سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز السعود کے تین روزہ دورہ کے اختتام پر دونوں ملکوں نے مسرت، باہمی یکجہتی اور خیر سگالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں برادر ملک عالمی معاملات پر یکساں خیالات رکھتے ہیں۔ اس طرح عملی طور پر پاکستان نے شام کے حوالے سے سعودی کیمپ میں شامل ہونے اور اپنی غیر جانبدار پوزیشن ختم کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان قریبی تعلقات موجود رہے ہیں اور ہر حکومت سعودی عرب کے بارے میں نیک اور مثبت خیالات کا اظہار کرتی رہتی ہے تاہم گزشتہ 8 برس میں پہلی مرتبہ ایک اعلیٰ سطحی سعودی وفد پاکستان آیا تھا۔ اس طرح سعودی حکمرانوں نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ ہر ملک کے بارے میں پالیسی بناتے ہوئے اس بات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں کہ وہاں پر کون حکومت کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا ہے۔ اس لئے کبھی کسی اہم عہدیدار نے اس دوران پاکستان کا دورہ نہیں کیا تھا۔ اب پاکستان میں مسلم لیگ (ن) اور میاں نواز شریف کی حکومت ہے۔
سعودی شاہی خاندان کے ساتھ میاں برادران کے تعلقات کسی سے مخفی نہیں ہیں۔ 2007ء میں سابق حکمران جنرل پرویز مشرف اور شہید بینظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے این آر او NRO کے تحت پیپلز پارٹی کی جلا وطن قائد کو پاکستان واپس آنے کی اجازت دی گئی تھی لیکن شریف برادران ان سے ذاتی مخاصمت کی وجہ سے پرویز مشرف نواز شریف اور شہباز شریف کو واپس آنے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں تھے۔ اس طرح ان کا ایک سیاسی مقصد یہ بھی تھا کہ شریف برادران کی عدم موجودگی میں پیپلز پارٹی انتخاب میں تن تنہا کامیاب ہو جائے اور این آر او کی روشنی میں پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی مل کر اقتدار بانٹ لیں۔
تاہم سعودی عرب کو یہ بندر بانٹ قبول نہیں تھی۔ پرویز مشرف کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے باوجود سعودی حکمرانوں نے سابق صدر کو مجبور کیا کہ وہ شریف برادران کو ملک میں واپس آنے اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اجازت دے۔ اسی لئے 2007ء کے آخر میں شریف برادران خصوصی سعودی شاہی جہاز کے ذریعے براہ راست جدہ سے لاہور پہنچے تھے۔یہ اقدام پاکستان کی سیاست میں براہ راست سعودی مداخلت کے مترادف تھا۔ تاہم پاکستان میں امریکہ کے برعکس سعودی عرب کے بارے میں محض مثبت رویہ اور پروپیگنڈا سامنے آتا ہے۔ اس لئے اس مداخلت کو بھی حکومت سے لے کر میڈیا تک سب سے خوش دلی سے قبول کر لیا تھا۔ اب سعودی ولی عہد کے دورہ پاکستان کے موقع پر جاری ہونے والے اعلامیہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ میاں نواز شریف اس ہمدردی اور سرپرستی کی قیمت ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ شام کے بارے میں پاکستانی مؤقف میں لچک اور سعودی مؤقف کی سو فیصد حمایت اس رویہ کی عکاسی کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلامیہ میں شام کے حوالے سے خصوصی ذکر موجود ہے۔ حالانکہ دنیا کے متعدد ملکوں میں مختلف قسم کی تحریکیں جاری ہیں۔ تاہم شام کے حوالے سے سعودی عرب کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کے حوالے سے جاری ہونے والے اعلامیہ میں بھی اس معاملہ کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ شام کے حوالے سے دونوں ملکوں کے مشترکہ اعلامیہ میں 4 نکات پر مشتمل ایک فارمولہ شامل کیا گیا ہے۔ جو کچھ یوں ہے: 1۔ شام سے تمام بیرونی مسلح فوجی دستے واپس بلائے جائیں۔ 2۔ ملک کے شہروں اور قصبوں کا محاصرہ بند کیا جائے اور شہری علاقوں پر ہوائی حملے بند کئے جائیں۔ 3۔ ملک میں شہری آبادی کو خوراک کی ترسیل کے لئے محفوظ راستہ فراہم کیا جائے جس کی نگرانی اقوام متحدہ کرے۔ 4۔ ملک میں فوری طور پر ایک عبوری حکومت قائم کی جائے جسے مکمل اختیارات حاصل ہوں اور جو ملکی معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے سکے۔
Syria Flag
ان چار نکات کے بغور مطالعے سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ سو فیصد شام کے بارے میں سعودی حکمت عملی اور ایجنڈے کے مطابق ہے۔ پاکستان اس سے قبل شامی تنازعہ کے بارے میں غیر جانبدارانہ پالیسی کا حامی رہا ہے۔ یہ اعلامیہ پاکستان کی اس سرکاری پالیسی کی نفی کرتا ہے۔ اعلامیہ میں نکتہ نمبر 1 کے مطابق تمام بیرونی افواج کو شام سے نکل جانا چاہئے۔ حالانکہ اس وقت کوئی غیر ملکی فوج شام میں موجود نہیں ہے۔ بلکہ سعودی عرب امریکہ اور مغربی ممالک پر شام میں مسلح مداخلت کے لئے دبائوڈالتا رہا ہے۔
اس نکتہ میں بیرونی افواج کا اشارہ حزب اللہ کے دستوں کی طرف ہے۔ لبنان کا یہ خود مختار ملیشیا گروپ ایرانی تعاون اور امداد سے متحرک رہا ہے۔ اس طرح پاکستان سعودی خوشنودی کی خاطر اپنے ہی ہمسایہ ملک کی خارجہ پالیسی پر بالواسطہ تنقید کا سبب بنا ہے۔ جہاں تک دوسرے ملکوں کے مسلح افراد کا تعلق ہے تو یہ خبریں بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ متعدد سعودی شہری شام کی خانہ جنگی میں ملوث ہیں۔ سعودی عرب اور ترکی سمیت کئی حکومتیں شام کی حکومت کے باغیوں کی کھلم کھلا مالی اور فوجی امداد بھی فراہم کر رہی ہیں۔ پاکستان سے بھی طالبان یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ اپنے جنگجو شامی باغیوں کی مدد کے لئے روانہ کر چکے ہیں۔
دوسرے نکتہ کے تحت شام کی حکومت پر بالواسطہ الزام لگایا گیا ہے کہ وہ اپنے شہریوں کو ہلاک کر رہی ہے۔ اگرچہ کسی حد تک یہ معاملہ حقیقت پر مبنی ہے لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے دو طرفہ اعلامیہ میں ایک تیسرے غیر متعلقہ ملک کے حوالے سے اس قدر واضح مؤقف اختیار کرنا محض سعودی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہی ہو سکتا ہے۔اعلامیہ کے آخری نکتہ میں شام میں بااختیار عبوری حکومت کے قیام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گویا پاکستان نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کو ختم کیا جائے۔ یہ مؤقف پاکستان کی سرکاری پالیسی سے متضاد اور سعودی رائے کے عین مطابق ہے۔ اس کا اظہار دو طرفہ اعلامیہ کی بجائے قومی اسمبلی کے فلور یا وزارت خارجہ کے اعلان کے ذریعے ہونا چاہئے تھا۔ایک طرف پاکستان نے ایک اہم علاقائی اور عالمی معاملہ پر سعودی عرب کی حمایت میں تمام حدود عبور کر لی ہیں تو دوسری طرف یہ اعلامیہ سعودی عرب میں مقیم لاکھوں پاکستانی تارکین وطن کی صورتحال کے حوالے سے بالکل خاموش ہے۔
گزشتہ 8 ماہ کے دوران ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں کو سعودی عرب چھوڑنے پر مجبور کیا جا چکا ہے۔ ہزاروں پاکستانیوں کو جدہ کے ایک نظر بندی کیمپ میں کسی الزام اور مقدمہ کے بغیر محبوس کیا گیا ہے۔ اس معاملہ پر پاکستان کی سپریم کورٹ بھی ازخود نوٹس کے ذریعے غور کر رہی ہے۔ لیکن سعودی ولی عہد کے ساتھ ملاقات میں پاکستانی حکام اپنے مظلوم شہریوں کی داد رسی کی بات کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ حالانکہ ایک جمہوری حکومت کے لئے اپنے شہریوں کی بہبود سب سے پہلی ترجیح ہونا چاہئے تھی۔حیرت انگیز بات ہے کہ دونوں ملکوں کا یہ اعلامیہ شام کے مظلوم شہریوں کا ذکر تو تفصیل سے کر رہا ہے لیکن اس میں سعودی عرب میں ظلم کا شکار ہونے والے پاکستانی شہریوں کے معاملہ پر ایک لفظ بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اس سے تو صرف یہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک بڑا اور طاقتور ملک ہونے کے باوجود سعودی عرب کی مالی قوت کی وجہ سے خاموش رہنے پر مجبور ہے۔ ملک کے وزیراعظم ذاتی تعلقات کی بنیاد پر سعودی پالیسیوں کی تائید میں تو بہت دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ اس کی حکومت سے یہ پوچھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے کہ سعودی عرب میں ہمارے شہریوں کو ہراساں کرنا بند کیا جائے۔
سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورہ کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعاون کے دو معاہدے ہوئے ہیں۔ ان کی کل مالیت 183 ملین ڈالر ہے۔ ان میں سے 125 ملین ڈالر سعودی کھاد خریدنے کے لئے پاکستان کو قرض کے طور پر دئیے جائیں گے۔ اس لئے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ رقم پاکستانی عوام کی مدد کے لئے فراہم ہو گی یا اس کا مقصد سعودی صنعت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔پاکستان کو دنیا میں دوستوں کی ضرورت ہے۔ اسے سعودی عرب جیسے اہم اور قدیم دوستوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی بھی ضرورت ہے۔ تاہم اس مقصد کے لئے اہم قومی مفادات اور خارجہ پالیسی کے مسلمہ اصولوں کو نظر انداز کرنا ناقابل تلافی نقصان کے مترادف ہے۔