لڑکیوں کی تعلیم ضروری ہے

Education

Education

آج کے دور میں تعلیم کی اہمیت جتانا ضیاع وقت ہے مگر لڑکیوں کی تعلیم و تحصیل کی وکالت اہم ہے، حقیقت یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم بھی نہایت ضروری ہے کیوں کہ فی زمانہ بغیر پڑھے لکھے مرد کا گزارہ ہے، نہ بغیر پڑھی لکھی عورت کی کوئی اہمیت و حیثیت ہے ، آج تعلیم کے بغیر انسان چاہے مرد ہو یاعورت ادھورا ہے ، وہ حقیقتاً خود شناس ہے نہ خدا شناس ، اور اگر ان پڑھ شخص غریب بھی ہے تو پھر دوہری مصیبت ہے، ان پڑھ غریب واقعتا بہت بے چارہ اور مظلوم ہے جب کہ تعلیم غریب شخص کو بھی بارتبہ بنا دیتی ہے اور اس کی فطری لیاقتوں کو نکھار کر قابل عمل بناتی ہے، تعلیم ہی وہ ہے کہ جس کی بدولت ایک انسان (consume) ہی نہیں بلکہ موجد (invento) بھی ہو سکتا ہے ، اس لئے ایسی ضروری چیز سے عورتوں کو محروم نہیں رکھا جا سکتا۔

اس سلسلے میں بعض ان پڑھ سادہ لوح لوگوں کا یہ ضابطہ قطعاً ناقابل تسلیم ہے کہ فی زمانہ لڑکیوں کو تھوڑا بہت ہی پڑھانا صحیح ہے کیوں کہ فی زمانہ تھوڑی بہت تعلیم کا کوئی مطلب نہیں ہوتا، اس حد تک تو خود معاشرہ بھی بیدار ہے، آج اسکول جائے بغیر لوگ ہلکی پھلکی اردوبلکہ انگریزی بھی جان لیتے ہیں اور اگر لڑکیوں کی ہلکی پھلکی تعلیم کی وکالت کرنے والے بعض اعلی دینی یادنیوی تعلیم یافتہ حضرات ہیں تو ہماری گزارش یہ ہے کہ ذرا وہ خود اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ اگر وہ خود بہت کم پڑھے لکھے ہوتے اور صرف نام لکھنا اور نام پڑھنا جانتے تو کتنی بڑی نعمت سے محروم ہوتے اور غیر شعوری طور پر کتنی بدنصیب زندگی گزاررہے ہوتے،ہمارا خیال ہے کہ کوئی بھی سنجیدہ پڑھا لکھا شخص اپنے آپ کو خالی از علم تصور کر کے ہی کانپ اٹھے گا اور اپنے اچھے پڑھے لکھے ہونے پر فوراً اللہ کا شکر بجا لائے گا اور جب سچ یہ ہے تو پھر کسی ایک لڑکی یا خاتون کے لئے نہیں بلکہ پوری آدھی نسل انسانی کے حق میں یہ روح فرسا اور نہایت جابرانہ ضابطہ کیسے گوارا کیا جا سکتا ہے۔

جہاں تک مذہب و تہذیب سے حیلہ پکڑنے کی بات ہے تو اہل علم بتائیں کہ وہ خود تحصیل علم و دانش سے قبل مذہب و تہذیب کو کتنا جانتے تھے اور جب خود تعلیم کے بعد بیدار ہوئے ہیں تو پھر یا تو اپنی اس بیداری کو ایک برے کام کا برا نتیجہ قرار دیں اور تسلیم کریں کہ انہوں نے حصول علم کرکے غیر ارادی خطا کی ہے، ورنہ دیدہ ودانستہ عورتوں پر ظلم نہ کریں اور انہیں ایک خیر کثیر سے محروم رکھنے کی سعی سے باز آئیں، حقیقت یہ ہے کہ تہی از علم کے نزدیک مذہب و تہذیب کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ، جو پڑھا لکھا نہیں ، اسے نہیں پتا کہ مذہب واقعتا کیا ہے اور تہذیب حقیقتاً کس پرندے کا نام ہے، ان پڑھ شخص کی محدود ذہنی دنیا بس یوں ہی ہوتی ہے جیسے پوری دنیا میں رات کی تاریکی چھائی ہوئی ہو اور اس میں اس کے بے حیثیت شعور کا ایک بے حد معمولی سا بلب دس بیس قدم تک روشنی کے نام پر صرف ایسا دھند لکا تخلیق کر لے کہ جس میں صرف کھانے کمانے اور سونے جاگنے جیسے چند موٹے ٹوٹے تصادمات زندگی کے محض بے سلیقہ مادی مفاہیم ہی واضح ہو سکیں، جب کہ قدرے لطیف دلالتیں تازیست بعدی از گرفت احساس رہیں، غرض ان پڑھ شخص اس دنیا کو کچھ نہیں سمجھ پاتا اور عموماً یوں ہی آکر یوں ہی چلا جاتا ہے۔

خواتین کو تعلیم سے روکنے میں مذہب و تہذیب سے دلیل پکڑنا اس لیے بھی غلط ہے کہ اسلام کی بنیادی کتاب قرآن مجید ہر انسان سے دنیا و مافیہا میں غوروخوض کی سخت تاکید کرتی ہے اور یہ تاکید مردوعورت دونوں سے ہے اور ظاہر ہے قرآن مجید کا مطلوبہ غورو خوض کسی جاہل اور ان پڑھ کے لیے تقریباً نا ممکن ہے، دوسری بات یہ ہے کہ قرآن مجید اصلاً کتاب ہدایت ہے اور اس کی ہدایت کسی ایک جہت میں محدود نہیں بلکہ ہمہ جہت ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ تاریخ ، تہذیب، سائنس، قانون، اقتصاد، سیاست، معاشرت ، ادب ، اخلاقیات، جیسے نہ جانے کتنے بنیادی علوم و فنون کو نہ صرف کامل نظریاتی انداز میں بلکہ حقیقتاً قابل عمل نظام و ضابطے کی شکل میں پیش کرتا ہے، تو جب یہ قطعی ہے کہ قرآن مقدس کے زیادہ سے زیادہ پڑھنے اور سمجھنے کے استحقاق میں خواتین بھی برابر کی حصے دار ہیں اور جب انہیں یہ قطعی حق ہے کہ وہ اللہ کی اس مقدس کتاب کو پڑھ سمجھ کر دنیائے دین و دانش میں انسان کی ہم جہت رہ نمائی کریں تو وہ کیوں قرآن کے مشمولہ مضامین کو نہ سمجھیںاور کیوں نہ سیکھیںرہی یہ بات کہ عصری اداروں میں یہ علوم قرآنی منہج سے نہیں پڑھائے جاتے تو یہ اعتراض مردوں کے حق میں بھی موجود ہے۔غرض جو قرآن اور اس کا مذہب اسلام بلا تفریق صنف ، انسان کو زبردست حصول علم پر ابھارتا ہے۔

Islam

Islam

وہ دوسرے ہی لمحے عورتوں کو محض امی رہنے کی تلقین ہر گز نہیں کر سکتا۔نیز کیا ہمیں نہیں پتا کہ مذہب کی تعلیم عورتوں پر بھی فرض ہے ورنہ محض جہل و لاعلمی کی صورت میں یہ ہوگا کہ عورتیں دوسروں کی سنی سنائی باتوں پر اپنے کمزور ایمان کی بنیاد رکھیں اور معاشرے کی دیکھا دیکھی چند نیم مذہبی رسموں کو اپنا کرہی دنیا سے رخصت ہو جائیں، جب کہ حقیقتاً اسلام کے نزدیک یہ نا قابل برداشت ہے، ہم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ہی کو دیکھیں کہ بڑے بڑے اہل علم اور کبار صحابہ کرام تک قرآن و حدیث کے مسائل کی جان کاری آپ سے حاصل کرتے تھے اور آپ انہیں مسائل بتاتی تھیں، تو اصل یہ ہے کہ خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنے کی کوئی تہذیبی یا مذہبی تحدید نہیں، البتہ تحدید حالات کے اعتبار سے کی جا سکتی ہے۔

جہاں تک پیشہ ورانہ علوم کی بات ہے تو ان میں بھی متعدد علوم ضروری ہیں، ورنہ یہ مذہب کشی اور تہذیب سوزی ہی ہوگی کہ ہماری مائیں اور بہنیں نا محرم مردڈاکٹروں سے اپنے ہر طرح کے امراض کا علاج کرائیں اور طبی تفتیش کے نام پر انہیں اپنے بدن کے کسی بھی حصے کو دیکھنے اور چھونے کی اجازت دیں، تو جب تک خواتین اعلی تعلیم حاصل نہ کریں گی تو وہ ڈاکٹر کیسے بنیں گی اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرنے والی مسلم طالبات کے لیے خواتین معلمہ کیسے بنیں گی، اسی طرح اور بہت سے شعبہ جات ہیں جہاں عورتوں ہی کا پیشہ ورانہ اعلی تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے، آج کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی لڑکیوں سے نوکری نہیں کروانا ہے کہ انہیں اعلی تعلیم دلائیں ، نہ ہمیں اپنی بیویوں کی کمائی کھانا ہے، لیکن سوال نوکری اور کمائی کا نہیں، سوال انہیں انسان بنا کر خوش شناسی و خود اعتمادی عطا کرنے کا ہے اور حقیقتاًیہ حق باپ کو بھی نہیں کہ وہ اپنی اولاد کو جاہل و بے خرد ہی پیدا کرے اور تقریباً اسی حالت میںمہدسے لہد تک کا نہایت قیمتی سفر پورا کرواکر انہیں حوالۂ قبر کر دے اور اس طرح عورتیںہنڈ یا روٹی کرتے کرتے ہی دنیا سے رخصت ہو جائیں ، حقیقت یہ ہے کہ عورتیں صرف مردوں کی روٹی پکانے اور انہیں راحت بدن پہنچانے ہی کے لیے نہیں پیدا ہوئیں بلکہ ان کی زندگی بھی مردوں کی طرح اہم اور بامقصد ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ لڑکیوں کو اس لیے عصری تعلیم نہیں دلانا چاہیے کہ اس سے ان میں برہنگی اور بے راہ روی پیدا ہوتی ہے ، مگر اس پر اعتراض یہ ہے کہ اگر واقعی عصری تعلیم کے مضامین کے اندر اس طرح کی تعلیم سے لڑکوں کو بھی کنارہ کش رکھنا ضروری ہے ، کیوں کہ جنسی بے راہ روی اور بے حیائی مردوں کے لیے بھی قطعاً نا جائز و حرام ہے، کہنا یہ ہے کہ جب اسباب مشتر کہ ہیں تو احکام بھی مشترکہ ہونا چاہئیں، جب لڑکے اورلڑکیاں دونوں غلط اور فاسد مضامین پڑھ رہے ہیں تو بیک وقت دونوں کو روکا جانا ضروری ہے، صرف لڑکیوں کو بے تعلیم گھر بیٹھائے رکھنا اور لڑکوں کو بگڑنے کے لیے بے مہار چھوڑدینا انصاف و دیانت کے جذبے سے ہم آہنگ فیصلہ نہیں۔خلاصہ یہ کہ بے تعلیم مسلسل گھر رہنے کی حالت ہو یا تعلیم کے لیے ریگولر عصری اداروں میں جانے کی صورت ، ہر دوشکلوں میں عموماًوہ اوالادیں ہی زیادہ بگڑتی ہیں جن کا اپنا کوئی مضبوط قابل احترام مذہبی یا تہذیبی بیک گرائونڈ نہیں ہوتا یا جن کی تربیت پر گھر والوں کی طرف سے غیر ضروری لا پروائی برتی گئی ہوگی ہے، یادر ہے۔

تہذیب یا تادیب و تربیت سے مراد معاشرے یا گھر والوں کا ظلم و جبر نہیں بلکہ معاشرے میں گھر یا خاندان کی وہ متوارث عزت یا مسلمہ شرافت ہے کہ کس کے خلاف کچھ کرتے وقت گھر یا خاندان کے کسی بھی فرد کو لازماً حیا آئے، پھر گھر یا خاندان کے لوگ اسی متاع حیا کو اپنے مسلسل پاکیزہ کردار و عمل کے ذریعے بغیر جبر و اکراہ، اپنی اولادوں تک منتقل کردیں، تو عموماً یہ چیز برائیوں سے تصادمات کے وقت ان صالح اولادوں کو اپنے حصار میں کر لیتی ہے اور کسی طرح کی بے راہ روی کو بآسانی ان تک پہنچنے نہیں دیتی، لہذا گھر میںصالح ماحول کی تشکیل اور بچوں کی شروع ہی سے پاکیزہ تربیت ضروری ہے، کیوں کہ ایک بچہ گھر کی تربیت اور بالعموم اس دنیاسے بہت کچھ سیکھتا اور حالات کے مطابق اپنی عادتیں تشکیل دیتا ہے،تو کیوں نہ ہم اپنی اولادوں کی عادتیں خیر پسند اور فطرتیں مثبت بنائیں۔

m a Tabassum

m a Tabassum

تحریر: ایم اے تبسم (لاہور)
مرکزی صدر، کالمسٹ کونسل آف پاکستان(CCP)
EMAIL:matabassum81@gmail.com,0300-4709102