنٹائن ڈے پر ایساہی کوئی گُل کِھلایا ہواور وہ بھی اِسے گلفروش وجیہہ الحسن کی طرح برداشت نہ کرسکے ہوں اور دنیائے فانی سے منہ موڑکر رخصت ہوگئے ہوں یہ ایک المیہ ہے ہمارے معاشرے کے اُن والدین کے لئے جن کی لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل اولادیں ہیں و ہ اپنی اپنی اولادوں پر کڑی نظر رکھیں صرف اچھی تعلیم دلادینے سے ہی وہ یہ نہ سمجھیں کہ اُنہوں نے اپنی اولادوں کو معاشرے کا اچھا اِنسان بنا دیا ہے

والدین کو چاہئے کہ وہ اچھی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنی اولادوں کی اچھی تربیت بھی کریں اور یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب باپ صرف کما کر دینے کی ذمہ داریوں سے نکل کر اپنی اولادوں کی تربیت کی بھی فکر کریں اور اسی طرح میری قوم کی مائیں اپنے شوہروں کی کمائی کو بیجا خرچ کرنے کے بجائے اپنی اولادوں بیٹیوں اور بیٹوں کی اچھی تربیت کے لئے اپنا کردار ادا کریں کیوں کہ اماں کی گود ہی اِس کی اولاد کی پہلی درس گاہ ہے۔ اور اِسی طرح میرے مُلک کے گلفروش بھائیوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی یہ تہیہ کرلیں کہ اگلے سال جب 14 فروری 2015 کو ساری دنیا سمیت پاکستان میں بھی آزاد خیال اور ہمارا (لڑکے اور لڑکیوں پر مشتمل )نوجوان طبقہ ویلنٹائن ڈے منانے کی تیاریاں کر رہا ہو تو اُس روز میرے مُلک کی ساری گُلفروش منڈیاں معاشرے کو بے حیائی اور غیر اسلامی تہذیب کو پروان چڑھانے سے بچانے کے لئے احتجاجاََ بن رکھی جائیں اِس سے قوم کے نوجوانوں پر مثبت تاثر جائے گااور قوم کے نوجوان بے حیائی اور گمراہی سے بچ جائیں گے اور پھر کسی باپ، ماں اور بھائی کی قبر 15 فروری 2015 کو یوں نہ بن پائے گی جس طرح 15 فروری 2013 کو گلفروش وجیہہ الحسن کی بنی تھی مجھے آج تک اپنے گلفروش دوست وجیہہ الحسن کے یوں مرنے کا یقین نہیں آرہا ہے۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمد اعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com