دنیا میں کیا ہو رہا ہے، اس کی معلومات فراہم کرنے میں میڈیا اہم کردارادا کر رہا ہے۔ کمپیوٹراورانٹرنیٹ نے اس میں آسانی پیدا کر دی ہے جس کے ذریعے قارئین جان سکتے ہیں کہ دنیا میں کیا ہورہاہے، کیا ہونے والا ہے؟ چند منٹوں میں پوری دنیا کو خبر ہوجاتی ہے لیکن افسوس کہ اسرائیلی یہودیوں نے فلسطینی تاریخ اور تشخص مسخ کر ڈالا اور مسلم حکمران خاموش تماشہ دیکھارہے ہیں۔ جبکہ دہشت گردی کی جنگ کی آڑ میں اسرائیل کے یہودیوں سمیت مختلف قوتیں 2020ء تک مسلم ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔
فلسطین کے شہروں پر یہودی قبضہ اور صہیونی توسیع پسندی تو روز کا معمول ہے ہی لیکن قابض صہیونی دشمن فلسطینی شہروں کے تاریخی نوادرات اور آثار قدیمہ کے نمونے بھی چوری کرنے لگا ہے۔ خلیجی ذرائع ابلاغ کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل سالانہ ایک لاکھ فلسطینی تاریخی نوادرات اور آثار قدیمہ باقیات چوری کرکے دوسرے ملکوں کو فروخت کررہا ہے۔ 1967 ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے فلسطینی شہرصہیونی جرائم پیشہ مافیا اور منظم ریاستی دہشت گردی کا اہم ترین ہدف ہیں۔
جہاں سے ہرسال ہزاروں کی تعداد میں کروڑوں ڈالر مالیت کی تاریخی نوادرات چوری کرکے اسمگل کی جاتی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ صہیونی جرائم پیشہ عناصر کی اس تہذیبی جارحیت کے کھلے عام ہونے کے علی الرغم فلسطینی اتھارٹی مبینہ غفلت کا شکار ہے۔
اسرائیلی حکومت جہاں ایک منظم سازش کے تحت فلسطین کے تاریخی مقامات کو “یہودیانے” کی مذموم کوششوں میں مصروف عمل ہے وہیں اسی سازش کے تحت اپنے عالمی میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے اسے قدیم یہودی ورثہ بھی قرار دے رہا ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور غزہ کی پٹی میں کم سے کم 944 تاریخی مقامات ہیں جو یہودی ریاست کے منظم حملوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ 10 ہزار کی تعداد میں تاریخی آثار قدیمہ اور 350 تاریخی گاؤں، قصبات اور شہر ہیں جن میں کم سے کم 60 ہزار تاریخی عمارتیں موجود ہیں۔ یہ تمام مقامات فلسطین کا تاریخی ورثہ ہیں لیکن بدقسمتی سے فلسطینی اتھارٹی کی غفلت کے نتیجے میں آج اس پر قبضہ کر رہے ہیں۔
فلسطینی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر حمدان طھ کے مطابق فلسطین کی پوری سرزمین تاریخی عمارات اور مقامات سے بھری پڑی ہے۔ ہرنصف کلو میٹر کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی قابل ذکر تاریخی مقام ملتا ہے۔ اسرائیل کا سب سے بڑا جرم فلسطین کے اس تاریخی اور تہذیبی ورثے کو تباہ کرنا ہے۔ صہیونی ریاست ایک منظم سازش کے تحت فلسطین کی تاریخ کو مسخ کررہی ہے۔ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی نسل کی آباد کاری کے نتیجے میں 270 اہم تاریخی مقامات کو یہودی بستیوں میں شامل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ دیوار فاصل کی زد میں آنے والے 2000 تاریخی مقامات کو تباہ کردیا گیا ہے۔
تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی گھناؤنی سازش کوئی یہودیوں سے سیکھے، جنہوں نے طاقت کے بل بوتے پر فلسطین کا تہذیبی اور ثقافتی وتاریخی ورثہ تباہ کردیا ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کے ذریعے 500 تاریخی مقامات کو دانستہ طورپر منہدم کیا گیا۔ اس علاقہ کی 1500 چھوٹی اور درمیانے درجے کی تاریخی عمارتیں یہودیت کی نذ کردی گئیں۔ انہیں مسمار کرکے ان کی جگہ یہودی کالونیاں بنائی گئیں یا انہیں فوجی کیمپوں اور چھاؤنیوں میں تبدیل کردیا گیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار محمد الجمل کے مطابق فلسطین کی تاریخی اور تہذیبی شناخت مٹانے کی سازش صرف اسرائیلی ریاست نہیں کررہی ہے بلکہ ہر یہودی آباد کار حسب توفیق اس ننگی جارحیت میں حصہ لے رہا ہے۔ یہودی آباد کاروں کے ایسے دسیوں منظم گروپ حکومتی سرپرستی میں سرگرم عمل ہیں جنہوں نے فلسطینی تاریخی مقامات کی لوٹ سیل لگا رکھی ہے۔
Israel
اسرائیلی حکومت چونکہ ایسے فلسطین دشمن گروپوں کی بھرپورسرپرستی کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان گروپوں کے ذریعے فلسطینی نوادرات اور قیمتی تاریخی اشیاء کودنیا بھر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ سارا مکروہ دھند ہ فلسطینی اتھارٹی کے علم میں ہے لیکن رملہ اتھارٹی کو قومی اثاثوں کی یوں لوٹ سیل کی سرے سے کوئی پرواہ تک نہیں ہے۔
صہیونی ریاست اور اس کے منظم گروہ سالانہ کم سے کم ایک لاکھ نوادرات فلسطین سے چوری کرنے کے بعد انہیں دوسرے ملکوں کو فروخت کرتے ہیں۔ مقبوضہ فلسطین میں تاریخی نوادارت کی چھان بین اور ان کی صفائی کے لیے دسیوں کارخانے کام کررہے ہیں۔جہاں سے روزانہ لاکھوں ڈالر مالیت کی تاریخی نوادارت بیرون ملک اسمگل کی جاتی ہیں۔ یہ سب کچھ اسرائیلی حکومت کی سرپرستی میں ہورہا ہے۔ سرکاری سرپرستی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض قیمتی نوادارت فوجی گاڑیوں کے ذریعے اسمگل کی جاتی ہیںتاکہ کوئی پوچھنے والا نہ ہو اور فلسطینی قومی اثاثوں کی لوٹ مار جاری رہے۔
عالمی سطح پر نوادرات کی ناجائز خریدو فروخت ایک گھناؤنا جرم سمجھا جاتا ہے۔ تاریخی مقامات اور تاریخی نوادارت اس ملک کی سرکاری ملکیت سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے فلسطینی نوادرات کی چوری کا عمل اس گھناؤنے طریقے سے جاری ہے کہ عالمی برادری اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے بھی خاموش ہیں۔
بین الاقوامی قانون اسرائیل کی اس تہذیبی دہشت گردی پرصہیونی ریاست کیخلاف کارروائی سے گریزاں ہے۔کیونکہ مسلم حکمرانوں کی غفلت کی بناء پرغیرمسلموں نے پوری دنیا میں دہشت گردی کے نام پرمسلم ممالک میں جنگ شروع کررکھی ہے جس کی آڑ میں مسلم دنیا کے قدرتی وسائل پر قبضہ کررہے ہیں۔
اس وقت دنیا میں 56 سے زائد مسلم ریاستیں ہیں اور انبیاء کی سر زمین فلسطین تمام مسلم امہ کی مشترکہ وراثت ہے جس کی حفاظت بھی مشترکہ طور پر ہونی چاہیے لیکن ہر نلک اس کو صرف یہودیوں کے زیر عتاب فلسطین کی ذمہ داری قرار دکر خاموش ہے۔ یہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔