پنجاب کے شہر جھنگ میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان 3 جنوری کو شاندار سیاسی میچ کھیلا جائیگا اور دونوں طرف سے گھوڑے دوڑنا شروع ہوگئے ہیں پی پی 81 جھنگ کے یہ الیکشن اس نوعیت سے بھی اہم ہیں کہ جو جماعت یہ سیٹ جیتے گی عوام کی سوچیں بھی اسی کے ساتھ ہی تبدیل ہونا شروع ہوجائیں گی اب بات چل نکلی ہے۔
جھنگ کی تو میں اپنے پڑھنے والوں جھنگ کی تاریخ کے حوالہ سے بتاتا چلوں کہ اگر اس شہر کے سیاستدان جتنے اپنے آپ کے ساتھ مخلص ہیں اتنے ہی اگر اس شہر اور اس شہر کے باسیوں کے ساتھ مخلص ہوتے تو جھنگ آج جس طرح بے یارو مددگار ہے کبھی نہ ہوتا جھنگ کی تاریخی، ثقافتی، علاقائی، زرعی، سیاسی، مذہبی، ریونیو کی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہے جھنگ کو 1849ء میں ضلع کادرجہ دیاگیا جس کی حدیں اس وقت ضلع حافظ آباد، سرگودھا، خوشاب، بھکر، لیہ ،مظفر گڑھ ، خانیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور فیصل آباد سے ملتی تھیں 1851ء میں جھنگ کاکچھ حصہ الگ کرکے ملتان میں شامل کردیا گیا۔ بعد ازاں 1854ء میں کوٹ عیسیٰ شاہ کے جنوبی علاقہ فروکہ کو اس وقت کے ضلع شاہ پور سرگودھا میں ضم کردیاگیا ساہیوال کو جھنگ سے الگ کرکے منٹگمری کے نام سے الگ ضلع بنا دیا گیا 1890ء میں لیہ کو جھنگ سے الگ کرکے مظفر گڑھ میں شامل کر دیا گیا۔
اسی طرح 1895 ء میں حیدر آباد تھل کو ضلع میانوالی اور پنڈی بھٹیاں کو ضلع گوجرانوالہ سے منسلک کردیاگیا جھنگ کے ٹکڑے کرنے کا سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ 1900ء میں ٹوبہ اور سمندری سمیت دیگر 34 دیہاتوں کو تحصیل لائلپورمیں شامل کرکے اسے الگ ضلع کادرجہ دے کر جھنگ کے ٹکڑوں میں ایک اور ٹکڑے کااضافہ کردیاگیا اسکے بعد فیصل آباد جو کسی وقت جھنگ کی تحصیل تھا کو ڈویژن بنا کر جھنگ کو اس کے ساتھ منسلک کردیاگیا یہاں تک کہ 2009ء میں جھنگ کی سب سے زیادہ ریونیو دینے والی تحصیل چنیوٹ کو بھی الگ کرکے ضلع بنا دیا گیا 1881ء کی انٹرنیشنل ٹریڈرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق اس وقت کے ضلع جھنگ میں 8144 کاٹن فیکٹریز، 10 وولن ملز، 5 پیپر ملز، 1730 لکڑی کے کارخانوں، 463 لوہے کے کارخانوں، 22 پیتل و تانبا فیکٹریوں، 235 ڈائنگ ملز، 1952 چمڑے کے کارخانوں سمیت یہاں فیکٹریز کی کل تعداد 16178 تھی جو ترقی کرکے زیادہ ہونے کی بجائے جھنگ کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے باعث اب صرف 151 رہ گئی ہے جن میں 21 ٹیکسٹائل یونٹ، 19 جننگ فیکٹریاں، 19 فلورملز، 5 شوگر ملز، 4 گھی ملز، 59 رائس ملز، 24 آئل ملز شامل ہیں۔
Election
اس وقت 400 سے زائد سپوت جھنگ کی مٹی سے جنم لے کر ملک کے مختلف اہم ترین انتظامی و کلیدی عہدوں پر فائز ہیں جھنگ کے سیاستدان بھی ہردور میں اہم مناسب پر براجمان رہے لیکن انہوں نے جھنگ کی ترقی کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کیا یہ تو تھا جھنگ کا قصہ اور اس شہر کے ساتھ اتنا ظلم کیوں ہوا اس بارے میں وہاں کی عوام بہتر جانتی ہیں کہ انکے ساتھ وفاداری کس نے نبھائی اور انکی معاشی ترقی کا جنازہ کس نے نکالا۔
ابتدا کی تھی جھنگ میں ہونے والے سیاسی دنگل کی اب ذرا اس حوالہ سے بھی اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ 11 مئی 2013ء کو اس حلقہ میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار افتخاربلوچ نے 182774 میں سے 41440 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ آزاد امیدوار سید محمد عباس شاہ 34613 ووٹ لے کر دوسرے اور آزاد امیدوار غلا م احمد گاڈی 28511 ووٹ لے کر تیسرے نمبر پر رہے تھے۔ اسی طرح 2008ء کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے آزاد امیدوار افتخاراحمد خان بلوچ 29615 ووٹ لے کر کامیابی سے ہمکنارہوئے تھے۔
انہوں نے 28976 ووٹ حاصل کرنے والے پاکستان مسلم لیگ کے امیدوار چراغ اکبر، 25264 ووٹ لینے والے آزاد امیدوار غلام احمد گاڈی اور 3325 ووٹ لینے والے پی پی پی کے امیدوار اسلم سلیانہ کو شکست سے دوچار کیا تھا۔ 11مئی کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد افتخار بلوچ کو جعلی ڈگری کی بنیاد پر نااہل قراردے دیاگیا جن کی جگہ پر مسلم لیگ (ن) نے اب 3مارچ کے ضمنی انتخاب کیلئے ان کے چچا حاجی محمد خان بلوچ کو مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ جاری کیا ہے جن کا مقابلہ پاکستان تحریک انصاف کے رائے تیمور حیات بھٹی سے ہو رہا ہے۔
اب اس حلقہ میں دلچسپ صورتحال یہ بنی ہوئی ہے کہ پی پی پی کی مرکزی رہنما ہونے کے باوجود الیکشن سے دستبرداری کا اعلان کرنے والی سابق پارلیمنٹیرین سیدہ عابدہ حسین نے سابقہ انتخابات میں اپنے بد ترین مخالف افتخار احمد بلوچ کے چچا محمد خان بلوچ کی حمایت کا اعلان کیاہے مگر فیصل صالح حیات تحریک انصاف کے امیدوار رائے تیمور حیات بھٹی جو جواں سال، ملنسار، خوش اخلاق اور اہم خاندان سے تعلق رکھتے ہیں کی انتخابی مہم کیلئے د ن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔