پاکستان میں سیاست کی سوئی ٢٠١٤ میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا پر اٹکی ہوئی ہ۔ ہر کوئی دور کی کوڑی لانے میں لگا ہوا ہے۔ایک خیال جسے بڑے تواتر سے پھیلایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ جب ٢٠١٤ میں امریکی فوجیں افغانستان سے نکل جائیں گی تو پھر طالبان کی حکومت کو قائم ہونے سے کوئی روک نہیں پائیگا۔امریکہ کو بھی اس بات کا بخوبی علم ہے لہذا امریکہ بھی اس ساری صورتِ حال کا گہری نظر سے جائزہ لے رہا ہے۔
وہ اپنے انخلا سے افغانستان کو اس حال میں نہیں چھوڑیگا جو اس کیلئے بعد میں کسی خطرے کی شکل اختیار کر لے۔وہ اپنی موجودگی کو ہر حالت میں یقینی بنانے کی کوشش کریگا ۔وہ کوشش کر رہا ہے کہ کوئی ایسی راہ نکل آئے جس سے امریکی فو جیں افغانستان میں رہیں اور کچھ ائر پورٹ اس کے تصرف میں ہوں۔امریکہ جس نے افغانستان پر یلغار کے نتیجے میں سینکڑوں ارب ڈالرز کا نقصان برداشت کیا ہے کیا وہ افغانستان سے یونہی رخصت ہوجائیگا ؟امریکہ کیلئے افغانستان کی اہمیت کئی پہلو ئوں سے مسلمہ ہے لہذااس بات کا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنی معیشت اور اکانومی کو تباہ کرنے کے بعد ا فغا نستان کو یوں ہی چھوڑ کر چلا جائیگا۔
یہ سچ ہے کہ امریکی انخلا کے بعد امریکی ڈرون کا سلسلہ بھی بند ہو جائیگا جس سے تحریکِ طالبان کی دھشت کا دائرہ کارمزید بڑھ جائیگا۔ ابھی تک جس چیز کا تحریک ِ طالبان کے پاس کوئی توڑ نہیں ہے وہ ڈرون حملے ہیں۔ان حملوں کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت میں احتیاط برتی جاتی ہے کیونکہ ڈرون حملوں سے جانی نقصان کا احتمال رہتا ہے ۔امریکی انخلا کے بعد انھیںڈرون کا خطرہ باقی نہیں رہیگا توپھر انھیں قابو کرنا کافی مشکل ہو جائیگا ؟ملا فضل اللہ کا تقرر جنگی حکمتِ عملی کے تحت کیا گیا ہے۔خود کش حملے ایک دفعہ پھر تواتر سے شروع ہو جائیں گئے۔
خود کش بمبار ہر طرف افرا تفری کی فضا پیدا کر دیں گئے اور عوام میںحوف و ہراس پھیل جائیگا جس سے تحریکِ طالبان کیلئے اپنے ہدف کا حصول آسان ہو جائیگا۔ایک وقت آئیگا جب افغانی طالبان اورتحر یکِ طالبان پاکستان ایک ہو جائیں گے جس کی وجہ سے پاکستان کی سالمیت اور وجود بھی خطروں سے دوچار ہو سکتا ہے ۔تحریکِ طالبان کے متشد گروہ پاکستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف اپنی متشدد انہ کاروائیوں کا آغاز کردیں گئے جسے سنبھا لنا کسی کیلئے بھی آسان نہیں ہوگا۔
طالبان اٹک کے پل تک اپنی ریاست کی حدود کا اعلان کرسکتے ہیں اور یوں پاکستانی ریاست سکڑ کر محدود ہو جانے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔کچھ تجزیہ نگاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان کو بھارت کے خلاف بھی استعمال کیا جا سکے گا اور وہ اسلامی انقلاب جس کا خواب عوام الناس کے دلوں میں ایک عرصے سے موجزن ہے طالبان کے ہاتھوں تکمیل پذیر ہوگا ۔اس مفروضے پر بھی کام ہو رہا ہے کہ جب طالبان بھارت کے خلاف فوج کشی کا اعلان کریں تو پاکستان کی وہ مذہبی جماعتیں جو جہادِ کشمیر کی حامی ہیں تحریکِ طالبان کو کھلی حمائت کا اعلان کر دیں۔بھارت کے اندر بسنے والے مسلمان جھنیں ہندو ئوں نے اپنا غلام بنا رکھا ہے اور جن کے خلاف ہندو ئوںنے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا ہوا ہے وہ بھی اس طرح کی یلغار کا ساتھ دیں گئے جس سے بھارت کئی حصو ں میں بٹ جائیگا۔
تجزیے پیش کرنا دا نشوروں کا حق ہوتا ہے اور انھیں اپنے تجزیے پیش کرنے کی مکمل آزادی ہوتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو مفرو ضہ کوئی دانشور پیش کر رہا ہے کیا وہ زمینی حقائق سے مطابقت بھی رکھتا ہے یا یہ بالکل تصوراتی مفروضہ ہے جس کا زمینی حقائق سے دور کا بھی کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔اس بات کو جائزہ لیا جانا بھی ضروری ہوتا ہے تا کہ عوام کو مکمل حقائق سے با خبر رکھا جا سکے۔
Taliban
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نوے کی دہائی میں جب افغانستان میں طا لبان کی حکومت قائم ہوئی تھی تو اس وقت طالبان نے کونسا تیر مار لیا تھا؟اس وقت بھی اس طرح کی کئی افواہیں پھیلائی گئی تھیں کہ طالبان پاکستانی علاقوں کو اپنی مملکت میں شامل کر لیں گئے لیکن ایساکچھ بھی نہ ہو سکا۔ پاکستانی فوج دنیا کی بہترین فوج ہے جو جدیداسلحے سے لیس ہے لہذا س کے خلاف کسی بھی عسکری گروہ کی سرگرمیاں اس کی کار کردگی کو متاثر نہیں کر سکتیں۔
بھارت جیسا ملک جو خود کو دنیا کی منی سپر پاور کہتا ہے وہ بھی پاکستا نی فوج کی جراتوں کے سامنے بے بس نظر آتا ہو تو پھر پاکستان کو طالبان جیسے حکمرانوں سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چائیے ۔یہ سچ ہے کہ پاکستان میں بم دھماکوں کی وجہ سے امن و امان کی حالت پتلی ہے لیکن اس کا مطلب کہیں بھی یہ نہیں کہ بد امنی کے نام پر طالبان ملک پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ ایک پیشہ ور فوج جو توپوں ، ٹینکوں،بحر ی اور فضائی جہازوں سے لیس ہوتی ہے اس طرح کی کاروائیوں سے جنگ نہیں ہارا کرتی۔اور پھر جب ملک کے عوام اس کے شانہ بہ شانہ کھڑ ہوں تو ایسی فوج سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتی ہے جس سے ٹکرانے والے خود ہی پاش پاش ہو جاتے ہیں ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ تحریکِ طالبان کا ا ثر و رسوخ ایک محدود علاقے تک ہے جس کا بارڈ افغانستان کے ساتھ لگتا ہے ۔ابھی تو کل کی بات ہے کہ سوات اپریشن میں فوجی اپریشن کے دوران کس طرح تحریکِ طالبان کی قیادت کو بھاگ کر جان بچانی پڑی تھی اور سوات پر اپنے قبضے کو ختم کرنا پڑا تھا۔ملا فضل اللہ اور صوفی محمد افغا نستان میں رو پوش ہو گئے تھے۔ وہ کئی سالوں تک وہاں پر روپوش رہے اور چند سال قبل پھر متحرک ہوئے ہیں۔
پاکستانی عوام کی اغلب اکثریت تحریکِ طالبان کی سرگرمیوں کو ناپسند بھی کرتی ہے اور اسے انسانیت کا دشمن بھی تصور کرتی ہے لہذا یہ ممکن نہیں کہ تحریکِ طالبان پاکستان پر اپنا تسلط قائم کر لے اور پاکستانی فوج اور عوام خاموش تماشائی بن کر انھیں اس قبضے کی اجازت دے دیں۔پاکستان کے دشمن تو کئی ہیں اور وہ اس کے و جود کے خلاف بھی ہیںجس میں بھارت سرِ فہرست ہے لیکن پاکستان اس کے باوجود بھی قائم و دائم ہے لہذا طالبان جیسی قوت سے اس کا خوفزدہ ہونا سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس طرح کی باتوں سے خوف کی ایک فضا تخلیق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ عوام حوصلے ہار دیں اور وہ طالبان کی د ہشت کے سامنے کھڑا ہونے سے معذور ہو جائیں۔
میڈیا پر آج کل مذاکرات کا کافی شور شرابہ ہے اور ہر شخص مذاکراتی عمل کی کامیابی کی امید لگائے بیٹھا ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ جیسے ہی مذاکرات کا شور بلند ہوتا ہے کوئی غیبی ہاتھ ان مذاکرات کو سبو تاج کر دیتاہے۔چند ماہ قبل ا مریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت نے مذاکرات کے عمل کو تباہ کیا تھا۔اس کے بعد میاں محمد نواز شریف کی حکومت نے ایک اور کوشش کی جسے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے سراہا لیکن اسی اثنا میں ایف سی کے ٢٣ ( تئیس) جوانوں کی ہلاکت اور میجر جہاں زیب کی شہادت نے تمام عمل کو مفلوج کر کے رکھ دیا۔ پی پی پی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس پر سخت درِ عمل کا اظہار کیا ہے اور طاقت سے طالبان کو کچل دینے کا نعرہ بلند کیا ہے۔انھوںنے مذاکرات کی نہ صرف مخا لفت کی ہے بلکہ حکومت کو طاقت کے استعمال کا مشورہ بھی دیا ہے۔
ان کے اس بیان سے حکومت کوئی اثر قبول کرتی ہے یا کہ نہیں یہ ایک علیحدہ کہانی ہے لیکن ایف سی کے ٢٣ افراد کی ہلاکت پر فوج کے اندر جو غم و غصہ پایا جاتاہے وہ کسی نئے رخ کا تعین ضرور کرے گا۔ فوج کیلئے اپنے جوانوں کی لاشیں اٹھا نا آسان نہیں ہوتا اور وہ پچھلے کئی سالوں سے اسی طرح کی صورتِ حا ل سے گزر رہی ہے لیکن پھر بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ میری ذاتی رائے ہے کہ مذاکراتی عمل ایف سی کے ٢٣ افراد کی لاشوں کے نیچے دب کر دم توڑ جائے گا اور مذاکرات کے حامیوں کو سخت مایوسی کاسامنا کرنا پڑے گا کیونکہ تحریکِ طالبان نے اپنی تازہ ترین کاروائیوں سے انھیں انتہائی ایوس کیا ہے۔
اب تو ایک ہی راستہ باقی بچا ہ اور وہ ہے طاقت کا راستہ لیکن کیا میاں محمد نواز شریف کی حکومت اس راہ پرچلنے کا فیصلہ کرے گی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ (چیر مین پیپلز ادبی فورم یو اے ای)