اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد کی ایک عدالت نے پرویز مشرف کیخلاف درخواست خارج کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ سابق صدر کی جانب سے امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دینے کا کوئی تحریری ثبوت یا معاہدہ سامنے نہیں لایا گیا۔
ایڈیشنل سیشن جج محمد عدنان نے شہری زاہد غنی کی سیکشن 22 اے کے تحت دائردرخواست کی سماعت کی جس میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف نے امریکا کو ڈرون حملوں کی اجازت دیکر 1569 بیگناہ معصوم خواتین، بچوں اور دیگر شہریوں کا قتل عام کرایا۔
درخواست میں کہا گیا ڈرون حملوں کی اجازت امریکا میں تعینات اس وقت کے پاکستانی سفیر جاوید اشرف قاضی کے ذریعے دی گئی اور شمسی ایئربیس بھی امریکا کے حوالے کیا گیا جہاں 150 امریکی فوجی تعینات رہے اور انھوں نے وہاں 24 پاکستانیوں کو بھی قتل کیا۔
امریکہ نے مجموعی طور پر جون 2004 سے جولائی 2013 تک 379 ڈرون حملے کیے، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی ڈرون حملوں میں معصوم اور گناہ شہریوں کے قتل عام کی مذمت کی تھی۔
امریکی ڈرون حملوں میں صرف 169 طالبان مارے گئے باقی سب معصوم شہری تھے۔ درخواست میں سابق صدر کیخلاف تھانہ سیکریٹریٹ اسلام آباد میں مقدمہ درج کرنے کی استدعا کی گئی تھی تاہم عدالت نے اسے عدم ثبوت پر خارج کر دیا۔