صحراؤں کے باسی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سمت منزل سے کہیں زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ راہ کھوٹی ہو جائے تو انسان دائروں کا راہی بن کر ماہی بے آب کی طرح تڑپتا بھی ہے اور ترستا بھی۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسے میں ہر اٹھتا قدم منزل سے دور کرتا، جذبے پست کرتا، توانائیوں ضائع کرتا اور بے سمت کرتا چلا جاتا ہے۔ یوں منزل کی خواہش حسرت میں ڈھل اور ہر کاوش پریشانی میں بدل جاتی ہے۔
بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ قافلے ایک بڑے ٹیلے کے گرد مسلسل سفر میں راستے کی گرد بن جایا کرتے ہیں۔۔ہماری سرکار کے طالبان سے مذاکرات بھی مجھے وہی سفر لگتا ہے۔۔۔سفرِ رائیگا جانے کیوں یہ مذاکرات مجھے ہضم ہی نہیں ہوپائے۔ یار لوگوں نے اس پر اتنا لکھاکہ اس حوالے سے اپنا یہ پہلا کالم مجھے علمی جگالی سے بھی بڑھ کر لگ رہا ہے لیکن کراچی میں طالبان گردی اور ایف سی اہلکاروں کی المناک شہادت کے بعد اس موضوع پر خاموشی علمی بددیانتی ہی نہیں بے حسی بھی ہوتی۔۔۔۔۔۔۔ سو خود کو روک نہیں پایا۔۔۔اس اہم اور نازک ترین ایشو پر حکومتی خاموشی، نااہلی، غیر سنجیدگی اور غفلت دہشت گردی سے کہیں بڑا المیہ ہے۔
تاریخِ عالم گواہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کو اس سے کہیں بڑی، شدید اور بدترین دہشت گردی کا سامنا رہا (دور نہ جائیں سری لنکا کو ہی لے لیں) لیکن کسی ملک نے ہماری حکومتوں جیسی بے حسی دکھائی اور نہ یوں بے بس و بے دست و پا نظر آیا۔ المیہ دیکھیں کہ سیاسی حلقے ہوں یا سلامتی کے ذمہ دار ادارے، یہی رونا روتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہم نے اس جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔
جانے یہ لوگ مظلوم عوام کو کیوں بھول جاتے ہیں جن کے پیارے اس دہشت گردی کا ایندھن بنے اورگھر کے واحد کفیل رزقِ خاک ہو گئے۔ گھر کے چولہے ٹھنڈے پڑ گئے لیکن جو آگ وارثان کے سینے میں جلی وہ اب تک سلگتی،آٹھ آٹھ آنسو رلاتی اورانکا سینہ جلاتی ہے۔ کاش یہ متحدہ کے ”کارکن” ہوتے۔۔ کم از کم ان کے نام پر اسمبلی اور سڑکوں پر ہنگامہ اور ڈرامہ تو ہو رہا ہوتا۔علاج نہ سہی خالی خولی تسلی ہی سہی۔۔۔۔۔ دہشت گردوں کی بے رحمی اپنی جگہ ایک سانحہ ہے تو حکام بالا، میڈیا، سیاسی جماعتوں اور مذہبی جماعتوں کی غیر سنجیدگی ایک بہت بڑا المیہ۔ جو افسوس ناک ہی نہیں قابلِ مذمت بھی ہے۔
اس حوالے سے حکومتی رویہ اول روز سے لاپرواہی کا حامل اور خیر خواہی کے عنصر سے یکسر عا ری دکھائی دیا۔ اس اہم ترین مسئلے پر سابقہ و موجودہ حکومت نے جس بے حسی اور غفلت کا مظاہرہ کیا اس مثال کم از کم عہدِ جدید میں تو ہرگز نہیں ملتی۔ اپنے انتخابی دعوؤں اور تمام تر بڑکوں کے برعکس نئی سرکار کا”ٹھنڈا ٹھار ”طرزِ عمل اس قوم سے بدترین مذاق نہیں تو اور کیا ہے۔ کئی ماہ ضائع کرنے کے بعد سیاسی جماعتوں کا میلہ سجایا گیا تو اس کا جو واحد مثبت پہلو سامنے آیا تھا وہ مذاکرات کا متفقہ اعلامیہ تھا۔
ایسا کم کم ہوا ہے کہ سیاسی جماعتیں اور قوم کسی ایک نقطے ہر ایک ہوئے ہوں لیکن افسوس ”نادار”حکومت نے یہ نادر موقع حرام مال کی طرح ضائع کر دیا۔ (دو مولوی حضرات کی باہمی کھینچا تانی کا سارا ملبہ بھی حکومت پر گرا اور یہ جائز بھی ہے کہ وہ دونوں حضرات بالکل غیر موئثر ہو چکے ہیں ایسے میں سفید ہاتھی پالنا اپنے اندر کونسی دانش رکھتا ہے اس کا جواب اور جوازکم از کم حکومتی حلقوں میں تو ہرگز نہیں ہے)۔ پاک سرکار کئی ماہ سوئی رہی لیکن قوم کو اس بے وقت کی طویل نیند کی وجہ آج تک بتائی نہیں گئی۔
Prime Minister Pakistan
وزیرِ اعظم ایک عرصے کی غیر حاضری کے بعد ایوان کا وقار بڑھانے کے لئے (ایوان کی بے توقیری کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہو کہ وزیر تک دستیاب نہیں ہوتے۔ قوم نہیں بھولی کہ یہ وہی لوگ ہیں جو آئین ،جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالاستی کی مالا جپتے نہ تھکتے تھے) تشریف لائے تو بھی اس بارے میں بھولے سے بھی ایک لفظ منہ سے نہ نکلا۔ پھر ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں ایک بھی حکومتی عہدیدار کو شامل نہ فرما کر پہلے روز سے ہی مشکوک بنا دیا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ اس تاثر کو بھی تقویت بخشی کہ ہماری سرکار دوسروں کے کندھے استعمال کر کے اس سارے عمل سے خود کو ایک حد تک دور اور محفوظ رکھنا چاہتی ہے۔
معاصر کالم نگار وجاہت علی خان کا یہ نکتہ کتنا وزنی ہے کہ مذاکراتی عمل ہمیشہ اعلی قیادت کے درمیان ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کی برعکس تصویر حکومتی رویے میں غیر سنجیدگی کی مظہر ہے۔ کہا گیا کہ جنگ بندی سے زیادہ زبان بندی ضروری ہے۔ حالانکہ ان دونوں سے پیش بندی زیادہ ضروری تھی جو اگر کر لی جاتی تو ابتدائی دو باتیں عملاً نظر بھی آتیں لیکن کوئی ہوم ورک کئے بنا ایک بے کار کی مشق شروع کر دی گئی جس کا بھیانک نتیجہ آج یہ برآمد ہوا کہ قوم کا اعتماد ہی اس سارے عمل سے اٹھ گیا ہے۔”بدخواہ”جو پیشگوئیاں پیش فرما رہے تھے وہی پوری ہوئیں اور مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو کر رہ گئے۔۔۔مذاکرات کی طرف پیش قدمی سے پیشتر پیش بندی کر لی جاتی تو یہ سب شاید نہ ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔پیش بین ہوتے تو ان سے یہ تساہل پیش نہ آتا۔افسوس مذاکراتی عمل میں پیش پیش کمیٹی کے ارکان کے پیش نظربھی شاید کمیٹی میں شمولیت ہی سب کچھ تھاسو وہ بھی کچھ ایسا پیش نہ کر پائے کہ جو کسی پیش رفت کا باعث ہوتا۔اور یوں رفتہ رفتہ ہر پیشی پر انکی پیشوائی کا پول کھلتا چلا گیا۔ سو پس وپیش کے باوجود وہی ہواکہ بدخواہوں نے جس کی پیشن گوئی مذاکرات سے پیشتر فرمادی تھی۔ پاک سرکاریہ تک نہ سمجھ پائی کہ طالبان نے اس میں براہِ راست شریک نہ ہو کر اور خود کو ایک محظوظ فاصلے پر رکھ کر ”صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں”کی عملی تفسیر پیش کرتے ہوئے انکی آنکھوں میں دھول جھونکی۔ آنکھیں بند ہوں تو پتہ ہی کب چلتا ہے؟؟؟؟ امن مذاکرات کے حوالے سے مذہبی سیاسی جماعتوں کا کردار ہمیشہ کی طرح حددرجہ مایوس کن بلکہ گمراہ کن رہا۔ بالخصوص طالبان کے حامی وہم مسلک عناصر لایعنی بحثوں سے زخم خوردہ قوم کے زخموں پر نمک پاشی فرماتے رہے۔
وہ اب بھی ہمارا احترام کرتے ہیں، ہمارے اپنے بچے ہیں، ہمیں ان سے ہمدردی ہے، اسامہ اور محسود شہید ہیں، امریکی ہاتھوں مارا گیا کتا بھی شہید ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ جیسے اخلاقی اقدار سے عاری و سفاکانہ فرمودات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ پیشوائی کی صلاحیت تو رہی ایک طرف ان سے اشک شوئی کی بھی امید عبث ہے۔ حکومت کو عدم سنجیدگی کا بڑھ بڑھ کر طعنہ دینے والوں کو یہ توفیق ہوئی نہ جرات کہ وہ فتنہ گر عناصر کو یہ کہہ پاتے ”آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں ”۔شکایت کے ڈر سے انکی مجرمانہ خاموشی نہ ٹوٹی۔ کوئی جرگے کا راغ الاپتا رہا تو کوئی مسلسل اس کوشش میں رہا کہ سوائے اس کے باقی سارے آؤٹ ہو جائیں۔ جبکہ ایک جماعت کے امیر اپنے بے سروپا بیانات سے پہلے سے کہیں زیادہ متنازعہ ہوتے چلے گئے ۔جماعت ہو یا جمعیت، ہر ایک نے یہ واضح کر دیا کہ ”بیل کے گھر سے لسی کی امید” دنیا کی سب سے بڑی حماقت ہے۔ ”سیاہ سی” جماعتوں کی سیاہ سی حکمت عملی الزام تراشی اور پوائنٹ سکورنگ تک محدود رہی۔ کپتان نے مذاکرات کی شب وروز حمایت سے اپنی سیاسی ساکھ داؤ پرلگا دی۔ یہی وجہ ہے طالبان کی طرف سے نام تجویز ہوا خوب جگ ہنسائی ہوئی۔ مخالفین اسے لے اڑے اور بارپھر ثابت کیا کہ سیاست دانوں کے سینے میں دل ہوتا ہے نہ بھیجے میں دماغ۔ پی پی پی کا کردار بطور خاص عامیانہ رہا۔ اس کے نوجوان رہنما نے جسے اپنی غیر منظقی بلکہ ہوائی باتوں سے اور زیادہ ہوا دی۔ میڈیا نے پہلے سے بھی بڑھ کر” بستی کے نائی” کا کردار ادا کیا جس کا مطمع نظر جھوٹی سچی خبریں پھیلانا ہوتا ہے اور بس۔ کاش انہیں احساس ہوتا کہ بے پر کی اڑانا ملکی مفاد میں ہے اور ان کا منصب ہے۔جانے یہ دھندلا آئینہ کب صاف ہو گا اور اپنی ذمہ داریاں بطریقِ احسن نبھانے میں کامیاب ہو گا۔ فتنہ گر دہشت گردوں کے بیانات کو جلی سرخیوں میں شائع کرنا، بریکنگ نیوزکا موضوع بنانا، خواہش کو خبر کا روپ دینا،برقعہ پوش مجاہد کو ٹی وی سکرین پر لانے میں بڑھ چڑھ کر پیش کرنا، طالبان کے مطالبات سامنے لانے میں ہر حد کو عبور کرنا اور قیاس آرائیوں کو بڑھ چڑھ کر یوں سامنے لانا جیسے یہ مطالبان طالبان کے نہ ہو انکے ذاتی ہو، یہ اور اس جیسے کئی کارنامے میڈیا کے بے سمت سفر کی واضح طو رسے عکاسی کرتے ہیں۔ جہاں اتنی پھرتیاں دکھائی ہیں وہاں اے کاش ہمت کر کے برقعہ پوش مجاہد سے ایک سوال یہ بھی کرلیتے کہ حضور کل تک آپ تصویر کا حرام کہتے ہیںپھر یہ نیا الہام آپ کو کب ہوا کہ آج آپ کیمرے کی جان نہیں چھوڑتے۔
آخر میں پاک سرکا ر سے عرض ہے کہ آپ پر جوسنجیدہ نہ ہونے کا الزام بڑے تواتر سے لگایا جاتا ہے، وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں۔ وہ بڑی سنجیدگی سے قتل عام فرما رہے ہیں اور آپ امن کی بحالی اور انکے ہاتھ توڑنے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں۔ خدارا اب تو ہوش میں آجائیں کہ آپ کی حکمت عملی ان کے مضبوط کر رہی ہے۔ مان لیا گیس آپ کے پاس نہیں، بجلی آپ نہیں دے سکتے، اشیائے صرف کی قیمتیں آپ کم نہیں کر پاتے، پٹرول بم گرانے سے آپ تائب نہیں ہو سکتے، ورثے میں ملے مسائل آپ سے حل نہیں ہوتے، قرض کی مئے آپ سے نہیں چھٹتی، منی بجٹ آپ سے نہیں رکتے، کم از کم امن کے لئے ہی کوئی سنجیدہ کوشش کر لیتے۔ جو بس میں ہے اس پر بے بسی آپ کی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے۔ حکومت، حکمت سے کی جاتی ہے۔ حکمت کو راستہ عبرت کی روشنی دکھاتی ہے۔ ہماری سرکارکو جس کے لئے صرف خود پر نظر کرنی ہے کہ غلطیوں میں خاصی خود کفیل ہے۔ انسان کو اپنی غلطیاں اور ناکامیاں بہت سکھاتی ہیں۔ کوئی نہ سیکھے تو یہ بہت بڑی حماقت شمار ہوتی ہے اور حماقت پاگل پن سے کہیں سنگین جرم ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ پاک سرکار اپنی غلطیوں کی تلافی کرے۔۔ آخر کب تک یہ کہہ کو قوم کا منہ چڑایا جاتا رہے گا ”اب کے مار کے دکھاؤ ذرا۔۔۔۔۔۔۔۔ ”تو کیا میں اسے انکار سمجھوں ”۔۔۔۔۔۔۔