آج شہرِ قائدمیں بے لگام ہوتی لاقانونیت نے ایک اور معصوم اور نہتے جوانون کی جان لے لی ہے یہ کیساآپریشن ہے ..؟جو چھ ماہ سے بھی جاری ہے مگر شہر پر طاری دہشت گردی اور لاقانونیت کے سائے چھٹنے کا نام ہی نہیں ہے رہے ہیںمیں 22فروری کواپنے آفس میں معمول کے کام میں مصروف تھاکہ میرے موبائل کی بیل بجی دیکھاتو وائف کی کال تھی میں نے فون اٹینڈ کیا تو اُنہوں نے روتے ہوئے انتہائی افسردگی سے بتایا کہ عارف کا انتقال ہوگیاہے مجھے عارف کے یوں اچانک انتقال کی خبرملی تو میرے پیروں تلی جیسی زمین نکل گئی اور میںکئی بار یہ پوچھتارہا کہ کیا واقعی عارف کا انتقال ہوگیاہے …؟ نہیں یار دیکھو پتہ لگاؤ کہیں کسی نے کوئی مذاق تو نہیں کیا ہے …؟وائف نے کہا نہیں کوئی مذاق کیوں کرے گا..؟مگر یاراِس کا یوں اچانک انتقال کیسے ہوگیاہے …؟ وہ نہ تو کبھی ایسابیمار ہوااور نہ ہی اِسے کوئی ایسی بیمار کبھی لاحق رہی کہ جس کا نتیجہ موت کی صُورت میںسامنے آتا ..؟
تو اِس پرمجھے یہ بتایا گیاکہ نہیں اِس کا انتقال گولی لگنے سے ہواہے(یعنی میرے شہر کی بڑھتی ہوئی لاقانونیت نے عارف جیسے ایک اور معصوم اور خوش گفتار اور سب کایار اور سب کی آنکھوں کا تارا بنے رہنے والے نوجوان کو نگل لیاہے )کسی نے صبح اِسے گولی ماردی ہے ، فی الحال ابھی صرف یہی معلوم ہوسکاہے کہ وہ سخی حسن کے قبرستان سے متصل اپنے گھرشارع نورجہاں تھانے کی حدودشادمان ٹاؤن سیکٹر B-14 سے جیسی ہی آفس جانے کے لئے گھرسے گاڑی میں نکلاتو اِسی دوران دونامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے اِس سے اِس کا موبائل فون اور بٹوہ (وائلیٹ)چھینے کو کوشش کی اِس کے مزاحمت کرنے پر افسوس کے شیطان کے چیلے ڈکیٹوں نے اِس کے گھرکے سامنے سڑک پراِس کے سینے پر گولی مار ری اور اُسے خون میں لت پت تڑپتاچھوڑ کرفرارہوگئے ” وہ زخمیوں کی تاب نہ لاتے ہوئے استپال میں انتقال کرگیاہے۔
مجھے اِس کے خالو اور ماموں نے بتایاکہ عارف خان کی عمر 35 سال تھی، اِسے دنیاگھومنے کا جنون کی حدتک شوق تھایہ اتنی سی عمر میں دنیا کے کئی ممالک گھوم چکاتھا،وہ اپنے مُلک اور اپنے شہرِ کراچی کو جنت تصورکرتاتھا،وہ یہ بھی جانتاتھاکہ اِس کے مُلک میں دہشت گردی اور لاقانونیت کا راج ہے مگراِسے ساری دنیا گھومنے کے بعد بھی اپنے مُلک پاکستان سے ہی محبت تھی، اور آج اِس کے اِسی شہرِ لاقانونیت نے اِسے اَبدی نیندسُلادیاہے، آج اِسے اِپنے وطن اور اپنے شہر سے محبت کا یہ صلہ ملاہے کہ وہ اپنے ہی گھر کے سامنے واقع سخی حسن کے قبرستان میں بنی لاکھوں قبروں میں سے ایک چھوٹی سے قبرکی آغوش میں جاسویاہے، مگرآج بھی اِس کے شہر سے نہ تو لاقانونیت ختم ہوپائی ہے اور نہ ہی دہشت گردی کو لگام دی جاسکی ہے، عارف خان کی روح اور اِس کی اپنے وطن سے محبت کیا حکومت اور قانون نافذکرنے والے ادارو ں سے یہ سوال بھی نہیں کرسکتی ہے کہ حکومت اور قانون نافذکرنے والے ادارے شہرِ کراچی میں مثالی امن و امان کے لئے کب اپنا حقیقی کرداراداکریں گے کہ پھر کوئی عارف کسی کی گولی کا نشانہ نہ بنے…؟؟؟
اگرچہ آج کراچی میںشروع ہوئے آپریشن کو چھ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرچکاہے، حکومتی اراکین اپنی کامیابیوں کے دعوے کرتے تھک نہیں رہے ، مگر ایسے میں یہا ں ایک اہم سوال یہ پیداہورہاہے کہ آج جب چھ ماہ قبل شروع ہوئے آپریشن میں حکومت کو کامیابی حاصل ہورہی ہے اوراِسی طرح اِسے یہ بھی اُ مید ہے کہ یہ آنے والے دِنوں میں مزیدکامیابیوں کے تمغے اپنے سینے پر سجالے گی …تو پھر حکومتی آسمانوں جتنے بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود بھی شہرسے نہ کرائمزکم ہوئے ہیں اور نہ ہی دہشت گردوں کو لگام دی گئی ہے ..؟ یعنی جوں جوں دواکی جارہی اُلٹا مرض بڑھتاہی جارہاہے۔
Karachi Crime
آج یہ حقیقت کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ تمام حکومتی دعوے تواپنی جگہہ مگر دوسری طرف کھلی آنکھوں سے حکومت کو یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ اتناکچھ کرنے کے بعد بھی شہر میں جرائم کی شرح جوں کی توں ہے، ایسا کیوں ..؟ اور کس لئے ہے ..؟یقینااِس حوالے سے بھی حکومت اور قانون نافذکرنے والے اداروں کوسنجیدگی سے اپنے کئے گئے اقدامات کا ارسر نوجائزہ لینا ہوگااور یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اَب تک کئے گئے آپریشن میں کہاں کوئی جھول ہے جِسے دور کرکے یہ اپنے موجودہ دعوؤںاور وعدوں سے ہٹ کر حقیقی معنوں میں شہر کو جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گردوں سے پاک کر سکتے ہیں۔
بہرحال..! قوم ابھی اپنے حکمرانوں اور قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی سے اتنی مایوس نہیں ہوئی ہے جتنی کہ اِسے چھ ماہ سے جاری کراچی آپریشن سے موجودہ حالات اور شہر میں مسلسل بڑھتی ہوئی ڈکیتیوں اور دہشت گردی کے بے لگام ہوجانے والے واقعات سے ہوجاناچاہئے تھا، اگرچہ حکومت کا یہ اعلان بھی ہے کہ کراچی آپریشن آخری اور اپنے نتیجہ خیزمرحلے میں داخل ہوچکاہے اِس سے اِسے لامحدودکامیابیاں ملنے کی قوی اُمیدہے، مگر آج بھی افسوس کے ساتھ شہرِ کراچی کا ہر شہری اِس مخمصے اور اُلجھن کا شکارہے کہ حکومت اور قانون نافذکرنے والے ادارے پچھلے کئی ماہ سے کس کے خلاف آپریشن کررہے ہیں..؟آج بھی شہرِ قائد میں سارے دہشت گرداور جرائم پیشہ عناصرتو یوں ہی آزادہیں اور مکھی مچھرسے بھی کمترحیثیت جان کر(بیچارے عارف اور اِس جیسے کئی) شہرکے معصوم اور بے گناہ افراد کو اپنی دہشت گردی کا (کہیں ٹارگٹ کلنگ تو کہیں ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر)نشانہ بنارہے ہیں، آج شہرِ کراچی کی معروف سماجی شخصیت الحاج محمدشفیع خان کے نواسے ، شاہد محمود خان، راشدمحمودخان کے بھانجے اور مذہبی و سماجی شخصیت قاضی نورالسلام شمس کے جوان سال بھانجے محمدعارف خان والد یونس خان بھی شہر لاقانونیت میں موبائل فون اور بٹوہ (وائلیٹ) چھینے کے دوران مزاحمت کرنے پر اپنے ہی گھر کے باہر(سخی حسن کے قبرستان کے ساتھ والی سڑک جِسے وہاں کے مکین شاہراہ ہ ڈکیٹ کہتے ہیں اِس لئے کہ اِس سڑک پرآئے روزڈکیتی کی وارداتیں ہوتی ہیں ) سڑک پرگولی لگنے سے اِس شہرِ لاقانون سے منہ موڑکر اپنے ہی گھر کے سامنے واقع سخی حسن قبرستان میںقبروں کے درمیان اپنی ایک چھوٹی سے خبرمیں جاسویاہے۔
اَب یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آج میرے شہر میںواقع قبرستانوں میں کتنے ہی ایسے عارف ہوں گے، جو ڈکیٹوں اور دہشت گردوں کی گولیوں کا نشانہ بن کرگھروں کو ویران اور قبرستانوں کو آباد کرگئے ہوں گے ، آج بھی اگرحکومت اِس بات کا صدق دل سے تہہ کرلے کہ اُسے تمام سیاسی اور ذاتی مصالحتوں سے خالصتاَپاک ہوکر پاکستان کے سب سے بڑے تجارتی اور معاشی حب شہرِ کراچی کو چوروں ،ڈکیٹوں، بھتہ خوروں، دہشت گردوں ،گینگ واروں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر سے پاک کرناہے تو پھر کوئی جتنابڑابھی مائی کا لعل ہووہ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے اور مُرغابننے پر مجبورہوجائے گا،بشرطیکہ حکومت اپنے اِس کام کوکرنے کے لئے تمام تعصبات اور زبان و نسل کی تفریق سے آزادہواور پھر یہ ایساہی کرنے کا پابندقانون نافذکرنے والے اداروں کو بھی بنائے تو یقینانہ تو کسی کوکوئی اِس میں شک ہوگااور نہ پھر کہیں سے یہ انگلی اُٹھ سکے گی کہ حکومت او رقانون نافذکرنے والے ادارے جانبداری کا مظاہر ہ کررہے ہیں۔