وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے راولپنڈی آرٹس کونسل کی تقریب میں شرکت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بجا طور پر طالبان سے سوال کیا ہے کہ وہ بتلائیں کہ کس شریعت میں قیدیوں کے گلے کاٹنے کی اجازت ہے؟۔ اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ جنیوا معاہدے کے تحت بھارت نے بھی 90 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں سے ایسا سلوک نہیں کیا اور ہمارے پاس جو بھارتی جنگی قیدی تھے۔
ہم نے بھی اُن کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اسلام نے بتایا ہے۔ جنابِ پرویز رشید کے اِس بیان سے اختلاف ممکن ہی نہیں اور باوجود اِس کے کہ میاں نواز شریف صاحب پر طالبان سے مذاکرات ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ ہے، وہ امن کو ایک اور موقع دینا چاہتے ہیں اسی لیے حکومتی کمیٹی نے یہ اعلان کیا ہے کہ غیر مشروط جنگ بندی کے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی جبکہ طالبان تا حال مشروط جنگ بندی پر زور دے رہے ہیں۔
ایف سی کے 23 مغوی قیدیوں کے گلے کاٹنے اور اُن کی ویڈیو جاری کرنے کے بعد یہ تو طے ہو گیا کہ طالبانی شریعت میںنظامِ عدل کی نوعیت کیا ہے۔ 23 شہید اہلکار تو ایف سی سے تعلق رکھتے تھے جن کے بارے میں ”طالبانی شریعت” یہ کہہ سکتی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف جنگ میں مصروف تھے لیکن اُن کے پاس 50 ہزار سے زائد بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کا کیا جواز ہے؟۔
حکمت کی کتاب میں درج کر دیا گیا ”جو کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اُس کی سزا جہنم ہے ، وہ اُس میں ہمیشہ رہے گا۔اُس پر اللہ کا عذاب نازل ہو گا۔ اُس پر اللہ کی لعنت ہے اور اللہ نے اُس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے ”(النسائ)۔اب طالبان خود ہی فیصلہ کر لیںکہ اُن کے دامن کتنے بے گناہوں کے خون سے تر ہیں اور جس قُرآن و سنت کی حکمرانی کے لیے اُنہوں نے ہتھیار اُٹھا رکھے ہیں ، وہی قُرآن و سنت اُنہیں کیا پیغام دیتے ہیں۔
طالبان سے مذاکرات یا آپریشن کا فیصلہ تو ہونے کو ہے ، سوال مگر یہ ہے کہ کیا ہمارے نظامِ عدل کی بنیاد قُرآن و سنت ہی ہے ؟ اور کہیں ایسا تو نہیں کہ ہمارا قانون اور ہماری تعزیرات صرف کمزوروں تک محدود ہوں ؟۔ ہم ہر روز ہزاروں پاکستانیوں کو تھانے کچہریوں میں دھکے کھاتے دیکھتے ہیں اور مجرموں کو سزا پاتے بھی لیکن جب ایک آمر کو بطور ملزم کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑتا ہے تو اخبارات کی ”شہ سُرخیاں” بن جاتی ہیں اور الیکٹرانک میڈیا گھنٹوں ”لائیو کوریج” میں مصروف ہو جاتا ہے۔
Pervez Musharraf
کیوں ؟، شائد اِس لیے کہ باقی سبھی تو ”بلڈی سویلین” تھے لیکن مشرف صاحب سابقہ آرمی چیف جسے سَو خون بھی معاف ہیں۔ غداری کیس کی تیئیسویں سماعت پر جب مشرف صاحب عدالت میں پیش ہوئے تو تجزیہ نگاروں نے کہاکہ مشرف کی پیشی آئین کی بالا دستی کا تاریخی دن ہے۔ بات وہی جو میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہی کہ ”وہ قومیں برباد ہو جاتی ہیں جو زور آوروں کو معاف کرتی اور کمزوروں کو سزا دیتی ہیں۔ سنگین غداری کیس کے نامزد ملزم پرویز مشرف صاحب جس دھج سے خصوصی عدالت میں پہنچے وہ بھی اب تاریخ کا حصّہ ہے۔
اُن کی آمد کے موقع پر پنڈی ، اسلام آباد میں سکیورٹی ریڈ الرٹ رہی ، دو متبادل راستوں پر روٹ لگایا گیا ، پولیس اور رینجرز کے لگ بھگ 1300 اہلکار روٹوں پر تعینات کیے گئے، اعلیٰ پولیس افسروں کی چھٹی منسوخ کر دی گئی، بم ڈسپوزل سکواڈ نے خصوصی عدالت کے احاطے کی خوب چھان پھٹک کی اور کمرۂ عدالت میں جیمر نصب کئے۔
تب کہیں جا کر 17 گاڑیوں پر مشتمل اُس شخص کی ”بارات”روانہ ہوئی جس پر سنگین غداری کا الزام ہے ۔خصوصی عدالت نے بھی انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے سابق صدر کو ملزم نہیں بلکہ مشرف صاحب کہہ کر مخاطب کیا ۔مشرف صاحب کمرۂ عدالت میں داخل ہوتے ہی کرسی پر بیٹھ گئے اور جج صاحبان کے آنے پر بھی کھڑے ہونے کی زحمت گوارا نہ کی۔ خصوصی عدالت کے سر براہ جسٹس فیصل عرب جو مشرف صاحب کو کرسی پر برا جماں دیکھ چکے تھے، نے مشرف صاحب کو براہِ راست کٹہرے میں کھڑا ہونے کا حکم دینے کی بجائے مشرف صاحب کے وکیل انور منصور سے سوال کیا کہ مشرف صاحب کہاں ہیں ؟۔تب انور منصور صاحب نے مشرف صاحب کو کٹہرے میں کھڑا ہونے کے لیے کہا۔ کٹہرے میں کھڑے مشرف صاحب کی شان بھی نرالی تھی۔
اُن کے پیچھے رینجرز کے جوانوں کا حفاظتی دستہ ایستادہ تھا اور یوںمحسوس ہوتا تھا کہ جیسے کوئی سر براہِ مملکت قوم کو مخاطب کرنے کے لیے روسٹرم پر کھڑا ہو۔ احمد رضا قصوری کی درخواست پر مشرف صاحب کو فوراََ ہی کرسی پر بٹھا دیا گیا اورجب خصوصی عدالت نے سابق صدرپر فردِ جرم عائد کرنی چاہی تو وکلاء صفائی کی جانب سے یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ پہلے یہ فیصلہ ہونا چاہیے کہ مقدمہ کی سماعت عدالت کے دائرۂ اختیار میں ہے بھی یا نہیں۔
عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں فردِ جرم اور ملزم کی عدالت میں مزید پیشی سے متعلق فیصلہ جمعہ تک مؤخر کر دیا اور یوں صرف بیس، بائیس منٹ تک کمرۂ عدالت میں ٹھہرنے کے بعد مشرف صاحب اِس شان سے واپس گئے کہ اُن کے احاطۂ عدالت سے باہر نکل جانے تک خصوصی عدالت کے جج صاحبان سمیت تمام افراد کمرۂ عدالت میں محبوس رہے۔اِس چشم کشا کارروائی کے بعد کم از کم اتنا اندازہ تو ضرور ہو گیا کہ ہمارا نظامِ عدل کتنی مضبوط بنیادوں پر استوار ہے۔
مشرف صاحب کی عدالت میں آمد و رفت کے دوران پنڈی اور اسلام آباد کے رہائشی گھنٹوں خوار ہوتے رہے۔اُن کی اِس شاہانہ پیشی پر عوام کے خون سے نچوڑے گئے کروڑوں روپے صرف ہوئے لیکن فردِ جرم پھر بھی عائد نہ ہو سکی۔ اگر مشرف صاحب کی عدالت میں پیشی کا یہی نتیجہ نکلنا تھا تو پھر کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ خصوصی عدالت اپنے دائرۂ اختیار کا تعین کر نے کے بعد ملزم کو عدالت میں طلب کرتی لیکن ہمارے ہاں تو معاملہ کچھ یوں ہے کہ ”نے ہاتھ باگ پر ہے، نہ پا ہے رکاب میں مشرف صاحب اے ایف آئی سی کے وی وی آئی پی روم میں محوِ استراحت ہیں اور چک شہزاد میں اُن کے خالی گھر پر رینجرز، پولیس اور ایجنسیوں کے جوان پتہ نہیں کیوں تعینات کیے گئے ہیں۔ مشرف صاحب ایک بار تو عدالت میں حاضر ہو گئے لیکن نہیں کہا جا سکتا کہ اب دوبارہ وہ آتے بھی ہیں یا نہیں۔ شنید ہے کہ اے ایف آئی سی کے ڈاکٹرز نے اُن کی ”مخدوش حالت” کے پیشِ نظر اُنہیں عدالت جانے سے منع کیا تھا لیکن وہ اپنے ”رِسک” پر عدالت آئے۔
حیرت ہوتی ہے کہ اے ایف آئی سی کے ماہر ترین ڈاکٹرز جب خصوصی عدالت کو یہ لکھ کر دے چکے ہیں کہ ”مریض” کی حالت مخدوش ہے تو پھر وہ مریض کا علاج نہ کرنے کا رِسک کیوں لے رہے ہیں؟۔ اگر مشرف صاحب کو اے ایف آئی سی کے ڈاکٹرز کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں تو پھر اُنہیں ڈسچارج کیوں نہیں کیا جاتا؟۔ کیا دُنیا میں اے ایف آئی سی کے سوا کوئی ایسا ہسپتال بھی ہے جہاں مریض علاج بھی نہ کروانا چاہتا ہو اور اُسے ڈسچارج بھی نہ کیا جائے؟۔ ہو سکتا ہے کہ مشرف صاحب کو محض اِس لیے ڈسچارج نہ کیا جا رہا ہو کہ بوقتِ ضرورت اُن کا میڈیکل سرٹیفیکیٹ پیش کر کے عدالت میں حاضری سے استثناء حاصل کیا جا سکے اور پھر۔۔۔ پھر یہ سلسلہ شیطان کی آنت کی طرح لمبا ہی ہوتا چلا جائے۔ بہرحال آثار تو یہی بتلاتے ہیں کہ یہ ڈرامہ طول تو پکڑ سکتا ہے مشرف کی سزا کا باعث نہیں بن سکتا کیونکہ ہمارت نظامِ عدل میں مقدمات دنوں، مہینوں نہیں بلکہ سالوں پر محیط ہوتے ہیں۔