حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم کائنات کو اللہ کی توحید و اپنی رسالت کا پیغام دینے آئے۔ان دو کاموں کی تکمیل اس ہی طرح ممکن ہو سکتی ہے کہ جب کہ حضور علیہ السلام تمام نفوس کی نفسیات سے واقف ہو کیونکہ ہر شخص کی نفسیات الگ الگ ہو تی ہے جس طرح تمام انسانوں کے چہرے مختلف ہیں اس ہی طرح بنی نوع انسانیت کے تصورات و تفکرات بھی جدا جدا ہے۔ اس لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر شخص کو اس کی نفسیات و طبعت کے مطابق مطمئن کرتے تاکہ وہ حلقہ بگوش اسلام ہو کر اپنی آخرت کو سنوار سکیں ویسے تو تاریخی اوراق ان واقعات سے لبریز ہے پر میں کچھ ایسے اشخاص کا ذکر کرتا ہوں جو کہ نہ صرف دانا تھے بلکہ ان کو اپنے اپنے قبائل کی سیادت بھی حاصل تھی ان ہی میں سے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالی عنہ کے مالک امیہ کے بیٹے بھی تھے یہ وہ امیہ تھا جو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو طرح طرح کی اذیتیں دیتا۔ اور یہ اس امیہ کا بیٹا صفوان تھایہ بھی ان ہی سرداران قریش میں سے ہیں جنہوں نے مقتولان بدرکا بدلہ لینے کے لئے ابو سفیان کو جوش دلایا اور فتح مکہ تک مسلمانوں کے خلاف ہر سازش میں شریک رہا یہا ں تک کہ اسکو خود اس بات کا یقین ہو گیا کہ اگرچہ حضور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رحمة للعلمین ہیں مگر میر اقصور اتنا بڑاہے کہ وہ مجھے قتل کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے جب فتح مکہ کے دن یہ جدہ کوچ کر گئے انکے لئے عمیر بن وہب رضی اللہ تعالی عنہ نے امان طلب کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو پروانہ امان عطا کر دیا اورحضرت عمیر رضی اللہ تعالی عنہ بطور نشانی کے عمامہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لے کے جدہ گئے اور انکو اپنے ساتھ لے آئے یہ جنگ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے اور انکی اسلام دشمنی کا اور کیا کہنا بس یہ ایک ہی جملہ انکی اسلام دشمنی سمجھنے کے لے کافی ہے کہ یہ اپنے والد ہی کے طرح اسلام کے مخالف و دشمن تھے۔
مگر قربان جائوں فخر کو نینۖپہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہ نہ صرف معاف کیا بلکہ یوم حنین جب نگا ہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس صفوان بن امیہ پہ پڑی تو آپ نے ایک سو بکریاں عطا فرمائی پھر جب دوبار دیکھا تو پھر سو بکریاں عطا کی اے روز مین کے تاریخ دانوں بتائو تو کیا روز مین پہ ایسا بھی مجسمہ جود و سخا کسی نے دیکھا نہیں نا۔ اتنی عطا پہ ہی انتہاء نہ ہوئی تیسری بار نگاہ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جب پھر گزر ہوا تو ایک سو بکریاں اور عطا کی (مدارج النبوہ) اور یہ بھی منقول ہے کہ صفوان بن امیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک ایسی وادی سے گزرے جو کہ بکریوں اور اونٹوں سے بھری پڑی تھی جسکو دیکھ کہ صفوان بن امیہ کو تعجب ہونے لگا اور وہ متعجبانہ انداز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھنے لگا اس پہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابو وھب کیا تجھے اس وادی سے تعجب ہو رہا ہے صفوان بن امیہ نے ہاں میں عرض کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اسمیں جو کچھ ہے وہ سب تمہارے لئے ہیں بس یہ جملہ سننا تھا تو وہ عرب کا سردار جس نے اپنی مکمل زندگی اسلام کی دشمنی میں گزار دی جس کی زندگی کا کوئی لمحہ اسلام کے خلاف سازش کرنے سے خالی و عاری نہ تھا مگر رو زمین کی سب سے بڑی سخاوت دیکھ کر بے قابو ہو کہ پکار اٹھا کہ ترجمہ پس صفوان نے کہا کہ میں گوائی دیتا ہوں کہ ایسی مزادلت سوائے نبی کے کو ئی اور نہی کر سکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں (کتاب المغازی باب مسیر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی الجعرانةبعد عودہ من الطائف) یہ کیسا کافر تھا کہ جسکویہ یقین تھا کہ اسلام مذہب باطل ہے مگر جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نفسیات کے مطابق اس کو دلیل دی تو وہ کلمہ توحید پڑھے بن رہ نہ سکے کیونکہ حضور علیہ السلام اسکی نفسیات کو جان چکے تھے کہ ان کے نزدیک معیار نبوت یہ ہے کہ نبی رو زمین کا سب سے زیادہ سخی ہوتا ہے۔
اس لئے حضور علیہ السلام نے ان کو اتنا مال دیا تاکہ اس مال کے سبب وہ اپنے آپ کو نار جحیم سے محفوظ و مامون رکھ سکیں۔ اور ان کے علاوہ بھی سردران کفار کا یہ ذہن تھا کہ معافی و در گزر و عفو و سخاوت نبی کی اوصاف لازمہ میں سے ہیں اس ہی لئے تو وہ آپ کی صفات کاملہ دیکھنے کے باوجود بھی ایمان نہ لائے کیونکہ وہ اپنے اذہان کے مطابق جو د و سخا دیکھنا چاہتے تھے اور حضور علیہ السلام ماہر نفسیات تھے۔
وہ ان کی اس بات کو بخوبی جانتے تھے اس لئے انہوں نے ان کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو مطمئن کر سکیں کہ واقعی یہ اللہ کے نبی ہیں ان ہی سردران عرب میں سے ایک ابو سفیان بھی تھے ان کا ذہن یہ تھاکہ نبی اور غیر نبی میں فرق یہ ہو تا ہے کہ غیر نبی جب کسی ملک کو فتح کرتا ہے تو اس کے مکینوں کو قتل کردیتا ہے ان کی عورتوں کو لونڈیاں بنا لیتا ہے اور بچوں کو غلام بنا کہ اپنی خدمت پہ معمور کر دیتا ہے اورجو نبی ہو تے ہیں وہ معافی عطا فرما دیتے ہیں ابو سفیان وہ شخص تھے کہ جنہوں نے اسلام کے خلاف کسی ایسے موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جس سے اسلام کی ہلکی سی بھی مخالفت ہو سکتی ہو۔ ابو سفیان کے ناقابل معافی جرم ابو سفیان کے ایسے ناقابل معافی جرم تھے مثلا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کومکہ میں تکالیف دینا اور بار بار مدینے پہ حملہ کرنا یہودیوں کو اشتعال دلانا یہ وہ ناقابل معافی جرم تھے جن پہ ایک دفعہ تو کیا ١٠ دفعہ بھی سزائے موت دی جاتی تو کم تھی۔
Hazrat Muhammad PBUH
مگر یہ کوئی دنیاوی دربار نہ تھا بلکہ فخر کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقدس دربار تھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حالت میں بھی اسکی جان بخشی کر دی۔ صرف اس پہ ہی بس نہ کی بلکے اس پہ طرہ امتیاز یہ کہ فرمایا کہ فتخ مکہ کے دن جو کوئی ابو سفیان کے گھر میں چلا جائے اسکو بھی امان ہے کسی روئے زمین کے بادشاہ کی ایسی مثال ہے نہیں۔ نہیں ہو بھی نہیں سکتی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی صرف اس دنیا کے ہی بادشاہ نہیں وہ تو دو جہاانوں کے مالک و مختار ہے ایسی در گزر و عفو سوائے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوا اور کسی میں نہیں پائی جا سکتی انکی اس ہی اخلاق کریمہ کو دیکھ کے ابو سفیان جیسا کافر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن رحمت سے وابسطہ ہو کر ترجمہ اللہ ان سے راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہے (البینہ آیت ٨)کے عظیم منصب پہ فائز ہو گئے۔
یہ بھی حنین کے روز آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آج آپ قریش کے سب سے زیادہ مالدار شخص ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انکی بات پہ مسکرائے اور ابو سفیان نے کہا کہ مجھے اس مال میں سے کچھ عطا فرمائیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم فرمایا کہ ان کو چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دے دو پھر ابو سفیان نے کہا کہ میرے بیٹے یزید کو بھی اس مال میں سے کچھ عطا فرمائیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ان کوبھی چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دے دو پھر ابو سفیان نے کہا کہ میرے بیٹے معاویہ کو بھی اس مال میں سے کچھ عطا فرمائیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت بلال کو حکم فرمایا کہ ان کوبھی چالیس اوقیہ چاندی اور سو اونٹ دے دو۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جود و سخا کو دیکھا تو وہ بھی بے ساختہ بول پڑے کہ ترجمہ ابو سفیان نے کہا کہ آپ کریم ہے پس آپ پہ میرے ماں باپ قربان ہو اور ہم نے آپ سے جنگ کی وہ جنگ بہت اچھی ہے جو آپ نے ہم سے کی پھر اس نے آپ کو سلامت رکھا آپ اچھے سالم ہیں اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے (کتاب المغازی باب مسیر النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الی الجعرانةبعد عودہ من الطائف) اس لئے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے معیار کے مطابق ان کو معاف کیا تو یہ بھی پکار اٹھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں اس کی وضاحت کے لئے کتب تاریخ مالا مال ہے میں نے چند ایک تاریخی حوالے دیئے تاکہ حضور علیہ السلام کے اس باب کیطرف بھی ہماری توجہ ہواور یہ ہماری آخرت کا توشہ بن سکے اللہ تعالی ہم سب کو سعادت کی زندگی و شہادت کی موت نصیب فرمائے۔