میری بٹی ہوئی قوم

Extremists

Extremists

آج ناراض شدت پسندوں سے مذاکرات کا معاملہ ہویا اِن کے خلاف کسی فوجی کارروائی کا فیصلہ ہو، اِس سمیت اور دیگر مُلک کے اندرونی اور بیرونی معاملات میں مُلکی ایوانوں سے لے کر ایک عام پاکستانی شہری تک ہر فرد مخمصوں اور مختلف زاویوں میں ہی بٹاہوادِکھائی دیتا ہے، کوئی مذاکرات کو ہی عقلِ کُل کی دلیل سمجھتا ہے تواَب کسی کے نزدیک برداشت کی حد ختم ہو گئی ہے وہ شدت پسندوں سے مذاکرات کے بجائے اِن کے خلاف پوری قوت سے فوجی آپریشن کا نعرہ بلند کررہا ہے تو وہیں ہمارے یہاں ایک ایسا بھی گروہ اور طبقہ موجود ہے جو کبھی شدت پسندوں سے مذاکرات کی طرف مائل ہوتادِکھائی دیتاہے تو کبھی فوجی آپریشن کی آوازیں نکالتااُج ھلتاکودتانظرآتا ہے غرض کہ آج اِن حالات اور واقعات کی تناظر میں ساری پاکستانی قوم ہی شدت پسندوں سے مذاکرات کے ہونے اور نہ ہونے کے معاملے میں دویا تین سے بھی زائدحصوں میں بٹ چکی ہے، اَب موجودہ حالات اور واقعات میں ہے کوئی ایساجو میری بٹی ہوئی قوم کو مزید بٹنے سے بچالے…؟ اور ساری پاکستانی قوم کو ہم خیال بنا کر اِسے ایک فعل پر متحد کردے اور پھر ساری پاکستانی قوم یہ کہہ اُٹھے کہ” شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کئے جائیں … یا یک زبان ہوکر کسی فوجی کارروائی سے شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے کا نعرے لگائے” اِس کام کے کرنے کا وقت قوم کے ہاتھ سے تیزی سے نکلتا جا رہاہے اَب موجودہ حالات میں قوم کو جلد کوئی ایسا دائمی فیصلہ کرنا ہو گا جس کے دوررس نتائج نکلیں۔

جبکہ آج کھلے دل و دماغ سے ہر شخص کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ہمار ی پاکستانی قوم بظاہر توکئی نظریوں، ثقافتوں، زبانوں، تہذیبوں اور معاشروںمیں بٹ کر یقینی طور پر منتشرالخیال و افکار بن کر رہ گئی ہے، اَب اِن حالات میں کوئی تونگر کہیں سے اُٹھ کریہ دعویٰ کرے، کہ ہم ایک سوچ او ر ایک ثقافت اور تہذیب کی حامل قوم ہیں تو میں اِس کے اِس دعوے کو تسلیم کرنے کو قطعاََ تیارنہیں ہوں گا، کیوں کہ میں یہ سمج ھتاہوں کہ آج ہم قوم نہیں بلکہ ہجوم اور ریوڑ بن کر جی رہے ہیں، آج کم ازکم ہم میں ایک قوم اور ایک سوچ کا عنصر کہیں سے بھی نظرنہیں آرہاہے، معاف کیجئے گا مجھے یہاں یہ بھی کہنے دیجئے گا کہ جب کوئی قوم کئی قومیتوں میں بٹ جائے تو پھر لامحالہ وہ قوم کہلانے کے بجائے ہجوم اور ریوڑ کہلانے کی زیادہ حقدار ٹھیرتی ہے۔

اَب میں اپنی اسی بات کی وضاحت اقوامِ عالم کے اُن دانشورانِ کے زرین اقوال سے بھی کرناچاہوں گاجو اُنہوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنے تجربات و نظریات کے لحاظ سے قوموں کی تعریفیں کیں ہیں،ماؤزے تنگ نے قوم کی تعریف یہ کی ہے کہ ” ہر قوم کے سامنے دوراستے ہوتے ہیں: ”اؤل تاریکی کا راستہ ”اور پھر اِسی طرح دوامکانی تقدیریں بھی ہوتی ہیں: ۔ ”نمبر 1: اُجانے کی تقدیر ” اور” نمبر 2 : تاریکی کی تقدیر” یعنی جو قومیںشعورکی منزلوں کو چھولیتی ہیں تووہ اولذکر خصوصیات کی حامل ہوجاتی ہیں اور جن قوموں میں شعورچھو کر بھی نہیں گزرتاہے ایسی قومیں تاریکی کا راستہ اور تاریکی کی تقدیرکی گود میں خود کو دھنسالیتی ہیںاور پھر اِس میں ہی دفن ہوکرمٹ جاتی ہیں وہ قومیں جو مٹ جایاکرتی ہیں یقینی طور پر یہ قومیں اپنے بازوؤں کے بجائے غیروں کے کاندھوں پر سررکھ کرجینااورمرناا پنے لئے باعث افتخارتو سمجھتی ہیں مگردرحقیقت یوں یہ اپنی ہی تباہی کا سامان کررہی ہوتی ہیں۔

Pakistani Nation

Pakistani Nation

یہاں یہ امر قابل افسوس ہے کہ آج بدقسمتی سے میری پاکستانی قوم نے بھی غیروں کے کاندھوں پر سررکھنے کی روش اختیارکررکھی ہے اور جو بغیر سوچے سمجھے غیروں کے بازوؤں کے سہارے اپناوجودبرقراررکھنے کوہی اپنی عافیت سمجھ رہی ہے،مگرآج شائد یہ بھول چکی ہے کہ یہ خود کو رینگنے والے انداز سے تباہی کے ایسے دہانے کے قریب لے جارہی ہے جہاں سے بعد میں اِس کا پلٹاہی اِس کی دائمی موت کا باعث ثابت ہوگا ۔

دانا کا کہناہے کہ دنیا کی جن قوموںنے اپنی اہمیت کو ناسمجھاوہ تباہ ہوئیں ہیں اور جنہوں نے مسائل کے گرداب اور غلامی میں پھنس کر بھی اپنی اہمیت کو جان لیا تو اِنہیں مسائل سے بھی نجات ملی اور وہ غلامی کے طوق سے بھی آزادہوگئیںاِسی لئے تو کہنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ”دنیا میں نہ ایسی کوئی نسل ہے جِسے کاتبِ تقدیرنے صرف مالک بننے کے لئے اُتارا ہو یا نہ ایسی کوئی نسل ہی ہے جِسے اوّل روز سے اَب تک کے لئے بھیجاگیا ہے اوراِسی طرح نہ موجودہ لمحات میں کہیں بھی کوئی ایسی نسل موجودہے اور نہ ہی آئندہ کبھی کوئی ایسی نسل آئے گی جِسے ہمیشہ غلامی کی لعنت کے لئے بھیجا جائے گا۔

بہرکیف..!آج میری پاکستانی قوم کے پاس قدرت کی دی ہوئی کیا چیزایسی نہیں ہے جس سے میری قوم مالامال نہ ہو، بس اِس کے متحدہونے اور ہم خیال ہونے کی خصوصیات اِس میں پیداہوجائیں تو یہ غیروں اور اغیارکی غلامی سے بھی نکل سکتی ہے اورصلاحیتوں سے ساری دنیا کو اپنے زیرپا لاسکتی ہے،بس آج میری قوم میں خود کو بدلنے کا جذبہ پروان چڑھ جائے تو اِس کی قسمت بھی اندھیرے کنوئیںسے نکل ک اُجانے میں سفرکرسکتی ہے اور ہم اپنے اچھے بُرے کا خودفیصلہ کرسکتے ہیں۔

Azam Azim Azam

Azam Azim Azam

تحریر: محمداعظم عظیم اعظم
azamazimazam@gmail.com