مکان نمبر ١٨٤ اور پاکستان

Air Port Society Rawalpindi

Air Port Society Rawalpindi

گھر اینٹوں گارے سے نہیں مکینوں سے بنتے ہیں۔ ائر پورٹ سوسائٹی راول پنڈی کے سیکٹر ٢ میں گھر ہمیں اللہ نے دیا اور پھر ہمارے مرحوم کزن چودھری مختار گجر نے۔ان کا خیال تھا کہ میں ساری زندگی ایسے ہی گزار دوں گا لہذہ تمہارے لئے گھر ضروری ہے۔ سو انہوں نے دس مرلے کا ایک پلاٹ ہمیں لے دیا بنا کیسے یہ منشی پریم چند کی کہانی پڑھئیے غم نہ داری بز بخر اگر غم نہیں ہے تو بکری پال لو۔ بکری میں نے نہیں بیگم نے پالی۔ یک منزلہ گھر میں جب جنرل درانی کے ہاتھوں چوٹ کھائی تو ٢٠٠٢ میں جدہ سے یہاں آن ٹپکے۔ دل تو چاہتا تھا کہ گجرانوالہ باغبانپورے کے گھر میں رہتے مگر دل کی چلتی کہاں ہے مائیں مرکزہ ہوتی ہیں۔

لوگ جمہوریت کے لئے بہت کچھ دیتے ہیں میں نے ماں دی ہے میری جدہ میں گرفتاری جو مشرف دور میں جنرل درانی اور کرنل طارق کے ہاتھوں ہوئی تھی اس سے معاشی مسائل اپنی جگہ مگر بے جی کی بلند فشار خون سے زندگی کی بازی ہار جانا ایک ایسا صدمہ ہے جو میرے ساتھ قبر میں جائے گا۔ میاں نواز شریف کی جدہ میں سکونت کے دوران اکیلا میں ہی نہیں شہباز دین بٹ ڈاکٹر قسیم خواجہ امجد آفتاب مرزا عظمت نیازی اور دیگر بھی ر گڑے میں آئے اسی لئے جب مارشل لاء کی طلب لوگ کرتے ہیں تو میں چیخ اٹھتا ہوں۔ فوجی بارڈر پر لڑتے ہی سوہنے لگتے ہیں یہ جب حکومتیں سنبھالتے ہیں تو ان کے دلوں میں ہلاکو اور چنگیز خاں کی روحیں بسیرا کر لیتی ہیںََ خطہ ء پوٹھوہار کا دل اور فوجی شہرپنڈی میں آ کر رہے تو اس سنگل سٹوری کو ادھار سدھار کرکے نوک پلک درست کر لی۔ ان دنوں جب پیدل چل چل کے میرے ڈان کارلوس جوتوں میں سوراخ ہو گئے۔ اللہ نے کیا مکان بنانے کے بعد مجھے اسلام آباد میں ٹیوٹا موٹورز میں ملازمت مل گئی۔ ان چند ہزار روپوں میں میرے بچے پلے۔ اللہ ان کی عمر دراز کرے اس عرصے میں جو لوگ میرے مدد گار بنے میں انہیں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ اس گھر کو میں نے خود اپنے ہاتھوں سے چونا کر کے رہنے کے قابل بنایا۔

٢٠٠٢ سے ٢٠٠٩ کے ان سات سالوں میں اسی سنگل سٹوری پر گزارا کیا۔ لکڑی کی ان چوکھاٹوں پر پیپر ٹیپ لگانے کا بھی وقت آیا۔ اللہ کا کرم ہوا اس دوران میریبڑے بیٹے نے اپنی تعلیم مکمل کی اور وہ میرا بازو بن گیا۔ کہتے ہیں اللہ جب دیتا ہے تو چھپڑ پاڑ کے دیتا ہے۔کہتے ہیں جس کا کوئی دوست نہیں اصل غریب تو وہ ہے۔ میری اس اس سلسلے میں تجوری مالا مال ہے۔ اشرف طاہر میرا پرانا دوست دمام میں تھا اس سے ایک بار بات ہوئی تو اس نے کہا اگر دل کرتا ہے تو واپس آ جائو میں ویزے کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے جنرل موٹورز کی ایجینسی میں میری ملازمت کا بندوبست کیا اور میں ایک روز پھر اسی ملک واپس چلا گیا جہاں سے جنرل درانی نے نکلوایا تھا۔ اسی عرصے کے دوران میں نے جنرل مشرف کے خلاف تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بساط بھر جنرل درانی کی بھی رگڑائی کی۔

Saudi Arabia

Saudi Arabia

میرے اس بار سعودی عرب کے قیام نے کبے کا کب دور کر دیا اور میں نے ارض مقدس میںا چار سال کام کیا اللہ نے مجھے نوازا اس عرصے میں نہ صرف میں اللہ نے مجھے بے شمار پاکستانیوں کے لئے روزگار میسر کرنے کی ہمت بھی عطا کی۔ ٢٠٠٩ میں جب میں اپنے دو فرزاندان کی شادی کرنے آیا تو اس عرصے میں میرا نصف بہتر کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکا تھا۔ سعیدہ نے اس گھر کو مرد بن کے مکمل کروایا۔ وہ اکثر کہا کرتی ہے کہ نوٹ تو آپ کے لگے ہیں مگر اچھے لگے ہیں۔گھر کی خوبصورتی اپنی مثال آپ تھی میرے دو بچے جدہ آ گئے اور ان کے ساتھ ان کی ماں بھی۔اس کے بعد میری بہو اور بیٹے نے ١٨٤ کی انٹیرئر ڈیکوریشن میں کمال کا کام کیا۔ لگتا ایسے تھا کہ یہ گھر ہی ان کی تمام دلچسپیوں کا مرکز ہے۔ میں جب اس بار سعودی عرب سے آیا تو بچے کہنے لگے کہ ابو اب ہم بڑا گھر لیں گے۔ میں نے ان کی مان لی اور گھر بیچ دیا۔ اس کے بدلے میں ایک کنال کا پلاٹ اسی سوسائٹی میں لے لیا ہے۔

آج شام کوا میرے بنیرے بیٹھ کر کائیں کائیں کر رہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ پگلے گھر والی جدہ میں ہے اور بہو آفس میں کون مہمان آئے گا؟ دو پہر کو شوربے والا قیمہ کھا کر
بیٹھا ہوں کیوں بے عزتی کروائے گا۔ میں اس کی تصویر کھینچنے لگا تو وہ اڑ گیا۔میری منڈھیر سے اڑے اس پرندے کو دیکھ کر مجھے یاد آیا جب قبلہ والد صاحب مکان بنا رہے تھے تو وہ ہر آنے والے کو کہا کرتے تھے یہ میرے فلاں بیٹے کا کمرہ ہے یہ فلاں کا۔ آج صرف سجاد وہاں ہے باقی سب اڑ گئے ہیں۔ باغبانپورے کے گھر کی منڈھیریں اب ان بیٹوں کو ترستی ہیں کوئی یو کے کوء جہلم کوئی شہر کی اضافی بستی میں سب چلے گئے ہیں اس کوے کی مانند۔ ماں باپ بچوں کو تما م عمر پروں کے نیچے رکھنا چاہتے ہیں مگر جب وہ بڑے ہو جاتے ہیں تو وہ کسی کے ساتھ اپنی دنیا بسا لیتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں باپ منی آرڈر کو ترستے ہیں ۔کاش کے کوئی انہیں بتائے کہ والدین تو آپ کے میٹھے بولوں کو ترستے ہیں انہیں جو ملنا تھا مل گیا عمر کے حصے میں ان کے کان کسی چاہنے والے کی آواز کے بھوکے ہوتے ہیں۔

اس کوے سے میں ضرور کہوں گا کہ کبھی سندیسا لا کہ پردیس سے بیٹے کب آ رہے ہیں۔ کوے کا کائیں کائیں کرنا ٹھیک ہی ثابت ہوا کچھ دیر پہلے سب سے ثھوٹے بیٹے دلادار کا فون آیا کہ جمعے کی صبح کو پہنچ رہا ہوں۔میرا دلدار جمعے کو آ رہا ہے دل بلیوں اچھل رہا ہے۔پردیسی بیٹے جب دیس آئیں تو دیس بھی کھل اٹھتا ہے۔گھر مکینوں سے بنتے ہیں۔مکانوں میں مکین نہ ہوں تو اسے گھر نہیں مکان کہا جاتا ہے۔میں اس گھر سے جانے والا ہوں ۔ اس سے جڑی یادیں میرے ساتھ ہیں۔پاکستان بھی ہم سب کا گھر ہے منڈھیر سے اڑے کوے کبھی واپس نہیں آتے میں دیکھ رہا ہوں پاکستان کا ہر جوان ہاتھ میں پاسپورٹ تھامے کسی اور منزل کی طرف بھاگ رہا ہے۔پاکستان کی منڈھیریں خالی ہو رہی ہیں۔ آج کسی کے کاندھے پر سر رکھ کر رونا چاہتا تھا یو کے کے راشد محمود جانتے ہیں کہ کہ میری سسکیوں میں پاکستان تھا اس کی نسل تھی جسے ہم لاشوں کے علاوہ کچھ نہیں دے سکے۔

امریکہ اور کینڈہ میں نوجوان نسل ختم ہو رہی ہے وہ چالاک لوگ پڑھے لکھے پلے ہوئے بچے پوری دنیا سے اکٹھے کر لیتے ہیں ۔پاکستان کی منڈھیریں خالی ہو رہی ہیں۔ کیوں ہو رہی ہیں؟ یہ ایک اہم سوال ہے آپ کے سوچنے کے لئے چھوڑے دیتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ مکان نمبر ١٨٤ کی طرح پاکستان خالی ہو جائے ہمیں سب کو مل بیٹھ کے کچھ کرنا ہو گا۔

Iftikhar Chaudhry

Iftikhar Chaudhry

تحریر: انجینئر افتخار چودھری