دہشت گردی، آخر کب تک؟

Suicide Attack

Suicide Attack

پچھلے دنوں ایک مزار پر حاضری کا شرف ملا۔ ابھی چوکھٹ کراس کرنے ہی لگا تھاکہ ایک بزرگ کے رونے کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائی۔ نظر اس طرف اٹھی تو دیکھا ایک سفید ڈارھی والا، کمزور سا بدن، پھٹے پرانے لباس میں ملبوس بزرگ روتے ہوئے میری طرف بڑھ رہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرے سینے سے لگ گیا۔ میں حیران و ششدر بس اسے دلاسے دیتا رہا۔ نجانے یہ کون تھا، میں نہیں جانتا تھا، جو بھی تھا کسی گہرے غم میں تھا جب اس بزرگ نے مجھے بیٹا کہا تو میں سب سمجھ گیا۔ بزرگ مجھے بوسے دے رہا تھا۔ میں انہین تسلیاں دیتا رہا۔ ان بوڑھی آنکھوں کے ساتھ میری بھی آنکھیں چھم چھم برسنے لگی۔ علم ہوا کہ ایک سال قبل اس جوان کا بیٹا اسی مزار پر زیارت کرنے آیا تھا۔ مگر واپس نہ پلٹ پایا۔ خودکش حملے نے اس نوجوان کی جان لے لی۔ تب سے یہ بزرگ گھر کا راستہ بھول گیا ہے۔ اور اپنے لخت جگر کو ڈھونڈتا پھرتا ہے۔

شاید میری شکل و صورت اس کے بیٹے سے ملتی ہو۔ اسی لئے تو مجھ سے لپیٹ گیا تھا۔ میں سب سمجھ چکا تھا۔ ستیاناس ہو، ان دہشتگردوں کا، جنہوں نے میرے ملک کا امن تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ سوچ طلب بات ہے کہ یہ میرے ملک کی سرحدیں کیسے عبور کر آئے۔ ملک پاکستان کا چپہ چپہ دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ نہ شہر محفوظ ہیں، نہ دیہات، نہ بازار، نہ مسجدیں، کبھی مزار دھماکوں سے لزر اٹھتے ہیں، تو بازار ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ مسلمان نجانے کس جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ نہ وہ اپنی عبادت گاہوں میں محفوظ ہیں، نہ گھروں میں۔ ان کے چہرے خوف زدہ ہیں، ان کے بچے سہمے ہوئے ہیں۔ سکولوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حتی کہ گلی، کوچے میں دہشت گردی کا گھوڑا ناچ رہا ہے۔

Karachi

Karachi

کراچی کو دیکھ لیں، عرصے سے آگ اُگل رہا ہے۔ آئے روز گئی جانیں ختم ہو رہی ہیں۔ کہیں انسانی اعضا درختوں پر لٹکے نظر آتے ہیں، تو کہیں بھیڑ، بکری کے گوشت کی طرح خون میں لت پت کسی چوراہے پر پڑے ہیں۔ بوری بند لاشوں کے تحفے دیئے جاتے ہیں۔ ہماری عزتوں کی ڈھچیاں اڑ رہی ہیں۔ہم پھر بھی جی رہے ہیں۔ عوام کا سکون برباد ہو کر رہ گیا ہے۔

کوئٹہ کو دیکھیں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ کبھی فرقہ واریت کے نام پرحملے، کبھی بازاروں میں کبھی پپلک پوائنٹ پر آئے روز خود کش حملے ہو رہے ہیں۔ کئی سہاگ اجڑ گئے ہیں، کئی اجڑ رہے ہیں۔ کئی بچے یتیم ہو گئے ہیں۔ کسی کا بھائی بچھڑ گیاتو کسی کی بہن دھماکے کی نظر ہو گئی۔ کسی کا باپ تو کسی کا بیٹااس کی زد میں ہے۔ ہر طرف خوف و ہراس کی فضا قائم ہے۔ کئی بچے معذور ہوکر محتاجی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔

سوچ طلب بات ہے ہمارے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں، ہمارے راڈر کام کرتے ہیں۔ بہادر جان باز بھی ہیں۔ سرحدیں بھی محفوظ ہیں تو پھر یہ دہشت گرد آئے تو آئے کہاں سے۔؟ کسی کے پاس جواب ہے۔کہاں سے پیدا ہوئے۔ْ ان کا باپ کون ہے۔ ان کو ہتھیار کون سپلائی کرتا ہے۔ ان کی سپورٹ کون کر رہا ہے۔ ہم دہشت گردی کی جنگ میں ساتھ دینے گئے تھے ارو خود ہی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ہمیں ہی سزا کیوں مل رہی ہے۔ یہ سزاصرف پاکستان کو ہی کیوں دی جارہی ہے۔ کوئی دوسرا ملک اس کی لپیٹ میں کیوں نہیں آتا۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ کا پورا پورا ساتھ دیا پھر یہ کیا دہشت گردی کا ٹھپا پاکستان کے ماتھے پر کیوں۔ یہ ایوارڈ کسی دوسرے ملک کے نام کیوں نہیں ہوا۔ دہشت گردی کے جن نے جہاں ہر گلی، محلے کوسنسان کر دیا ہے۔ وہاں کھیل کے میدان بھی ویران ہو کر رہ گئے ہیں۔ بیرون ملک کی کوئی بھی ٹیم ہمارے ہاں آنے کو تیا ر نہیں۔ مجبورا ہم ہی ہار مان رہے ہیں۔ آخر ہم کو ہی کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟۔

ہماری حکومت ان کے آگے بے بس ہے۔ صرف کھوکھلے نعرے، وعظ و بیان، پیپرز کالے کیے جاتے ہیں۔ عمل کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بس عوام کو کٹتے دیکھتے رہتے ہیں۔ آخر کیوں؟ دہشتگردی کا جن کب تک دنڈناتا پھرتا رہے گا۔ دہشت گردی کے اس منہ زور گھوڑے کو روکنا ہو گا۔ اب وقت آگیا ہے کہ مرد میدان بن کر دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے جائیں۔ ان کو بتا دیں کہ پاکستان کا ہر شہری اپنی جان پر کھیل کر اپنے ملک کا دفاع کر سکتا ہے۔ اس لئے حکومت کو ڈوران بند کرانے کی بھیک نہیں مانگنی چاہیے۔ بلکہ ایران کی طرح ڈوران پکڑنے چاہیے ۔تاکہ ان کو بھی علم ہو کہ ہمارے پاس بھی سب کچھ ہے۔ جو خود بھوکا گنگال ہے۔ ہم چلے ہیں ان سے مانگنے۔ اب کشکول توڑنا ہو گا۔دہشت گردی کے اس گھوڑے کو لنگاڑہ، لولہ کرکے موت کے گھاٹ اتارنا ہو گا، کیونکہ اب ہم مزید بچے معذور نہیں کرا سکتے۔ دولہنیں بیوہ ہوتی نہیں دیکھی جاتیں۔ مزید سہاگ اجڑنے سے بچانے ہیں۔ پاکستان کو محفوظ بنا نا ہے۔ تاکہ پاکستان کا ہر شہری امن و سکون سے زندگی بسر کر سکے۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمدجائی ملتانی