چور مچائے شور خزانہ خالی ہے؟

Pakistan

Pakistan

یہ بات بڑی پرانی ہے لیکن حقیقت پر مبنی ہے کہ چور، ڈاکو اپنے کام مکمل کرنے کے بعد ہزار جھوٹ بولتے ہے لیکن حقیقت کبھی نہ کبھی سامنے آ جاتی ہے کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے لیکن قدرت کا نظام وہی ہے۔ پاکستان میں ملک وقوم کی قسمت بدلنے والوں کا یہ عالم ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ہر امیدوار کی طرف سے کروڑوں روپے صرف کئے جاتے ہیں۔

اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ برس ہونے والے انتخابات کے دوران اخراجات کی حد مقرر کی تھی لیکن شاید ہی کسی امیدوار نے اس پابندی کا احترام کیا ہو۔ جس طرح دیگر قانون توڑنے پر ان قانون سازوں کا کچھ بگاڑا نہیں جا سکتا ، اسی طرح الیکشن کمیشن کے مقررہ کردہ قواعد و ضوابط کو پامال کرنے پر بھی کسی کا بال بیکا نہیں ہو سکا۔

اس لئے ملک کا عام آدمی یہ سمجھنے پر مجبور ہو چکا ہے کہ قانون صرف کمزور اور مجبور لوگوں کے لئے بنائے جاتے ہیں۔ جو لوگ انہیں توڑنے اور پامال کرنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں وہ دیدہ دلیری سے انہیں روندتے ہیں اور کوئی بھی ان سے جوابدہی نہیں کر سکتا۔

پاکستان کے عوام کی اس عام تفہیم سے قطع نظر کہ ملک پر امراء اور جاگیرداروں کی حکومت ہے ، اب یہ واضح ہوا ہے کہ ملک کی اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان اور حکومتوں میں شامل بزرجم ہران کافی حد تک غریب اور کسی حد تک اوسط آمدنی کے حامل ہیں۔

چندروز قبل حکومت پاکستان نے ملک کی اسمبلیوں کے ارکان کی ٹیکس ڈائریکٹری شائع کر دی ہے۔ اس طرح اس ملک پر نسل در نسل حکومت کرنے والوں کی آمدنی کے علاوہ ان کی عوام سے محبت کا کچا چٹھا بھی سب کے سامنے آ گیا ہے۔ اس ڈائریکٹری میں جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق سینیٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے 1172 ارکان میں سے 1072 نے گزشتہ مالی سال کے ٹیکس گوشوارے جمع کروائے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور ایف بی آر کے بار بار انتباہ کے باوجود ایک سو سے زائد ارکان اسمبلی نے ٹیکس ریٹرن جمع کروانے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ ان میں 14 سینیٹر، 23 ارکان قومی اسمبلی اور 64 صوبائی اسمبلیوں کے ارکان شامل ہیں۔

قانونی طور پر بروقت ٹیکس کے گوشوارے جمع نہ کروانا قابل سزا جرم ہے۔ اگرچہ اس جرم پر محض جرمانہ کی سزا دی جا سکتی ہے لیکن یہ پاکستان کے قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ اس طرح کم از کم ایک سو ارکان اسمبلی کے بارے میں پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے انہی قوانین کو پامال کیا ہے جن کو بنانے اور جن پر عملدرآمد کروانے کی ذمے داری انہیں سونپی گئی تھی۔

ٹیکس ڈائریکٹری میں سامنے آنے والی دیگر معلومات کے مطابق 449 ارکان نے محض چند سو روپے یا صفر ٹیکس ادا کیا ہے۔ ان میں کثیر تعداد ایسے ارکان کی بھی ہے جو ٹیکس ڈیفالٹر ہیں۔ یہ بھی ایک قابل سزا جرم ہے۔ اس پر عملدرآمد ہونے کی صورت میں متعدد ارکان اپنی نشستوں سے محروم ہو سکتے ہیں۔ تاہم ہمارے معاشرے کے ان طاقتور مگرمچھوں کو اس بات کا یقین ہے کہ ایف بی آر کی طرف سے ڈائریکٹری شائع کرنے اور میڈیا میں اس حوالے سے طویل مباحث ہونے کے باوجود کوئی بااختیار ادارہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکے گا۔ اس لئے وہ خاموش اور مطمئن ہیں۔ ایک ہزار سے بھی کم یا زیرو ٹیکس ادا کرنے والوں میں 3 سینیٹر، 108 ارکان قومی اسمبلی اور 339 مختلف صوبائی اسمبلیوں کے ارکان شامل ہیں۔

ملک کے جن لیڈروں نے ٹیکس ادا کیا ہے ان میں سے وزیراعظم میاں نواز شریف نے 26 لاکھ 64 ہزار ، اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے 64 ہزار ، وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے 36 لاکھ 44 ہزار ، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے 33 ہزار 724، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے 3 لاکھ 494 اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا۔ اس طرح ملک کے سربر آوردہ لیڈروں میں سے کسی نے بھی حکومت کی طرف سے عائد کی جانے والی انکم سپورٹ لیوی ISL ادا نہیں کی ہے۔

Tax

Tax

نصف فیصد کی مقدار سے یہ مخصوص ٹیکس امیر لوگوں سے لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا تا کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے بے نظیر انکم سپورٹ اور اس قسم کے دوسرے فلاحی منصوبوں کے لئے وسائل فراہم ہو سکیں۔ جن ارکان اسمبلی نے ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی زحمت گوارا نہیں کی ان میں مخدوم امین فہیم، محمود خان اچکزئی اور دیگر متعدد اہم ارکان شامل ہیں۔ اس طرح یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اگرچہ تقریباً تمام قومی مسائل پر سرکاری اور اپوزیشن پارٹیوں میں متعدد اختلافات موجود ہیں لیکن ٹیکس ادا کرنے اور اپنی ذاتی آمدنی کا حساب فراہم کرنے کے معاملے میں اپوزیشن اور سرکاری پارٹیوں میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔ قانون شکنی کرنے والوں میں حکومت میں شامل ارکان کے علاوہ اپوزیشن رکن بھی شامل ہیں۔

بتایاجاتاہے کہ ارکان اسمبلی کی طرف سے ادا کئے گئے یا نہ کئے گئے ٹیکس کے بارے میں یہ معلومات بہت سے لوگوں کے لئے حیرت اور پریشانی کا سبب ہوں گی۔ یہ بات زبان زد عام و خاص ہے کہ انتخابات کے دوران مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ لینے کے لئے امیدوار خطیر رقوم پارٹی فنڈز میں جمع کرواتے ہیں۔ تاہم جب سرکاری خزانے میں ٹیکس دینے اور اپنی آمدنی کا حساب دینے کا وقت آتا ہے تو لاکھوں کے حساب سے چندہ دینے یا ٹکٹ خریدنے کی قیمت ادا کرنے والے یہ امیدوار تہی دست اور کسی حد تک مفلس ثابت ہوتے ہیں۔انتخابات کے دوران اور ملک میں نئی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد تسلسل سے یہ بات کی جا رہی ہے کہ قومی خزانے میں وسائل کی کمی ہے۔ حکومت نوٹ چھاپ کر یا آئی ایم ایف سے مہنگے اور مشکل قرضے لے کر خسارہ پورا کرنے پر مجبور ہے۔ ذمہ دار حلقے بار بار یہ یاد دہانی کروا چکے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے انکم ٹیکس ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ضروری ہے۔ لوگوں میں اپنی آمدنیوں پر ٹیکس ادا کرنے کا رجحان نہیں ہے۔ ملک کی بہتری اور بہبود کے لئے اس رویہ اور مزاج کو بدلنا ضروری ہے۔

تاہم ضروری ہے کہ اس کے لئے ملک کے لیڈر مثالی کردار ادا کریں اور قومی خزانے میں اپنی اصل آمدنی پر پوری دیانتداری سے ٹیکس ادا کریں۔ لیکن یہ احساس عام ہونا تو کجا ابھی تک خواص کو بھی متاثر نہیں کر سکا ہے۔ اس لئے ملک میں انکم ٹیکس کی مد میں قومی آمدنی میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ ملک کے متعدد بڑے سیاستدانوں نے بیرون ملک قیمتی املاک اور وسیع کاروبار کئے ہوئے ہیں۔ ایک طرف یہ لیڈر دنیا بھر کے ملکوں میں صنعتکاروں اور سرمایہ داروں سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی اپیل کرتے ہیں لیکن دوسری طرف اپنے ہی ملک سے حاصل کئے ہوئے وسائل کو بیرون ملک اسمگل کر کے وہاں تجارت میں مشغول رہتے ہیں۔ ملک میں ایسا کوئی نظام استوار نہیں ہے جس کے تحت حکومت میں شامل یا اسمبلی کے رکن بننے والوں کی بیرون ملک املاک کا حساب لیا جا سکے۔ یا یہ سیاستدان خود بیرون ملک حاصل ہونے والی آمدنی پر حکومت پاکستان کو ٹیکس دینے کا حوصلہ کرتے ہوں۔

مبصرین کا خیال ہے کہ ضرورت اس امرکی ہے کہ ملک کے مسائل اور معاملات کے حوالے سے فیصلے کرنے والا یہ طبقہ جب تک خود قانون کا احترام کرنے اور مثال قائم کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہو گا پاکستان کی اقتصادی حالت اور سماجی رویہ تبدیل ہونا ممکن نہیں ہے۔ورنہ یہی ہو گا کہ ”چور مچائے شور” خزانہ خالی ہے؟

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ