بھارت نے کنٹرول لائن پار کر کے مقبوضہ کشمیر تجارتی سامان لے جانے والے اس پاکستانی ٹرک ڈرائیور کو رہا کرنے سے مکمل انکار کرتے ہوئے اس کا ریمانڈ 4 مارچ تک بڑھا دیا ہے جس پر الزام ہے کہ وہ گزشتہ ماہ سوا ارب مالیت کی منشیات لے کر مقبوضہ کشمیر پہنچا تھا۔ محمد شفیع نامی اس ڈرائیور کے ٹرک میں موجودعام استعمال ہونے والی شکر کو بھارت نے منشیات قرار دیا تھا جو پاکستان میں ہر جگہ دستیاب ہے اور اسے پاکستان میں شوق سے استعمال کیا جاتاہے۔ پاکستان اس بات کی بارہا وضاحت کر چکا ہے لیکن بھارت تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اس واقعہ کے بعد جہاں کنٹرول لائن پر جاری تجارت معطل ہوئی تو وہیں آزاد و مقبوضہ کشمیر میں دونوں طرف ٹرک ڈرائیورز کو روک لیا گیا تھا جنہیں کئی دن بعد چھوڑ دیا گیا لیکن پاکستانی ٹرک ڈرائیور کی جان نہیں چھوٹ رہی۔
اس سے زیادہ افسوسناک امر یہ ہوا کہ بھارت نے ہمارے ٹرک ڈرائیور پر یہ الزام عائد کر دیا کہ وہ اکیلا نہیں بلکہ اس کا پورا نیٹ ورک بھارت میں منشیات پھیلا رہا ہے۔ اس کے بعد بھارت نے اگلی چال یہ چلی کہ ٹرک ڈرائیور کو گرفتار رکھ کر ہی بس سروس ہی نہیں بلکہ تجارت کو بھی بحال کرا دیا جائے لیکن اس مذموم سازش کے خلاف ٹرک ڈرائیورز ایسوسی ایشن، آزاد کشمیر کے عوام اور ٹرک ڈرائیور محمد شفیع کے رشتہ دار آڑے آ گئے اور انہوں نے اس پر سخت احتجاج شروع کر دیا کہ محمد شفیع کی رہائی تک تجارت نہیں ہونے دی جائے گی۔
گزشتہ ہفتے اس حوالے سے مظفر آباد میں احتجاج کرنے والے لوگوں پرپولیس ٹوٹ پڑی اور انہیں مار مار کر بھگا دیا گیا۔ ابھی یہ معمہ حل نہیں ہوا۔مظفر آباد میںشدید تنائو کی کیفیت ہے۔شہر میں دھرنے دیئے جا رہے ہیںتو لوگ چکوٹھی میں بھی سراپا احتجاج ہیں۔ابھی یہ معاملہ جوں کا توں تھا کہ 22فروری کو بھارت سے اگلی خبر آئی کہ مقبوضہ جموںکی جیل میں قید ایک پاکستانی شہری بھارتی فورسز کے تشدد سے شہید ہو گیا ہے۔
حسب روایت بھارت نے اسے خودکشی قرار دے دیا۔ شوکت علی نامی اس پاکستانی کو 2011ء میں نارووال کے علاقے میں غلطی سے سرحد پار کرنے پر گرفتار کیا گیا ۔بھارت نے اسے مقدمہ چلا کراسے ایک سال کی قید سنائی ۔اب اس کی سزا مکمل ہوئے دو سال بھی بیت چکے تھے لیکن بھارت اسے رہا کرنے سے انکاری تھا۔ اس واقعہ کے بعد جب یہ واقعہ میڈیا میں معمول سے زیادہ نمایاںہوا تو پاکستانی دفتر خارجہ نے معمولی سی جھرجھری لی اور پھر خاتون ترجمان تسنیم اسلم نے صرف یہ کہنے کی تکلیف گوارہ کی کہ بھارت ان پاکستانی قیدیوں کو رہا کرے جو اپنی سزا مکمل کر چکے ہیں۔ ساتھ ہی انتہائی کمزور الفاظ میں پاکستانی ٹرک ڈرائیور کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا گیا۔ دوسری طرف عین اس موقع پر بھارت کے وزیر خارجہ سلمان خورشید (جو بدقسمتی سے برائے نام مسلمان بھی ہیں) نے پاکستان کو ایک بار پھر رگیدتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اگر پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات شروع کرنا چاہتا ہے تو اسے ممبئی حملوں کے الزام میں گرفتار اپنے شہریوں کو سخت سزا دینا ہو گی، اس کے بغیر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔
اب آپ ذرا خود پاکستان اور بھارت دونوں کے موقف اور پالیسیوں پر ہلکی سی نظر کر فیصلہ کیجئے کہ دونوں ممالک کہاںکھڑے اورکیسی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ پاکستان اپنے بے گناہ شہری کی گرفتاری پر چپ سادھا نظربیٹھا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بھارت جو مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر منشیات پھیلا کر ساری کشمیری قوم کو تباہ و برباد کر رہا ہے ،اس موقع پر اس کا اصل پول کھولا جاتا ۔بھارت نے اپنے پنجاب میں سکھوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لئے جو ہتھکنڈے استعمال کئے تھے ان میں سے ایک یہی منشیات کا وہاں بڑے پیمانے پر پھیلائو بھی تھاجس سے سکھ نوجوانوں کی بڑی تعداد متاثر ہوئی ۔بھارت یہی حربہ مقبوضہ کشمیر میں استعمال کر رہا ہے لیکن کوئی اس کی بات ہی نہیں کرتا ۔یہ تو کشمیری قوم کی اسلام سے وابستگی اور محبت کا نتیجہ ہے کہ وہاں کے لوگ منشیات سے آج بھی بہت حد تک اپنا دامن بچائے ہوئے ہیں ورنہ بھارت نے تو کوئی کسر نہین چھوڑی۔افسوس کہ پاکستان اس پر کوئی بات کرتا نظر یہ آیا کہ جیسے جان بوجھ کر الٹا اپنے شہری کو ہی اب تک بھلانے کی ہی کوشش کی گئی ہے۔
کیا ہم بھول گئے کہ امریکہ نے اپنے ایک شہری ریمنڈڈیوس جس نے دن دیہاڑے سب کے سامنے دو پاکستانی قتل کئے تھے ،کو بھی رہا کروانے کے لئے ہر حد پار کی تھی جبکہ پاکستان اپنے شہری کو دشمن کی قید میں جانے کے باوجود بھول کر پھر سے تجارت کھولنا چاہتا ہے جیسے اپنے شہری کی کوئی قیمت ہی نہیں۔جیسے اپنا شہری تو پہاڑ کا ایک پتھر ہے جو دوبارہ کہیں سے بھی اکھاڑا جا سکتا ہے۔ ظلم کی حد دیکھئے کہ ہمارا ملکی میڈیا بھی بھارت کی اس سازش اور دہشت گردی پرپردہ ڈالے ہوئے ہے۔دن رات پرویز مشرف اورطالبان کا لامتناہی رونا رونے میں بھارت کا کہیں ڈھونڈے سے بھی نام نہیں ملتا۔ ذرا سوچئے ! اگر پاکستان بھارت کے کسی فرد کو اس طرح گرفتار کر لیتا تو پھر ہمارے اسی میڈیا کا کردار کیا ہوتا؟ اور دوسری طرف بھارت اس کو رہا کروانے کیلئے کیا کچھ نہ کرتا۔
Pakistani India
بھارت نے ہمارے ٹرک ڈرائیور کو اس لئے بھی پکڑ رکھا ہے کہ پاکستان اب تک بھارت کو پسندیدہ ترین تجارتی قوم کا درجہ دے کر اس کے ساتھ ہر طرح کی تجارت کھولنے پر تیار نہیں ہوا۔ یعنی بھارت یہ چاہتا ہے کہ وہ پاکستان کی ہر پالیسی خود طے کرے۔ کیا اس طرح بھارت کو ہم اپنی گردنوں پر مسلط کر سکتے ہیں؟ ہم تو اول روز سے کہہ رہے ہیں کہ بھارت سے جبری اور یک طرفہ دوستی، پیار اور تجارت کیلئے بے قرار ہونا چھوڑیئے ورنہ آپ کو بھارت سانس لینے کا حق بھی نہیں دے گا اور یہی ہو بھی رہا ہے۔ بھارت میں اس وقت ہمارے وہ قیدی سینکڑوں میں ہیں جو وہاں پر ان کی عدلیہ سے ملنے والی سزائیں سالہا سال سے پوری کر چکے ہیں، کئی قیدی تو دوگنا سے بھی زیادہ قید کاٹ چکے ہیں لیکن بھارت ان قیدیوں کو رہا کرنے کا نام بھی نہیں لیتا۔ کئی بار تویہ مذاق کیا جاتا ہے کہ قیدیوں کو واہگہ بارڈر پر لایا جاتااور پھر پاکستان کو دینے کے بجائے واپس لے جا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ تماشا سالہا سال سے جاری ہے لیکن پاکستان کی جانب سے کبھی اس پر بات نہیں ہوتی۔ آخر کیوں؟ دوسری طرف پاکستان میں بھارتی قیدیوں کے احوال پر نگاہ ڈالئے۔ اس وقت پاکستان میں کوئی ایک بھارتی قیدی ایسا نہیں ہے جو یہاں کی عدالتوں سے ملنے والی سزا پوری کر چکا ہو اور پھر بھی قید میں ہو۔
آخر یہ کیسی پالیسیاں ہیں کہ ہم اپنے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال کر اور نظریں جھکا کر یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ ہمیں عزت دے گا اور ہم سرخرو ہو جائیں گے۔ تاریخ، وقت، حالات اور تحقیقات سمیت ہر پہلو سے بھارت ممبئی حملوں کے حوالے سے جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔ وہ ممبئی حملوں کے سلسلے میں پاکستان میں گرفتار افراد کے خلاف ایسے ٹھوس دلائل نہیں دے سکا جنہیں عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا جا سکتا لیکن وہ پھر بھی اپنے موقف پر ہر روز پہلے سے زیادہ دبائو ڈال رہا ہے۔ وہ اس سلسلے میں امریکہ کے بھی پائوں پکڑ رہا ہے لیکن پاکستان کو بخشنے پر تیار نہیں۔
بات سیدھی اور صاف ہے کہ دنیا میں پسپائی کی کبھی کوئی حد نہیں ہوتی۔آپ نے بھارت کے کہنے پر ممبئی حملوں کے نام پر اپنے سات بے گناہ شہری گرفتار کئے لیکن بھارت ساڑھے 5سال ان لوگوں کو قید میں رکھنے کے باوجود نہ راضی ہے اور نہ دبائو کم کرنے پر تیار ہے ۔اس لئے اگر ہم نے عزت کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو بھارت کے سامنے لیٹنا اور بچھنا بندکرنا ہو گا۔
حکومت کی قبائلی علاقوں میں حملوں اور آپریشن سے پہلے یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے ٹرک ڈرائیور کو بھارت سے رہا کروائے اور پھراس کے ساتھ ہی اپنے ان شہریوں کو جو بھارت میں اپنی قید سالہا سال سے مکمل کر تک کرچکے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے آج تک کبھی پاکستانی مفادات پر حملہ نہیں ہوا۔ ان لوگوں کی تاریخ تو آزاد کشمیر ہمیں بھارت سے لے کر دینے سے لے کر آج تک صرف پاکستان کی وفاداری سے عبارت ہے۔ہمیں پہلے اس خطرے کا تدارک کرنا چاہیے جو حقیقی ہے۔ ہمیں تاریخ کا وہ سبق بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کس طرح عزت مند قومیں اپنے ایک شہری کی خاطر جنگ پر آمادہ ہو جاتی ہیں اور کٹ مرتی ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ ایسی ہی قوموں کو دنیا میں عزت ملتی ہے۔ یہی پالیسی ہمیں بھی اپنانی ہے۔