٢٠٠١ ، سے ملک میں طالبان نے حکومتی رٹ کے خلاف اسلحہ اُٹھایاجس میں ٠٤میں شدت آئی ،کوئی ایسا مقام نہیں کہا جا سکتا کہ جو اِن کے حملوں سے بچا ہو کوئی نہیں اور تادم تحریر ٥٠ ہزار سے جن میں آٹھ ہزار فوجی جوان اور فیلڈ آفیسران بھی مارے گئے اگر یہ لوگ کسی دشمن ملک کے ساتھ جنگ میں شہید ہوں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ ملک کے دفاع میں شہید ہوئے مگر یہاں تو ایسا نہیں بلکہ اپنوں سے اور بعض اہل فکر تو یہ تک کہتے ہیں ہمیں کسی بیرونی دشمن سے وہ خطرہ نہیں جو اِن مار آستینوں سے ہے کیونکہ یہ ہم سے ہیں اور یہ کھلے واضح دشمن سے زیادہ خطرناک بھی،مگر اِن کے علاوہ تو وہ جو ہمہ وقت اِن کی وکالت کرتے اور اِن کے لئے نہ صرف نرم گوشہ بلکہ حکومت اور فوج تک پر تنقید کرتے گزشتہ جمعہ کے اجتماع میں جنا ب پروفیسر حافظ محمد سعید نے فرمایا بم دھماکے اور دہشت گردی کی وارداتوں سے دین اسلام کو بدنام کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔
ادب سے گزارش ہے کہ یہ تو قوم کو بتائیں کہ یہ بم دھماکے اور دہشت گردی کی وار داتیں کون لوگ کر رہے ہیں اِن کا زمہ دار کون ہے ،یہ بات ایک طرف مساجد،امام باگاہوں ، مزارات پر پرخود کش حملے ،بلکہ عید کے موقع پر بھی عوام کوخون میں نہلا دیا،فوج پرحملے حراست ٢٣ ایف سی اہلکاروں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا یہ کون لوگ ہیں ، جبکہ ہر حلے کے بعد اعلانیہ طالبان زمہ داری قبول کرتے ہیں پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یہ دین اسلام کے خلاف سازش ہے …. آئیں فوج کی پشت پر کھڑے ہوںکہ فوج اِن ملک اوردین دشمن دشت گردوں کے خلاف موثر کاوائی کرے، جو بقول آپ کے دین اسلام کو بدنام کر رہے ہیںکیا اِن کے خلاف طاقت کا استعمال ضروری نہیں؟
اتور کو طالبان کی حراست میں ٢٣ سپاہیوں کے قتل نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ،ایسی صورت حال کوئی بھی طالبان سے اب کسی قسم کے مذاکرات کی حمائت نہیں کرے گا ماسوائے اُن کے حامیوں کے پہلے بھی ….مگرشہیدوں کے لواحقین سے تو کوئی پوچھے اُن پر کیا گزر ی…، پیر کے روز ہونے والا مذاکراتی کمیٹیوں کا اجلاس نہ ہو سکا سرکاری کمیٹی نے کہا کہ ایف سی اہلکاروں کے بہیمانہ قتل کے بعد مذاکراتی کمیٹیوں کے اجلاس کا کوئی فائدہ نہیں،شکر ہے پہلی مرتبہ کہیں سے یہ سچ کی آواز ؤئی کہ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں دوسری طرف،وزیرآعظم ڈاکٹر میاں نواز شریف نے کہا پاکستان مزید خونریزی کا متحمل نہیں ہوسکتا ،انہوں نے ایف سی اہلکاروں کا سفاکانہ قتل سنگین جرم قراردیا ، اور قتل کی مذمت کی عمران خان نے ایف سی اہلکاروں کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی اور اسے اسلامی تعلیمات کی خلاف ورزی قرار دیا اور ایک خاص بات کی طرف اشارہ کیا جو انتہائی قابل مذامت بھی کہ ٢٠١٠ میں یہ اہلکار اغوا ہوئے مگرسابق اور موجودہ حکومت اور افواج پاکستان کی طرف سے ان اہلکاروں کی محفوظ رہائی کے لئے کچھ نہیں کیا اور اِن کو گویا بھول گئے۔
Shahidullah Shahid
یہ تو سچ کہا آپ بھی تو ایک سیاسی راہنما ہیں آپ بھی تو بھول گئے آپ نے ڈرون کے خلاف ایسا احتجاج ریکارڈ کرایا کہ تب سے ڈرون ہی نہیں نیٹو سپلائی بھی بندآپ ہی ان اہلکارو ںکی رہائی بارے طالبان سے ڈرون بند کرانے کے عوض یہ اغوا کئے اہلکار چھڑا لیتے آپ کیوں خاموش رہے ،یہ تو مقتدر حلقوں کی مجرمانہ خاموشی تھی جو ناقل معافی جرم ہے یہی نہیں بڑے قلمکار وں کے قلم بھی خاموش رہے ، اور مزاکرات کا سلسلہ منقطع ہو گیا،کہ ١٨ فروری کو جنوبی وزیرستان میں فورسز پر حملے میں میجر سمیت ٣جوان شہید ….دوسری طرف ترجمان طالبان شاہد اللہ شاہد کا بیان میڈیا کی زینت بنا،مہمند ایجنسی میںایف سی اہلکاروں کے قتل کی وضاحت طلب کی گئی ہے،طالبان میں اپنے زیر حراست ساتھیوں کے قتل اور ان کی لاشیںپھینکنے سے اشتعال پیدا ہوأایسے واقعات کی روک تھا م مذاکراتی عمل کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔
تمام محب وطن سے ہماری گزارش ہیکہ وہ مسلہ کو سنجیدہ بنیادوں پر حل کرنے میں اپنا کرادار ادا کریں ،مذاکرات کا عمل کسی صورت نہیں رکنا چاہئے محض مہمند ایجنسی کے واقعہ کی وجہ سے بھی نہ اور جاری رہے ،جنگ بندی کے لئے تمام گروپوں سے رابطہ ہو گیا ہے جلد ہی کسی نتیجہ پر جائیں گے ،کسی فیصلے پر متفق ہونے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی اور امیر کی طرف سے فیصلہ کی توثیق کے بعد ان پر اطاعت واجب ہوگی ….، یہ بیان جاری ہوأ ، تو یہ خبر بھی آئی کے جنوبی وزیرستان میں فورسز پر تازہ حملہ …!مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد خبروں میں تیزی آئی ہے ،تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے کہاہے کہ مذاکراتی عمل میں سنجیدہ اور جنگ بندی کے لئے بھی تیار ہے مگر پہلے حکومت ہمارے ساتھیوں کی گرفتاریاں اور پولیس مقابلوں میں مارنے کا سلسلہ بند کرے۔
دوسری طرف طالبان کمیٹی کے رکن مولانا یوسف نے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ساتھ ہی اُن کہ مُنہ سے یہ سچ نکل گیا کہ ١٦،اور ١٧ ،فروری کو ہم کامیابی کی دہلیز پر تھے کہ مہمند ایجنسی کا واقع کا پیش آیا …سوال ہے کیا حکومت کی طرف یہ واقع ہوأ،اِس واقع کی ذمہ داری حکومت تھی ،یہ بھی کہیں کہ طالبان نے ڈیڈ لاک پیدا کرنے کی کوشش کی ،یہ شرط کہ حکومت طالبان گرفتاریاں بند کرے مطلب یہ کہ دہشت گرد کاروائیاں جاری رہیں اور حکومت امن کے لئے خاموش تماشائی بنی رہے کیونکہ مذاکرات جاری ہیں ،جہاں حکومت پر یہ شرط لگائی جاتی ہے وہی شرط خود پر بھی لاگو کریں آجکل اسی حوالے اخبارات بھرے پڑے ہیں بظاہر حکومت کی تمام توجہ امن کے لئے مذاکرات پر ہیں ،اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ ،کے مزید دو روپئے فی یونٹ اضافہ یہی کافی نہی جگا ٹیکسوں میں بھی اسی ریشو سے اضافہ ہو رہا ہے ہر ایک کے سامنے آج کا یہی مسلہ ہے کے ملک میں امن ہو،طالبان ترجمان نے بھی یہی کہا کہ محب وطن مسلہ کو حل کرنے میں کردار ادا کرے،مگر اُس مسلہ کی نشان دہی نہیں کی کہ مسلہ ہے کیا ْجو آکاس بیل کی طرح ملک کی جڑوں کو کھا رہا ہے ….؟؟اگر اِس آکاس یل کو ختم نہ کیا گیا تو اِن کی کاروائیوں سے نہ پاکستان بلکہ دنیا کا امن تباہ ہو جائے گا ،ایرانی وزیر داخلہ عادل رضا کی دھمکی قابل غور و فکر ہے۔