درج بالا عنوان کا مضمون ٨ جنوری ١٩٨١ء میں مرحوم روز نامہ امروز لاہور میں شائع ہوأ، یعنی اندازہ لگائیں، جب ٣٢ برس قبل ہمیں زہر کھلانا شروع کر دیا گیا تھا جب ملک آبادی ساڑھے سات کروڑ تھی اور آج جب آبادی ١٨ کروڑ تک پہنچ چکی، تو ہماری خوراک میں کتنا زہر شامل ہو رہا ہے جسے ہم صبح شام کھاتے ہیں، آج کی صورت حال کیا ہو گی کہ ہر دوسرا شخص معدے کے امراض میں مبتلا ہے۔
تیسرا سینے کی بیماری میں…… دوائیں بے اثر ہو چکی ہیں، میڈیکل سٹور ہر قسم کی دواؤں سے بھرے ہیں، قیمتی سے قیمتی دوا موجود ہے مگر بے اثر، کوئی بھی چیز قدرتی ہے یا تیار کردہ وہ ملاوٹ سے پاک نہیں ملے گی، ہماری اشرافیہ جن کے پاس دولت کے انبار ہیں زکام کے علاج کے لئے بھی بیرون ملک جاتے ہیں کہ انہیں یہ علم ہے کہ یہاں، ٢، نمبر دوائیں ہیں…، بہت ہی خوش قسمت ہو گا جسے آج کے دور میں صحت ملی ہے اور ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتا ….آج سے ٤٠ برس قبل ہسپتال کی ڈسپنسری ہی میں تیار کئے شربت جن کے نام ،٢٨، ٢٩ ،٣٠، وغیرہ نمبر اور شربت میڈ ان ڈسپنسری مریضوں کو دیے جاتے۔
موثر ترین دوا جو ہر مرض پر ڈاکٹر تجویز کرتا، انجکشن پنسلین جو جادو اثر رکھتا اور آج یہ پنسلین غائب ہو چکی، کہ آج یہی انجکشن موت کا تیکہ بن گیا کیوں ؟ اس یہ تو طبی ماہرین و سائنس ہی کچھ کہہ سکتے ہیں کل اس میں شفا تھی آج موت کیوں؟ مجھے یاد ہے ایک گولی 693,MB ،اور عام بخار کے لئے کونین ہوأ کرتی تھی جو عرصہ ہوأ یہ بھی بھولی بسری داستان بن گئی ،مجھے یہ بھی یاد ہے کہ کنوئیں سے پانی پیا کرتے، عام لوگ تو خود نکال کر پیتے مگر خواص کے لئے سقّے جو مشکیزوں میں پانی سپالائی کرتے ،تاریخ میں ایک دن ایسا بھی رقم ،ہندستان پے ایک دن سقّہ بادشاہ بنا اور….! پھر یہ ہینڈ پمپ آگیا مگر آج، یہ بھی زہریلا ہے۔
باز ارمیں منرل پانی بوتلوں میں بکتا ہے مگر کیا وہ خالص…؟ آج کسی ایک چیز کے لئے یہ کہا نہیں جا سکتا کہ یہ اپنی قڈرتی حالت میں ملاوٹ سے پاک ، ملے گی…..! ،٣٣،برس قبل لکھا تھا کہ مستقبل میں خالص پانی بھی نایاب ہوگا جو بشم خود دیکھ رہا ہوں، تاریخ بتاتی ہے یہ جو اکثر بڑے شہر ہیں دریا کنارے آباد ہیں کہ قبیلے پانی کی تلاش میں نکلتے اور جہاں دریا یا کہیں پانی نظر آیا وہیں ڈیرے لگا لئے اور جب تاریخ نے ورق پلٹنے شروع کئے تو یہ پانی کی تلاش میں نکلے یہ خا نہ بدوش قبیلوں کی جھگیاں دہاتوں میں بدلیں اور یہی دہات قصبوں میں بدلے اور پھر شہر … تب یہی پانی زندگی تھا اور آج وہی پانی ہمارے لئے زہر ہے، جوہڑوں کی بات اور ہے…. یہ ندی نالوں اور دریاؤں کا بہتا پانی بھی زہر بن چکا ہے۔
Meat
آج کسی کے لئے نمک بند کہ وہ اُس کے لئے زہر، کسی کے لئے میٹھا ممنوع ہے کہ یہ بھی زہر بن گیا، جبکہ نمک اور مٹھاس قدرت، کی انسان کے لئے نعمت تھی،مگر فی زمانہ یہ زہر بن چکی ہیں کیوں؟ آج جو عوام آٹا کھا رہے بخدا، سترے، ببترے جانتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب اس سے بہتر جانوروں کا چارہ تھا جو میں کھانے پر مجبور ہوں ،جو تین چار منٹ میں کھانے کے قابل نہیں … کہ اس میں وہ قدرتی اجزا صحت کے لئے قدرت نے رکھے نکال لئے جاتے اور کچھ مل میں جل جاتے اور باقی، گندم کا فضلہ یا پھوگ رہ جاتا، جو معدے کی بیماریوں اور گیس کا سبب ہوتا ہے.. ہاں جو بڑے زمیندار لاکھوں ایکڑ زمین کے مالک شائد وہ اپنے کھانے کے لئے وہی اِس دھرتی کی خالص دیسی اجناس کاشت کرواتے ہونگے …چالیس برس کا قاری یہ پڑھ کر حیران ہو گا کہ ایک وقت ایسابھی تھا لوگ چربی کے بغیر گوشت پسند نہیں کرتے تھے بلکہ چربی کو روغن کہا جاتا ،جو گوشت چربی کے روغن میں پکے گا اُس کا زائقہ کچھ اور ہی ہوگا تیل یا ڈالڈے میں پکائے گئے گوشت کا وہ ذائقہ نہیں ہو گا مگر آج تو یہ روغن یا چربی بھی زہر ہے بالکل سرخ گوشت لیا جاتا ہے ویسے بھی جو گوشت چالیس برس ملتا تھا وہ آج نہیں…،یہ فہرست تو طویل ہے مگر… اب آگے جو جنوری ٨١ء میں شائع مضمون پڑھیں۔
..”کیا ہمیں زہر کھلایا جا رہا ہے…بڑا عجیب اور بھیانک سوال ہے ،اہل علم اِس پر اکثر خامہ فرسائی کرتے دکھائی دیتے ہیں عالمی سروے رپورٹوں سے بھی جو وقتاًفوقتاً زرائع ابلاغ کے ذریعے ہم تک پہنچتی ہیں ،تو پتہ چلتا ہے آج کا انسان زہر سے پیٹ بھر رہا ہے کہ فضائیں تک زہر الود ہو چکی ہیں اور مسقبل میں خالص پانی بھی نایاب ہو جائے گا اور ہماری آئندہ نسلیں زمین پر بوجھ ہونگی جدیددورکے سائنسدان ہی آج کے انسان کی قدرتی خالص غذا کو زہر آلود کر رہے ہیں اور مادی ترقی بضاہر انسانی خوشحالی کی مظہر کہی جاسکتی ہے، مگر یہ خوشحالی بھی مجموعی طورپر انسان کے لئے سِم قاتل ثابت ہو رہی ہے، انسان نے خدا پر بھروسہ چھوڑ کر اپنے وسائل سے اُن حالات پر قابو پانے کی کوشش شروع کی جو قبضئہ قدرت میں ہیں اور جن کے لئے قدرت نے خود کو زمہ دار قرار دیا ہے اِس وقت دنیا میں غذائی بحران ہے بالخصوص ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کی آبادی میں روز افزوں اضافے کے سبب غذائی بحران کا شکار ہو رہے ہیں۔
حالانکہ یہ بحران بھی انسان ہی کا پیدا کردہ ہے اور اِس پر قابو پانے کے لئے جو نئے نئے تجربے کئے جا رہے ہیں، اِن سے مزید مسائل جنم لے رہے ہیں، مثلاً فصلوں کی پیداوار بڑہانے کے لئے کیمیاوی کھاد بے دریغ استعمال کی جارہی ہے حالانکہ یہ بات عام آدمی کے علم میں بھی آ چکی ہے کہ کیمیاوی کھاد خالصتاً زہر ہے اور اِ س سے جو فصلیں نشوونما پاتی ہیں وہ بھی زہریلی ہو جاتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مغربی سائنسدانوں نے اِسے ترقی پذیر ملکوں میں زیادہ رواج دیا ہے۔
مشرقی ملکوں کی اجناس میں گندم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اِس کی بہتر پیداوار کے لئے اب کھاد استعمال ہوتی ہے جبکہ مغربی ملکوں میں گندم وغیرہ کا استعمال بہت کم ہے اور موسمی حالات اور دوسری بہتر خوراک کے سبب اِن کے جسموں میں کیمیاوی کھاد کا زہر بہت کم مقدار میں پہنچتا ہے اسی وجہ سے وہاں صحت کا معیار بہتر ہے ہمارے ہاں کیمیاوی کھاد اور کیڑے مار دواؤں کا زہر ہرجنس میں شامل ہے حتیٰ کہ دودھ، گھی، گوشت، انڈا اور پھل جیسی اشیاء بھی اِس زہر کے اثرات سے پاک نہیں، حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کھاد کے زیادہ سے زیادہ استعمال سے ملک کو اناج کے معاملہ میں خود کفیل بنایا جائے ،دوسری طرف زمیندار طبقہ بھی زیادہ سے زیادہ فصلیں حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے چنانچہ کھاد کا بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے ،خواص کے متعلق تو ہر شخص کو علم ہے کہ اِن کی خوراک عام آدمی کی خوراک سے مختلف اور بہتر ہوتی ہے مگر عام آدمی جو صرف گندم کی روکھی سوکھی روٹی کھا کر پیٹ کا دوزخ بھرنے پر مجبور ہے۔
بلا مبالغہ کہا جا سکتا ہے کہ زہر سے پیٹ بھر رہا ہے ماضی میں بر صغیر میں عام صحت کا معیار قابلِ رشک تھا ،مگر جب سے مغربی ملکوں سے کیمیاوی کھاد کا زہر مشرقی ملکوں کو فراہم کرنا شروع کیا ہے یہاں صحت کامیعار ہی نہیں گرا لوگوں کے قد وقامت بھی کم ہو گئے ہیں کیمیاوی کھاد کے زہر نے انسانی جسم میں قوت ِ مدافعت کے جرثوموں کو شل کر دیا ہے اور عام آدمی معمولی بیماری کا مقابلہ کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتا یہی نہیں دوائیں بھی اپنا اثر کھو رہی ہیں، اس کا مشاہدہ ہسپتالوں میں کیا جا سکتا ہے، حالانکہ ماضی قریب کا زمانہ ہی دیکھ لیجئے نہ ہسپتالوں کی اتنی بڑی تعداد تھی اور نہ ہی ایسی پیچیدہ بیماریاں عام تھیں اور عام آدمی کی صحت بھی قابلِ رشک تھی کیونکہ اس وقت موسمی حالات اور ماحول کے مطابق قدرتی غذا میّسر تھی اس کے علاوہ دودھ، گھی اور گوشت بھی خالص دستیاب تھے۔